حضرت ماسٹر احمد حسین صاحبؓ فریدآبادی
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 18جون 2007ء میں مکرم غلام مصباح بلوچ صاحب کے قلم سے حضرت ماسٹر احمد حسین صاحبؓ فرید آبادی کے بارہ میں ایک تفصیلی مضمون شامل اشاعت ہے۔
حضرت احمد حسین صاحبؓ ولد شیخ غلام حسین صاحب قریشی دہلی کے مضافاتی علاقے فریدآباد کے رہنے والے تھے۔ آپ کے چھ بھائی اور چار بہنیں تھیں۔ آپ نے فریدآباد سے ابتدائی تعلیم حاصل کرکے علی گڑھ سے انٹرنس کیا۔ پھر کچھ عرصہ بطور ٹیچر ملازمت کی اور اسی لئے ماسٹر کہلائے۔ آپ ایک علم دوست وجود تھے اور لکھنے کی طرف رجحان پایا تھا لہٰذا ملازمت ترک کرکے اخبار ’’چودھویں صدی‘‘ راولپنڈی میں اسسٹنٹ ایڈیٹر ہوگئے۔ جب حضرت مسیح موعودؑ کی پیشگوئی بابت لیکھرام نہایت شان سے پوری ہوئی، تو بعض لوگوں کے پیشگوئی کے متعلق اعتراض کرنے پر حضور نے تحریک فرمائی کہ ’’…میں اپنے قومی بھائیوں کے سامنے یہ اپیل پیش کرتا ہوں اور ان کو اس مردانہ شہادت کے ادا کرنے کا موقعہ دیتا ہوں جس سے دنیا کے اخیر تک عزت کے ساتھ نیک مردوں کی فہرست میں ان کا نام درج رہے گا‘‘۔ (استفتاء) ۔ اس پر حضورؑ کی خدمت میں جو تصدیقی خطوط آئے اُن کا ذکر حضورؑ نے ’’تریاق القلوب‘‘ میں فرمایا ہے۔ حضرت ماسٹر صاحبؓ کا نام بھی مصدقین کی فہرست میں 61ویں نمبر پر شامل ہے۔
کتاب ’’تریاق القلوب‘‘ 1899-1900ء کی تصنیف ہے تاہم حضرت ماسٹر صاحبؓ کی بیعت کا سن معلوم نہیں۔ بیعت کے بعد آپؓ نے اپنی خداداد صلاحیت اخبار نویسی کو تبلیغ کے لئے خوب استعمال کیا۔ 1906ء میں ایک کھلی چھٹی بعنوان ’’جماعت احمدیہ اور اکابرملت‘‘ اخبار بدر میں شائع کروائی۔ نیز ذاتی طور پر آپ کی تبلیغ کی رپورٹس بھی ملتی رہیں۔ ’’چودھویں صدی‘‘ بندہونے پر ’’تاج الاخبار‘‘ کے ایڈیٹر مقرر ہوئے۔ اخبار ’’الحق‘‘ کے اسسٹنٹ ایڈیٹر بھی رہے۔ آپ ایک کہنہ مشق اور پختہ کار اہل قلم تھے۔ آپ نے متعدد مضامین اور کتابچے بھی شائع کئے مثلاً: انوکھی استانی (1918ء)، پنجاب کی سوغات، رفیق نوجوان (1898ء، راولپنڈی)، سینس تاریخ احمدی (1929ء قادیان)، معین المبلغین (1920ء)، قطرات عطر یعنی لباب احمدیت (1916ء)۔
1916ء میں دہلی میں جماعت احمدیہ کا ایک جلسہ ہوا جس میں آپ اور آپ کے بھائی حضرت شیخ عبدالرحمن صاحبؓ فریدآبادی نے بہت تعاون کیا، معاونین جلسہ کے شکرانے میں دونو کا ذکر موجود ہے۔
حضرت ماسٹر احمد حسین صاحبؓ نے تین شادیاں کیں، پہلی بیوی 1902ء میں فوت ہوگئیں اور اُن کی نماز جنازہ حضرت مسیح موعودؑ نے پڑھائی۔ دوسری بیوی نے بوجہ آپ کے احمدی ہوجانے کے نکاح فسخ کرالیا۔ آپ نے تیسری شادی محترمہ سکینہ بیگم صاحبہ سے کی۔ اس شادی کے بارہ برس بعد اللہ تعالیٰ نے آپ کو بیٹا (ڈاکٹر محمد احمد صاحب مدفون بہشتی مقبرہ ربوہ) عطا فرمایا ۔ ان دنوں آپ ایڈیٹر الفضل تھے۔ چنانچہ اس خوشی میں آپ نے اعلان ولادت کے آخر میں تحریر کیا: ’’دس خریداروں کو الفضل ایک سال تک بجائے چھ روپے کے پانچ روپے میں دیاجائے گا، ایک ایک روپیہ فی خریدار خاکسار احمد حسین فریدآبادی بطور شکرانہ تولید فرزند خود داخل کرے گا۔ انشاء اللہ‘‘
آپ کی ایک بیٹی حمیدہ بیگم اہلیہ مکرم سید نذیر احمد صاحب بھی تھیں (مدفون بہشتی مقبرہ ربوہ)۔
حضرت احمد حسین صاحبؓ فریدآبادی نے 31 جنوری 1922ء کی شام ایک لمبی علالت کے بعد وفات پائی۔ آپ ابتدائی موصیان میں شامل تھے۔ آپ کا وصیت نمبر 5ہے۔ آپ کی وفات پر حضرت قاضی ظہورالدین اکمل صاحبؓ نے لکھا: 1915ء میں الفضل کی ایڈیٹری پر بلوائے گئے اور قریباً ایک سال تک کام کیا پھر الفضل کی ایڈیٹری کا کام آپ سے لے لیا گیا مگر آپ یہیں کے ہو رہے اور کتابوں کی ایک دکان کرلی۔ بچوں کے مختلف رسالے بھی نکالے مگر مناسب قدردانی نہ ہوئی۔ ترجمہ انگریزی سے اردو میں خوب کرتے تھے۔ یہاں تک کہ سرسری نظر میں یہ معلوم نہ ہوسکتا تھا کہ ترجمہ ہے۔ اپنی عمر کے آخری دنوں میں مرحوم کو یہ خیال تھا کہ احمدی بچیوں کے لئے ایک نصاب تعلیم تیار ہوجائے چنانچہ اس سلسلہ میں آپ نے انوکھی استانی، نرالی سہیلی دوکتابیں لکھیں۔… معاملہ کی صفائی کا یہ حال تھا کہ اپنی وفات سے دوچار روز پہلے مجھے گھر بلایا اور جن لوگوں سے لین دین تھا ان کا قرضہ اتارنے کی نسبت گفتگو فرمائی۔ حتی الوسع یہ ارادہ تھا کہ کسی کااحسان نہ ہو اور میں روپیہ ادا کردوں۔ مرحوم کی سادہ زندگی، مرحوم کا خلوص، مرحوم کی قابلیت ادبی عرصہ تک مرحوم کی یاد ہمارے دلوں میں تازہ رکھے گی…۔
آپؓ کے ایک بڑے بھائی، جو آپ کی تبلیغ سے ہی احمدی ہوئے تھے، حضرت شیخ عبدالرحمن صاحب مسکینؓ فریدآبادی کو حضرت مسیح موعودؑ کی مجلس میں اپنی نظمیں سنانے کا شرف حاصل تھا۔ انہوں نے 13دسمبر 1935ء کو دہلی میں بعمر 65 سال وفات پائی اور بوجہ موصی ہونے کے بہشتی مقبرہ قادیان میں دفن ہوئے۔
آپؓ کی بیوی محترمہ سکینہ بیگم صاحبہ آپؓ کی وفات کے بعد حضرت شیخ محمد اسماعیل صاحبؓ سرساوی یکے از 313 اصحاب کے عقد میں آئیں۔ 15نومبر1967ء کو اُن کی وفات ہوئی اور بہشتی مقبرہ ربوہ میں دفن ہوئیں۔