حضرت لبیدؓ بن ربیعہ عامری
حضرت مسیح موعودؑ ’’براہین احمدیہ‘‘ میں فرماتے ہیں:
’’لبید نے زمانہ اسلام کا پایا تھا اور مشرف بہ اسلام ہوگیا تھا اور صحابہ رضی اللہ عنھم میں داخل تھا اس لئے خدا تعالیٰ نے اُس کے کلام کو یہ عزت دی کہ جو آخری زمانہ کی نسبت ایک عظیم الشان پیشگوئی تھی کہ ایسی ایسی تباہیاں ہوں گی جن سے ایک ملک تباہ ہوگا، وہ اُسی کے مصرع کے الفاظ میں بطور وحی فرمائی گئی جو اُس کے منہ سے نکلی تھی … اور لبید کے فضائل میں سے ایک یہ بھی تھا جو اُس نے نہ صرف آنحضرت ﷺ کا زمانہ پایا بلکہ زمانہ ترقیاتِ اسلام کا خوب دیکھا اور 41 ہجری میں ایک سو ستاون برس کی عمر پاکر فوت ہوا‘‘-
صحابی رسولﷺ، مشہور شاعر حضرت لبیدؓ کے بارے میں ایک مضمون روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 19؍ستمبر 1998ء میں مکرم مقبول احمد ظفر صاحب کے قلم سے شامل اشاعت ہے-
حضرت لبیدؓ کا پورا نام ابو عقیل لبید بن ربیعہ عامری ہے- آپؓ کا تعلق قبیلہ ’’مضر‘‘ کی شاخ بنوعامر سے تھا- آپؓ کے والد کو سخاوت اور فقراء کی مدد کرنے کی وجہ سے فقرا کے ملجا و ماویٰ کا لقب دیا گیا-آپؓ کے ایک چچا کی جنگ میں نیزہ چلانے کی مہارت بیمثال تھی-
لبیدؓ نے بچپن ہی سے شعر کہنا شروع کردیئے تھے اور اسی بناء پر آپؓ کا خاندان اُس وقت کے بادشاہ نعمان بن منذر کے دربار میں عزت کے ساتھ دیکھا جانے لگا- بعد ازاں آپؓ نے اپنی قوم کے ساتھ مدینہ جاکر اسلام قبول کرنے کی سعادت حاصل کرلی- پھر آپؓ نے قرآن کریم حفظ کیا اور شاعری چھوڑدی- ایک دفعہ حضرت عمرؓ نے اپنے زمانہ خلافت میں آپؓ سے شعر سنانے کی فرمائش کی تو آپؓ نے سورۃالبقرہ کی بعض آیات پڑھیں اور فرمایا کہ اب میرے جذبات اور خیالات کی عکاسی اسی قرآن سے ہوتی ہے- حضرت عمرؓ نے آپؓ کے اس عشق قرآن کو دیکھ کر آپؓ کے ماہوار وظیفہ (دو ہزار درہم) میں پانچ صد درہم کا اضافہ فرمادیا-
عربی ادب کی کتب کے مطابق قبول اسلام کے بعد لبیدؓ نے صرف ایک ہی شعر کہا تھا کہ ’’تمام تعریف اُس خدا کے لئے ہے جو مجھ پر اس وقت تک موت کا وقت نہیں لے آیا جب تک میں نے جامۂ اسلام زیب تن نہیں کرلیا‘‘- حضرت لبیدؓ کی زمانہ جاہلیت کی شاعری بھی حضرت محمد مصطفی ﷺ سے مقبولیت کی سند لئے ہوئے ہے- آپؐ نے ایک بار فرمایا کہ سب سے سچی بات جو کبھی کسی شاعر نہ کہی ہو وہ لبید کی یہ بات ہے کہ
اَلاَ کُلّ شَیئیٍ مَا خلا اللّٰہ باطل،
’غور سے سنو، خدا کے علاوہ ہر شئے باطل ہے‘-
حضرت لبید بڑے فیاض، دانا، پیکر مہر و مروّت، بہادر اور قوم کے لئے غیرت رکھنے والے تھے- یہی انداز آپؓ کی شاعری میں ایسا نمایاں ہے کہ بعض محققین کہتے ہیں کہ یہ قبولِ اسلام کے بعد کی شاعری ہے- لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ آپؓ کی فطرتی سچائی ہے- آپؓ قبول اسلام سے قبل بھی توحید کے قائل تھے- آپؓ کی شاعری کا اسلوب اپنی مثال آپ اور بے نظیر ہے- آپؓ کا ایک بہت بڑا شاہکار وہ قصیدہ ہے جو عرب کے مشہور سات قصائد میں سے چوتھا قصیدہ ہے-
حضرت عمرؓ کے دورِ خلافت میں جب کوفہ کا شہر بسایا جا رہا تھا تو حضرت لبیدؓ وہاں جاکر مقیم ہوگئے اور حضرت معاویہؓ کے دور میں وفات پائی-