حضرت قاضی محمد ظہورالدین اکمل صاحب رضی اللہ عنہ
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے صحابہ میں سے ایک بہت ہی مخلص رفیق، نامور صحافی اور شاعر حضرت قاضی محمد ظہورالدین صاحب اکملؓ تھے۔ آپؓ 25؍مارچ 1881ء کو گولیکی ضلع گجرات میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم گھر اور پھر مشن ہائی سکول گجرات میں حاصل کی۔ 1897ء میں حضرت اقدس علیہ السلام کی بیعت کی سعادت پائی۔ 1902ء میں کثرت سے قادیان جانا شروع کیا اور ’’البدر‘‘ کی تیاری میں حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا۔ 1906ء میں قادیان میں مستقل سکونت اختیار کرلی۔
حضور علیہ السلام نے حضرت قاضی صاحبؓ کی تین کتب ملاحظہ فرمانے کے بعد آپؓ کے عمدہ اور مدلّل بیان کی تعریف فرمائی۔ سیدنا حضرت مصلح موعودؓ بھی اخبار ’’الفضل‘‘ کے لئے حضرت قاضی صاحبؓ کی خدمات کو نہایت قدر کی نگاہ سے دیکھا کرتے تھے۔ حضرت اقدس علیہ السلام سے آپؓ کو عشق تھا چنانچہ قادیان میں اپنے 40 سالہ قیام کے دوران روزانہ حضور اقدسؑ کے مزار پر حاضری دیتے تھے اور کبھی خراب موسم کی بھی پرواہ نہیں کرتے تھے۔
حضرت قاضی صاحبؓ کو نہ صرف ’’الفضل‘‘ کے مینیجر اور ایڈیٹر کے طور پر کئی سال خدمات بجا لانے کی توفیق ملی بلکہ ’’تشحیذالاذہان‘‘، ’’ریویو آف ریلیجنز‘‘ (اردو) اور ’’مصباح‘‘ کے بھی آپؓ مدیر رہے۔ 23 سال کی خدمت کے بعد جب 1938ء میں آپؓ صدرانجمن احمدیہ کی ملازمت سے ریٹائرڈ ہوئے تو اس وقت آپؓ ناظم طباعت و اشاعت تھے۔
حضرت قاضی صاحبؓ کی وفات 27 ستمبر 1966ء کو ہوئی۔ حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ نے نماز جنازہ پڑھائی، جنازہ کو کندھا دیا اور تدفین کے بعد دعا کروائی۔ حضرت قاضی صاحبؓ کی 40 سے زائد تصانیف ہیں اور ان کے علاوہ مختلف مضامین کا شمار ممکن نہیں۔ صرف ایک سال (1903ء) میں آپؓ کے 136 مضامین 28 اخبارات کی زینت بنے تھے۔آپؓ کے حالات اور خدمات پر ایک مضمون روزنامہ ’’الفضل‘‘ 2 4؍مئی 1995ء میں شامل اشاعت ہے۔
…………………………………
حضرت قاضی محمد ظہورالدین اکمل صاحبؓ ایک بلند پایہ ادیب و شاعر، ماہر لسانیات اور اردو کے علاوہ عربی، فارسی، کشمیری، ہندی اور گورمکھی زبانوں کے بھی شاعر تھے۔ آپؓ نے مخالفینِ احمدیت کو شعر کا جواب شعر میں بھی دیا۔ شاعری میں ہمیشہ مقصدیت پیشِ نظر رہی۔ اکثر کہے جانے والے اشعار سے قبل پس منظر بھی بیان فرمادیتے۔ آپؓ کے مجموعہ کلام ’’نغمۂ اکمل‘‘ پر محترم انور ندیم علوی صاحب کا تبصرہ روزنامہ ’’الفضل‘‘ 9؍جولائی 1995ء میں شائع ہوا ہے۔ نمونہ کلام ملاحظہ ہو