حضرت قاضی تاج الدین صاحبؓ
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 30؍جنوری 1999ء میں حضرت قاضی تاج الدین صاحب کا ذکر خیر محترم ڈاکٹر منور احمد صاحب کے قلم سے ایک پرانی اشاعت سے منقول ہے۔
حضرت قاضی صاحب کو 1895ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دست مبارک پر بیعت کی سعادت نصیب ہوئی۔ آپؓ کے والد قاضی غلام رسول صاحب نے اپنے گاؤں کی مسجد میں سکول کھولا ہوا تھا اس لئے گھر کا ماحول دینی اور درس و تدریس کا حامل تھا۔ چنانچہ آپؓ کو اوائل عمر ہی سے قرآن شریف سمجھ کر پڑھنے اور اس پر غور کرنے کی عادت ہوگئی۔ اللہ تعالیٰ نے اچھے ذہن سے نوازا تھا اور خود بھی محنتی طالبعلم تھے اس لئے میٹرک میں ضلع گوجرانوالہ میں اول آئے۔
آپ عقیدے کے لحاظ سے اپنے بزرگوں کی طرح اہلحدیث تھے۔ قرآن کریم کا گہرا علم رکھتے تھے اور بے چینی سے منتظر تھے کہ امام مہدی کے ظہور کا وقت تو ہوچکا ہے مگر کسی طرف سے کوئی دعویٰ کیوں نہیں ہورہا۔ اسی اثناء میں ’’براہین احمدیہ‘‘ پڑھنے کا اتفاق ہوا تو آپ کا یہ عقیدہ پختہ ہوگیا کہ اس صدی کے مجدد حضرت مرزا صاحب ہی ہیں۔ اس وقت آپ بنوں میں محکمہ جیل میں ملازم تھے۔ چنانچہ آپ نے اپنے بھتیجے محبوب عالم صاحب کو، جو آپ کے ہم عمر بھی تھے اور لاہور میڈیکل سکول میں زیر تعلیم تھے، قادیان بھجوایا۔ وہ قادیان گئے اور حضرت اقدسؑ کے چہرہ مبارک پر نظر پڑتے ہی اُن کے دل نے گواہی دی کہ یہ چہرہ کسی دروغ گو کا نہیں ہو سکتا اور انہوں نے اسی وقت بیعت کرلی۔ پھر قاضی صاحب کو تفصیل لکھی جس کے نتیجہ میں قاضی فیملی کے دوسرے افراد کے ساتھ حضرت قاضی صاحبؓ نے بھی قادیان جاکر بیعت کی سعادت حاصل کرلی۔
آپؓ بیان کرتے ہیں کہ جن امور نے مجھے سلسلہ کی طرف راہنمائی کی ان میں ایک مولوی سراج دین صاحب بھی تھے جن کا شمار گوجرانوالہ کے جید علماء میں ہوتا تھا اور وہ ’براہین احمدیہ‘ پڑھنے کے بعد حضور علیہ السلام کے بارے میں عقیدت کے جذبات رکھتے تھے۔ مولوی محمد حسین بٹالوی نے جب کفر کا فتویٰ تیار کیا تو مولوی سراج دین صاحب نے اُس پر دستخط کرنے سے انکار کردیا تھا۔
اسی طرح موضع ادھووالی میں سردار ایشر سنگھ صاحب کے پاس باوانانک کی ایک جنم ساکھی ہے۔ اس میں لکھا ہے کہ باوا نانک نے فرمایا کہ میرے چار سو سال بعد بٹالہ کے علاقہ میں ایک اوتار پیدا ہوگا۔ (باوا نانک کا سن پیدائش 1469ء ہے)۔
حضرت قاضی صاحب نے ایک دفعہ فرمایا کہ جب مجھے حضرت مولوی نورالدین صاحبؓ کے درس میں شرکت کا موقع ملا تو میں نے خیال کیا کہ حضرت مولوی صاحبؓ کے بعد قرآن کریم کا علم اللہ تعالیٰ نے مجھے ہی عطا کیا ہے۔ لیکن جیسے ہی حضرت مرزا بشیرالدین محمود احمد صاحبؓ کی تقاریر سنیں تو میں نے محسوس کیا کہ قرآن کریم کا جو علم حضرت میاں صاحب کو قدرت نے عطا کیا ہے اس کے سامنے میرے علم کی کوئی حیثیت نہیں۔ اور میں نے شکر ادا کیا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے اس تکبر سے بچا لیا۔
قرآن کریم اور دینی کتب پڑھانے کا سلسلہ اپنے مسجد سکول میں آپؓ ہمیشہ جاری رکھتے۔ علم دوست تھے اور پنجابی میں شعر بھی کہتے تھے۔ ’’الگ‘‘ تخلص کرتے تھے۔ قرآن کریم کے کچھ حصوں اور نماز کا پنجابی میں منظوم ترجمہ بھی کیا۔
آپؓ اپنا ایک خواب بیان کرتے تھے کہ گویا اللہ تعالیٰ کے دربار میں پیش ہوں۔ وہاں حضرت مسیح موعودؑ کو بھی فرشتوں کے ساتھ دیکھا۔ میں نے عرض کی کہ مجھے بھی تصوف میں کوئی درجہ عنایت فرمائیں۔ چنانچہ امتحان لیا گیا لیکن میں علم میں کامل نہ نکلا لیکن حکم ہواکہ مجھے مستی کا درجہ دیا جائے۔ جب بیدار ہوا تو ایسے لگا کہ میری سانس بھی نہیں چل رہی۔ میں نے گھر والوں کو جگایا اور خوشخبری دی کہ خدا تعالیٰ کی رحمت کا وقت آگیا ہے۔ جو بیمار ہیں اُن کی مجھے اطلاع دیں تاکہ میں ان کیلئے دعا کروں۔ چنانچہ ہمارے گھر میں جتنے بیمار تھے سب اچھے ہوگئے۔ یہ حالت میرے اوپر کوئی پانچ دن رہی۔
حضرت قاضی صاحب کو تحقیق کا شوق تھا اور ریاضی کے ماہر تھے اس لئے حضور کے دعاوی کی تاریخ اور الہامات و واقعات کی تواریخ حروف ابجد کے ذریعے قرآن کریم کی آیات سے نکالتے تھے اور اپنے دلائل کو ان اعداد سے اس طرح مزین کرتے کہ ان کو کوئی ردّ نہیں کر سکتا تھا۔
آپؓ کی بڑی صاحبزادی حضرت کریم بی بی صاحبہؓ کو لوائے احمدیت کے لئے سوت کاتنے کی سعادت حاصل ہوئی۔
حضرت قاضی صاحبؓ 16؍مارچ 1940ء کو بعمر 77 سال فوت ہوئے۔ حضرت مصلح موعودؓ نے نماز جنازہ پڑھائی اور بہشتی مقبرہ قادیان کے قطعہ صحابہؓ میں تدفین عمل میں آئی۔