حضرت فضل عمرؓ کا علمی ذوق
جماعت احمدیہ امریکہ کے دو ماہی رسالہ ’’النور‘‘ جنوری فروری 2006ء میں حضرت مصلح موعودؓ کے علمی ذوق کے بارہ میں ایک مضمون شامل اشاعت ہے۔
حضرت مصلح موعودؓ کی مختلف النوع تقاریر اور کتب و مضامین سے یہ ثابت ہوجاتا ہے کہ آپ کو اللہ تعالیٰ نے ظاہری و باطنی علوم سے پُر کیا ہوا تھا۔ لیکن دوسری طرف آپؓ کا مطالعہ بھی اتنا زیادہ تھا جس کا عام آدمی تصور بھی نہیں کرسکتا۔ حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ صاحبؓ بیان کرتے ہیں کہ حضورؓ نے صدر انجمن احمدیہ کا نہایت کامیاب نظام جاری فرمانے سے قبل انسانی جسم کی بناوٹ کے متعلق ضخیم طبی کتب کا مطالعہ فرمایا تاکہ دل و دماغ اور جوارح کا باہم تعلق معلوم کرکے اس نظام سے استفادہ کرتے ہوئے جامع اور نقائص سے پاک انتظام جاری کیا جاسکے۔ آپؓ کی لائبریری میں تمام علوم کی بنیادی کتب موجود تھیں یہاں تک کہ مرغ بانی کے متعلق تین جلدوں پر مشتمل ایک کتاب بھی موجود ہے۔ عطر کے موضوع پر بھی بہت سی کتب کا مطالعہ کیا ہوا تھا۔ آپؓ ہر کتاب کو پڑھ کر صحیح نتیجہ اخذ کرنے کی صلاحیت سے مالا مال تھے۔ ایک بار کسی نے سوال کیا کہ حضورؓ کو تصوف کی کونسی کتاب پسند ہے تو حضورؓ نے فرمایا: ’’مجھے تو قرآن پسند ہے۔ اگر اس سے آپ کی تسلّی نہیں ہوتی تو مَیں کسی اَور کتاب کا نام بھی بتا دیتا ہوں… سید عبدالقادر جیلانیؒ کی فتوح الغیب بڑی صاف کتاب ہے اور ہر قسم کی لغویات اور اصطلاحات سے پاک ہے … اُس سے اُتر کر مثنوی رومی بڑی اعلیٰ درجہ کی کتاب ہے۔
اسی طرح ایک مجلس میں مسند احمد بن حنبل کے متعلق ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے حضورؓ نے فرمایا: ’’حضرت خلیفہ اوّلؓ نے ایک دفعہ مسند احمد بن حنبل کے متعلق فرمایا کہ یہ حدیث کی ایک نہایت معتبر کتاب ہے مگر اس میں بعض ایسی روایات بھی شامل ہوگئی ہیں جو کمزور ہیں۔ امام احمد بن حنبل کا ایک لڑکا تھا جو عبداللہ تھا، اس کے متعلق آپؓ نے فرمایا کہ اس کی روایات درست ہیں مگر کچھ اور روایات کا ذکر کیا کہ وہ ایسی محفوظ نہیں ہیں اور آپؓ نے فرمایا: میرا دل چاہتا تھا اصل کتاب کو علیحدہ کرلیا جاتا مگر یہ کام میرے وقت میں نہیں ہوسکا، اس کے بعد میرا نام لے کر فرمایا: میاں! یہ کام شاید آپ کے وقت میں ہوجائے۔ مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب بھی اس وقت موجود تھے۔ مجھے آپؓ کی بات سے معلوم ہوتا تھا کہ اس میں دو قسم کی روایتیں ہیں مگر جب مَیں نے خود کتاب پڑھی تو مجھے معلوم ہوا کہ اس میں دو قسم کی نہیں چھ قسم کی روایات ہیں…‘‘
اس کے بعد حضورؓ نے تفصیل سے مسند کی روایات کی مختلف اقسام پر روشنی ڈالی۔ یہ کتاب حدیث کی ضخیم ترین کتاب ہے اور حضورؓ کا اس کے متعلق تبصرہ بتاتا ہے کہ آپؓ علم حدیث اور علم اصول حدیث کا وسیع مطالعہ کرچکے تھے۔
حضورؓ نے کئی بار ذکر کیا کہ بچپن میں حضورؓ کی تعلیمی حالت بیماریوں کی وجہ سے بہت خراب رہی۔ کبھی کسی امتحان میں شامل نہیں ہوئے اور اگر شامل ہوئے تو پاس نہ ہوسکے۔ لیکن خدا تعالیٰ نے آپؓ کو خود ہر قسم کے علوم سکھائے۔ چنانچہ ایک بار فرمایا: ’’مَیں نے کبھی کوئی امتحان پاس نہیں کیا لیکن سلسلہ میں جب بعض M.A. ، B.A. اور مولوی فاضل خیال کرنے لگے کہ ہماری وجہ سے کام ہورہا ہے تو خدا تعالیٰ نے ان کے خیال کو غلط ثابت کرنے کے لئے ایک ایسے شخص کو منتخب کیا جسے دنیا کبھی کوئی وقعت نہ دیتی۔ مَیں انگریزی تعلیم سے محروم ہوں بلکہ جن معنوں میں آجکل سمجھا جاتا ہے عربی سے بھی۔ لیکن خدا تعالیٰ نے مجھے کھڑا کرکے میرے ذریعہ دونوں انگریزی اور عربی دانوں کو شکست دیدی۔ … خدا تعالیٰ میرے ذریعہ میرے مخالفوں کو ایسی شکست دے گا جو تاریخی ہوگی۔ اگر وہ کہیں کہ پہلے ہمیں پتہ نہ تھا کہ تم چیلنج کرتے ہو تو اب سن لیں۔ مجھے اللہ تعالیٰ نے دنیوی علوم سے اس لئے محروم رکھا تا وہ خود میرا معلّم بنے۔ …‘‘
جب مسٹر ساگرچند بیرسٹر ایٹ لاء نے ہندومذہب ترک کرکے اسلام قبول کیا تو حضورؓ نے اُن کو نصائح کرتے ہوئے یہ بھی فرمایا: ’’ایمان کی خصوصیت ہے کہ خدا خود سمجھائے۔ بیسیوں دفعہ نئے سے نئے علوم سامنے آتے ہیں۔ مَیں نے دیکھا ہے بعض لوگ گھبرا جاتے ہیں لیکن مجھے اس وقت اس کے متعلق اللہ تعالیٰ علم دیتا ہے اور اس وسعت سے دیتا ہے کہ حیرت ہوتی ہے اور ایسے علم دیتا ہے جن کے متعلق پہلے میں نے کبھی کوئی بات نہ پڑھی ہوتی ہے نہ سنی۔ اور وہ علم جو آتا ہے وہ خدا کی طرف سے کشف کے طور پر آتا ہے‘‘۔
مالیات اور تاریخ کے مطالعہ کی وسعت کا اندازہ حضورؓ کے ان فقرات سے لگایا جاسکتا ہے۔ فرمایا: ’’تاریخ پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ جو روپیہ تنظیم پر خرچ ہوتا ہے وہ نظروں سے پوشیدہ ہوتا ہے اس لئے قوم کی طرف سے جب بھی کوئی اعتراض ہوتا ہے وہ تنظیم سے متعلقہ اخراجات ہی پر ہوتا ہے… اگرچہ ایسا اعتراض کرنا حماقت ہوتا ہے کیونکہ سب سے اہم چیز مرکزیت ہوتی ہے۔ لیکن واقعہ یہی ہے کہ ہمیشہ ان اخراجات پر اعتراض کیا جاتا ہے۔ تم انگلستان کی تاریخ کو لے لو، جاپان کی تاریخ کو لے لو، روس کی تاریخ کو لے لو، جب کبھی بھی میزانیہ پر اعتراض ہوا ہے تو اس کے اسی حصہ پر ہوا ہے جو تنظیم کے لئے خرچ ہوا ہے کیونکہ یہ اخراجات نظر نہیں آتے‘‘۔
مکرم شیخ محمد اسماعیل صاحب پانی پتی بیان کرتے ہیں کہ مَیں نے سنسکرت کی مشہور کتاب’’ کلیلہ دمنہ‘‘ کی تاریخ اور اس کے مختلف ترجموں کی تفصیل میں تین سال محنت کی مگر ایک مرتبہ خطبہ جمعہ میں برسبیل تذکرہ حضورؓ نے نہایت جامعیت لیکن اختصار کے ساتھ اس کتاب کی تمام تاریخ صرف چند لفظوں میں بیان کردی اور ایسی سلاست و روانی کے ساتھ کہ مَیں بے اختیار سوچنے لگا کہ یہ عجیب و غریب واقفیت اور عجیب و غریب قابلیت کا انسان ہے۔