حضرت عبد الرحمن بن عوف ؓ
حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ اُن دس خوش قسمت صحابہ میں شامل ہیں جنہیں آنحضور ﷺ نے اس دنیا میں ہی جنت کی بشارت دیدی تھی۔ ماہنامہ ’’خالد‘‘ ربوہ اکتوبر 2004ء میں آپ کے متعلق ایک مضمون شامل اشاعت ہے۔
آپؓ 581ء میں پیدا ہوئے۔ والد کا نام عوف اور والدہ کا نام شفاء تھا۔ مسلمان ہونے سے پہلے آپ کا نام عبد الکعبہ یا عبد عمرو تھا۔ اسلام لانے کے بعد آنحضرت ﷺ نے آپ کا نام عبد الرحمن رکھا۔ آپ کی کنیت ابو محمد تھی۔ آپ نے آنحضور ﷺ کے دارارقم میں داخل ہونے سے پہلے ہی اسلام قبول کر لیا تھا۔ اس طرح آپ اوّلین اسلام قبول کرنے والوں میں شامل ہوتے ہیں۔
بعثت نبوی کے پانچویں سال 616ء میں آپؓ نے بھی بعض دیگر مسلمانوں کے ساتھ حبشہ کی طرف ہجرت کی۔ جب کفار کے بھجوائے ہوئے وفد کو حبشہ کے بادشاہ نجاشی نے ناکام واپس بھیج دیا تو کفار نے یہ بات حبشہ میں پہنچائی کہ مکہ کے لوگ مسلمان ہوگئے ہیں۔ اس خبر سے کچھ مسلمان خوشی میں واپس آگئے جن میں حضرت عبد الرحمن بن عوفؓ بھی تھے۔ جب مکہ پہنچ کر سچائی کا علم ہوا، تو پھر واپس حبشہ چلے گئے۔
ہجرت مدینہ کے بعد مواخات کے موقعہ پر حضرت نبی کریم ﷺ نے آپ کو حضرت سعد بن الربیع انصاریؓ کا بھائی بنایا۔ حضرت سعد ؓ نے اپنا تمام مال گن کر نصف حضرت عبد الرحمنؓ کے سامنے رکھ دیا اور جوش محبت میں یہاں تک کہہ دیا کہ میری دو بیویاں ہیں ایک کو میں طلاق دیدیتا ہوں، عدت کے بعد تم اس سے شادی کر لینا۔ حضرت عبد الرحمنؓ نے جواب دیا کہ یہ سب کچھ اللہ تمہیں مبارک کرے، مجھے بازار کا راستہ بتادو۔ چنانچہ آپؓ نے تجارت شروع کر دی اور جلد ہی مدینہ کے امیر کبیر آدمی بن گئے۔ پھر مدینہ کی ہی ایک لڑکی سے شادی کرلی۔ آنحضرت ﷺ نے جب ان کے کپڑوں پر زعفران کا رنگ دیکھا (جوعربوں کے دستور کے مطابق شادی کی علامت سمجھا جاتا تھا) تو دریافت فرمایا کہ یہ کیا ماجرا ہے؟ اس پر آپ نے جواب دیا کہ میں نے شادی کرلی ہے۔ آپﷺ نے فرمایا کہ حق مہر کیا دیا ہے؟ حضرت عبد الرحمن ؓ نے جواب دیا: کھجور کی ایک گٹھلی کے برابر سونا دیا ہے۔ آپؐ نے فرمایا کہ: اب ولیمہ کی دعوت کرو خواہ صرف ایک بکری کے گوشت کی ہی کیوں نہ ہو۔
آپؓ تمام غزوات میں شریک رہے۔ آپؓ کی ہی روایت ہے کہ غزوۂ بدر میں مَیں نے اپنے دائیں بائیں نظر ڈالی تو انصار کے دو نوجوان لڑکوں کو دیکھ کر میرا دل کچھ بیٹھ سا گیا کیونکہ وہی شخص اچھی طرح لڑ سکتا ہے جس کے پہلو محفوظ ہوں۔ میں اسی خیال میں تھا کہ اُن میں سے ایک نے مجھ سے پوچھا کہ ابوجہل کہاں ہے۔ میں نے ابھی اس کا جواب نہ دیاتھا کہ دوسرے نے بھی یہی سوال کیا تو مَیں ان کی یہ جرأت دیکھ کر حیران سا رہ گیا۔ کیونکہ ابوجہل گویا سردار لشکر تھا اور اس کے چاروں طرف آزمودہ کار سپاہی جمع تھے۔ میں نے ہاتھ سے اُس کی طرف اشارہ کیا تو دونوں بچے باز کی طرح جھپٹے اور دشمن کی صفیں کاٹتے ہوئے اس تیزی سے وار کیا کہ ابوجہل خاک پر تڑپتا نظر آیا۔ عکرمہ اپنے باپ کو تو نہ بچا سکا مگر اس نے پیچھے سے معاذ پر ایسا وار کیا کہ اُس کا بایاں بازو کٹ کر لٹکنے لگ گیا۔ معاذ نے عکرمہ کا پیچھا کیا مگر وہ بچ کر نکل گیا۔ پھر چونکہ کٹا ہوا بازو لڑنے میں مزاحم ہوتا تھا اس لئے معاذ نے اسے زور کے ساتھ کھینچ کر اپنے جسم سے الگ کردیا اور لڑائی میں شامل ہوگئے۔
حضرت عبد الرحمنؓ کثرت سے صدقہ و خیرات کیا کرتے تھے۔ آپؓ نے تجارت میں اتنی ترقی کی کہ ایک دفعہ آپ کا تجارتی قافلہ جب مدینہ آیا تو اس میں سات سو اونٹ پر صرف گندم اور دوسری اشیائے خوردنی لدی ہوئیں تھیں۔ آپؓ نے یہ پورا قافلہ مع اسباب وسامان بلکہ اونٹ اور کجاوہ تک راہِ خدا میں وقف کردیا۔ بیان کیا جاتا ہے کہ آپ ایک ہی دن میں تیس ، تیس غلام آزاد کر دیتے تھے۔ ایک دفعہ آپؓ نے اپنی زمین چالیس ہزار دینار میں حضرت عمرؓ کے ہاتھ فروخت کی اور سب مال راہِ خدا میں لٹا دیا۔ آپ ؓ نے 31ھ میں اُس وقت تک زندہ قریباً ایک سو بدری صحابہ کے لئے چار چار سو دینار کی وصیت کی۔ امہات المومنین کے لئے بھی ایک باغ کی وصیت کی جو چار لاکھ درہم میں فروخت ہوا۔ نیز اس کے علاوہ مختلف مواقع پر بڑی بڑی رقمیں پیش کیں۔ ایک دفعہ وہ جائیداد پیش کی جو چالیس ہزار دینار میں فروخت ہوئی۔
آپؓ آنحضور ﷺ کی قبر میں اترنے والے اُن چاراصحاب میں سے ایک تھے جنہوں نے آنحضورﷺ کی قبر تیار کی۔
آپؓ کی وفات 31ھ میں 72سال کی عمر میں ہوئی، حضرت عثمان غنیؓ نے نماز جنازہ پڑھائی اور جنت البقیع میں دفن کئے گئے۔