حضرت قاضی محمد یوسف صاحبؓ
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 16؍اپریل 2005ء میں مکرم حسان الدین صاحب اپنے والد محترم حضرت قاضی محمد یوسف صاحبؓ سابق امیر صوبہ سرحد کا ذکر خیر کرتے ہوئے رقمطراز ہیں کہ آپ ہوتی (ضلع مردان) میں یکم ستمبر 1883ء کو پیدا ہوئے۔ جنوری 1901ء کو بذریعہ خط اور غالباً اسی سال دسمبر میں حضرت مسیح موعودؑ کی دستی بیعت کی توفیق پائی۔
آپؓ کسب معاش کے لئے لمبا عرصہ پشاور میں مقیم رہے۔ یہاں آپ گورنر سرحد کے سٹاف میں منشی اور پھر میر منشی کے عہدوں پر فائز رہے۔ اس دوران دعوت الی اللہ اور احمدیوں کی تربیت بھی کرتے رہے۔ شاعری اور ادب آپ کی فطرت میں تھا۔ آپ کی منظوم و نثری کاوشیں احمدیت کی دعوت میں بڑی ممد ثابت ہوئیں۔ آپؓ کی اسی مساعی کے نتیجہ میں میرے والد محترم میاں شہاب الدین کا کاخیل (جو کہ مشن کالج پشاور کے طالب علم تھے) نے احمدیت قبول کی اور اسی سال یعنی 1913-14ء میں کئی دوسرے حضرات مثلاً میجر جنرل احیاء الدین صاحب، خان خواص خانصاحب، خان بہادر دلاور خانصاحب کے علاوہ مزید کئی مقتدر ہستیاں بھی احمدیت میں شامل ہوئیں۔ صوبہ سرحد کے دیگر علاقوں چارسدہ، مردان، ہزارہ اور ڈیرہ اسماعیل خاں کے بہت سے افراد بھی آپ کی کاوشوں سے جماعت میں شامل ہوئے تھے۔ بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ صوبہ سرحد کے بہت سے لوگوں کی جماعت احمدیہ میں شمولیت آپ ہی کی مرہون منت تھی تو غلط نہ ہوگا۔
آپؓ نے اوائل جوانی سے ہی اردو، فارسی اور پشتو زبان میں شعر کہے اور نظمیں پڑھیں اور یہ سلسلہ آخری عمر تک جاری رہا۔ آپؓ کی شاعری کے دو مجموعے شائع ہوئے یعنی ’’درّعدن‘‘ (دوجلدیں)اور ’’درّمنثور‘‘۔ نیز چند نثری مجموعے بھی شائع ہوئے مثلاً ’’عاقبۃالمکذبین‘‘، ’’ظہور احمد موعود‘‘ اور ’’شہداء الحق‘‘ وغیرہ۔ آپؓ کے دل میں حضرت مسیح موعودؑ اور ان کے خلفاء کے لئے عشق کا سمندر رواں تھا۔
آپؓ کی وفات اُسی مسجد میں عین جمعہ کے وقت ہوئی جس کے لئے آپؓ نے زمین مہیا کی تھی اور اس کی تعمیر میں دن رات ایک کردئیے تھے۔