حضرت مرزا دین محمد صاحب آف لنگروال
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 8 2جون 2010ء میں مکرمہ ج۔ رانا صاحبہ نے اپنے دادا حضرت مرزا دین محمد صاحبؓ آف لنگروال کا ذکرخیر کیا ہے۔
خاکسارہ کے داداجان تقریباً 1860ء میں مرزا نتھو بیگ صاحب کے گھر لنگروال تحصیل بٹالہ میں پیدا ہوئے۔ آپ کی ایک بہن اور تین بھائی تھے۔ آپ کی شادی قادیان میں محترمہ عظمت بی بی صاحبہ سے ہوئی۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو ایک بیٹی اور دو بیٹے مکرم مرزا اکبر بیگ صاحب جن کو سردار بیگ صاحب بھی کہتے تھے اور ہمارے اباجان مکرم مرزا محمد شریف بیگ صاحب سے نوازا۔
حضرت مرزا دین محمد صاحبؓ زمیندارہ کرتے تھے اور لنگروال میں دو مربع اراضی کے مالک تھے۔ لنگروال نام پہلے کچھ اَور تھا۔ لیکن آپؓ کی مہمان نوازی کی وجہ سے اس کا نام لنگروال مشہور ہوگیا۔ صبح شام آپؓ کے دستر خوان پر جب تک کوئی مہمان نہ ہوتا آپؓ کھانا نہ کھاتے۔ ایک واقعہ جو گاؤں میں مشہور ہے کہ ساتھ والے گاؤں میں ایک سکھوں کی بارات آئی بارات نے فرمائش کی کہ ہم نے پلاؤ زردہ ہی کھانا ہے۔ گاؤں والے غریب تھے انہوں نے کہا کہ یہ تو مرزا دین محمد صاحب ہی کھلا سکتے ہیں۔ چنانچہ آپ تک بات پہنچی۔ آپؓ دعا کرتے ہوئے گھر گئے اور اپنی اہلیہ سے کہا کہ اس طرح بارات آئی ہے آج وہ ہماری مہمان ہوگی۔ گھر والوں نے بتایا کہ چاول تو گھر میں نہیں ہیں۔ آپؓ نے فرمایا کہ اندر کوٹھری میں جو مٹکا پڑا ہے اس میں ہوں گے۔ حالانکہ سب مٹکے خالی تھے لیکن اُس وقت جب اندر والا مٹکا کھولا گیا تو وہ چاولوں سے بھرا پڑا تھا۔ چنانچہ اس سے پلاؤ زردہ پکایا گیا اور بارات کی تواضع ہوئی۔
لنگروال میں آپؓ کا ایک خاندانی باغ تھا۔ لیکن اس کا مقدمہ کر دیا گیا۔ حضرت مسیح موعودؑ کی خدمت میں عرض کیا گیا تو حضورؑ نے دعا کی اور وہ باغ دوبارہ آپؓ کو مل گیا۔
آپؓ بڑے قدآور تھے۔ سفید پگڑی باندھتے اور داڑھی رکھتے تھے۔ غربا کی مدد کرتے۔ بہت نیک اور عبادت گزار تھے۔ پھلدار درخت لگانے کا شوق تھا۔جب بھی وقت ملتا تو قادیان جاکر حضورؑ کی خدمت میں رہنے اور خدمت کرنے کی کوشش کوشش کرتے۔ قادیان میں اپنے قیام کے بارہ میں آپؓ بیان فرماتے ہیں: ’’جس کمرہ میں آپ کی رہائش تھی وہ چھوٹا سا تھا جس میں ایک چارپائی اور تخت پوش تھا۔ چارپائی تو آپ نے مجھے دی ہوئی تھی اور خود تخت پر سوتے تھے فجر کی نداء کے وقت آپ پانی کے ہلکے ہلکے چھینٹوں سے مجھے جگا دیتے‘‘۔
آپؓ کی ایک اور روایت ہے کہ ’’بٹالہ میں آپ (حضرت مسیح موعودؑ) کی ایک حویلی تھی وہاں جا کر اترتے۔ صبح کا کھانا آپ گھر سے کھا جاتے بٹالہ میں شام کے لئے مجھے دو پیسے دیتے میں اس کی دو روٹیاں اور دال لے کر آتا۔ آپ اس میں سے بہت تھوڑی روٹی کھاتے یعنی 1/4 حصہ اور اس کے بعد وہ روٹی اس مکان میں ایک غریب شخص رہتا تھا اس کو دے دیتے۔ اس کے بعد نوکر کو جو گھوڑا لے کر جاتا تھا دو آنے دیتے اور مجھے چار آنے دیتے کہ بازار سے جا کر حسب منشا روٹی کھالو۔ دوسرے دن آپ تحصیل میں چلے جاتے میں باہر بیٹھتا تھا۔ دوپہر کے وقت وقفہ ہوتا تھا۔ اس میں آپ باہر تشریف لاتے اور مجھے چند پیسے دیتے کہ بھوگ لگی ہوگی کوئی چیز کھالو‘‘۔
حضرت مرزا دین محمد صاحبؓ 1944ء میں وفات پائی اور آپؓ کے اپنے باغ میں ہی تدفین ہوئی۔ آپؓ کی اہلیہ محترمہ عظمت بی بی صاحبہ موصیہ تھیں اور بہشتی مقبرہ قادیان میں مدفون ہیں۔