حضرت مرزا عبدالحق صاحب

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 3؍ نومبر 2006ء میں حضرت مرزا عبدالحق صاحب کے بارہ میں مکرم عبدالسمیع نون صاحب کا ایک مضمون شائع ہوا ہے۔
آپ بیان کرتے ہیں کہ سرگودھا میں مستقل طور پر آکر پیشہ وکالت اختیار کرنے سے قریباً 4 سال قبل مجھے حضرت مرزا عبدالحق صاحب سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا تو آپ کو مقربان الٰہی میں سے پایا۔ چنانچہ پھر ملاقاتیں کسی نہ کسی بہانے زیادہ ہونے لگیں۔ بالآخر 1954ء میں جب میں نے وکالت شروع کی تو حضرت ممدوح کو قانون کے محاذ پر ڈٹ کر پُراثر بحث کرتے دیکھ کر انہیں ہی اپنا استاد بنانا چاہا جسے موصوف نے خوشی سے قبول فرمایا۔
استاذی المحترم مرزا صاحب کی صحبت صالح کے پہلے 40 سال تو بیشمار مواقع ملے جب آپ کی قیادت میں ہر دوسرے ہفتے ضلعی جماعتوں کے دورہ پر خاکسار، برادرم حافظ ڈاکٹر مسعود احمد صاحب، برادرم قریشی محمود الحسن صاحب اور برادرمکرم شیخ محمد اقبال صاحب پراچہ بھی ہمرکاب ہوتے تھے۔ حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ ہم چاروں کو مرزا صاحب کی فیملی کہا کرتے تھے۔ شروع میں تو بھائی اقبال پراچہ صاحب جو ایثار و وفا کے پتلے تھے اپنی کوئی نئی بس ہی نکلواتے جس میں ہم پانچ کس سوار ہو کر خدمت دین کی توفیق پاتے۔ پھر میں نے ایک کار خریدی تو اسی نے چند سال ناقہ کا کام دیا اور پھر بھائی حافظ ڈاکٹر مسعود احمد صاحب کے لئے ان کے بھائی ودود احمد صاحب نئی کار لندن سے لائے تو مستقل طور پر نئی سواری میسر آئی۔
حضرت مرزا صاحب تربیتی مسائل پر خطاب فرماتے تو چونکہ وہ شخص خود قول سے بڑھ کر عمل کا نہ صرف قائل تھا بلکہ عملی زندگی میں اعمال صالحہ کا بہترین نمونہ تھا۔ ایسے شخص کی بات دل سے نکلتی اور سیدھی دل پر اترتی جاتی تھی۔ تقریر میں حضرت مصلح موعودؓ کے زرّیں کلمات کا ذکر ہوتا تو یوں لگتا کہ گویا آپ حضورؓ کی مجلس میں ہی بیٹھے حظ اٹھا رہے ہیں۔ کبھی حدیث سے اور کبھی حضرت مسیح موعودؑ کی نثر و نظم سے اردو اور فارسی میں بہت دلنشیں انداز میں بیان فرماتے۔ آپ گو حافظ قرآن نہیں تھے مگر قرآن کریم کے ساتھ عشق و محبت کے نتیجے میں آپ کو بہت سے حصے قرآن مجید کے یاد تھے اور تقریر میں آیات کے حوالے ایسے انداز میں دیتے تھے کہ سننے والا جانتا کہ یہ حافظ قرآن مجید ہیں۔
قرآن سے محبت کا یہ عالم تھا کہ آپ نے عین عالم شباب میں روزانہ 4 گھنٹے مسلسل دس سال تک قرآن کریم کے معانی و مفہوم کے سمجھنے میں صرف کئے اور فرمایا کرتے تھے اس میں کوئی ناغہ نہیں ہوا۔ اور اس کے لئے حضرت اقدسؑ کا ایک فارسی شعر سناتے جس کا ترجمہ ہے کہ میں کردار کی پونجی نہیں رکھتا بس اندرونی عشق نے جوش مارا اور اس سے سارے کام ہوگئے۔
قرآن کریم کا ساری عمر درس جاری رہا اورکمال یہ تھا کہ سامعین کے فہم و ادراک کی سطح پر اتر کر سمجھاتے تھے۔ تلاوت کرنے کا انداز منفرد تھا اس میں جذب بھی تھا کشش بھی۔ ترتیل بھی تھی مگر اس میں ہرگز تصنع یا بناوٹ کا شائبہ نہیں ہوتا تھا۔
برسبیل تذکرہ بیان کردوں کہ 1983ء کی ایک شام میرے غیرازجماعت دوست سردار جاوید اختر خان بلوچ ایڈووکیٹ دوائی لینے ربوہ گئے۔ واپسی کے وقت مَیں مغرب کی نماز حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کی اقتداء میں پڑھنے کے لئے مسجد مبارک میں چلا گیا۔ میرا مشاہدہ تھا کہ میرے دوست نے کبھی کہیں بھی نماز نہیں پڑھی تھی۔ لیکن جب میںنے نماز ختم ہونے پر سلام پھیرا تو کیا دیکھتا ہوں کہ وہ بھی پچھلی صف میں بیٹھے ہیں۔ بعد میں میرے پوچھنے پر کہنے لگے کہ نہ میرا وضو تھا نہ نماز میں شامل ہونے کا کوئی ارادہ۔ لیکن جب مرزا صاحب کی قراء ت میں نے سنی تو کسی غیبی طاقت نے مجھے اٹھا کر مسجد میں کھڑا کردیا اور میں قراء ت سن کر مست ہوگیا اور پھر وہ دہراتے رہے کہ ایسی دل میں گھر کر جانے والی قراء ت پہلے کبھی نہیں سنی۔ اصل میں پڑھنے والے کا قرآن کے ساتھ تعلق خاطر اس کے لحن کو سنوارتا اور نغمگی اور جذب و کیف کو ابھارتا ہے اور یہ صفات حضرت مرزا صاحب کی قراء ت میں بھی موجود تھیں۔
آپ فرمایا کرتے تھے کہ اردو فارسی یا عربی کا کوئی لفظ حضور مسیح موعودؑ کے قلم سے نہیں نکلا جسے میں نے پڑھا نہ ہو اور عربی کے حضور کے کلام نثر اور نظم کو لغات عربی سے حل کیا بلکہ ترجمہ کیا جو خود خلفائے کرام نے پسند فرمایا۔ خود بھی متعدد تصانیف رقم کیں۔ آپ کی تالیف ’’روح العرفان‘‘ چونکہ حضرت مسیح موعود کی تصانیف کے اقتباسات ہیں عجیب لذت دیتے ہیں عربی عبارات کے ترجمے بھی ساتھ ہیں۔ سوچتا ہوں کہ اس شخص کو اللہ تعالیٰ نے کتنے اوقات عطا فرمائے تھے اور ان اوقات کا کس قدر بابرکت اور صحیح استعمال کیا کہ قرآن کریم اور حدیث شریف اور کتب حضرت مسیح موعود کا روبخدا شخص ’’عاشق صادق‘‘ اور ’’حافظ‘‘ بھی ہوگیا اور جو محنت کرگئے ہیں وہ احمدیت کی کئی نسلوں کو کام دے گی۔
حضرت مرزا صاحب پابندیٔ وقت کے میدان میں بھی ایک منفرد حیثیت رکھتے تھے۔ کسی تقریب میں جانا ہو یا ٹینس کھیلنے۔ عین مقررہ وقت پر پہنچ جاتے۔ کلب کے راستہ میں چودھری قائم الدین (DC) کی کوٹھی تھی۔ ان کے بیٹے کہتے تھے کہ ہم اپنی گھڑیاں آپ کے مقررہ وقت سے ملالیا کرتے تھے۔
ایک بار میرا بیٹا کسی پروگرام پر لے جانے کے لئے آپ کی کوٹھی پہنچا تو فرمایا: کہ ’’بیٹا ڈیڑھ منٹ لیٹ ہو‘‘۔ اس نے ادب سے معذرت کرلی۔
ایک بار آپکی زیر صدارت جلسہ میں مَیں تقریر کر رہا تھا کہ آپ نے فرمایا ’’ایک منٹ باقی ہے‘‘۔ میں نے عرض کیا: جناب! آپ جلسہ سالانہ پر تقریر کررہے ہوتے ہیں۔ جب آپ کو وقت کا الٹی میٹم ملتا ہے تو فرماتے ہیں کہ وقت پر ختم کردوں گا، باقی چھپ جائے گی۔ میری تو باقی چھپنی بھی کہیں نہیں۔ اس پر آپ نے قہقہہ لگایا اور مضمون مکمل کرنے کی اجازت دی۔
1974ء میں غازیوں کی ایک یلغار آپ کے گھر پر بھی پڑی کچھ سامان لوٹ لے گئے کچھ توڑ پھوڑ کی حتیٰ کہ کسی نادان بدنصیب نے آپ کی جیب سے پارکر کا پین بھی چھین لیا۔ ایک نامور فوجداری ماہر وکیل ملک محمد اقبال صاحب آپ کے دوست تھے، اگلے روز وہ احوال پرسی کیلئے آپ کے گھر گئے۔ رمضان کا مہینہ تھا۔ آپ نے فرمایا کہ شاید آپ کا ذیابیطس کی وجہ سے روزہ نہ ہو۔ پھر معذرت کی کہ گھر میں کراکری نام کی کوئی چیز باقی نہیں بچی۔ ہم نے مٹی کے پیالے گھر میں رکھ لئے ہیں۔ اگر محسوس نہ کریں تو چائے انہی مٹی کے پیالوں میں پیش کرسکتا ہوں۔ ملک صاحب نے شکریہ ادا کیا۔ ملک صاحب کے بیٹے نے واپسی پر اُنہیں کہا کہ ابّا! یہ کیا بات ہے کہ یہ 75 سالہ بوڑھا ہے، گھر میں سامان حتیٰ کہ پرچ پیالی تک بھی نہیں بچی ہے۔ وہ خود روزے سے ہیں۔ آپ جوان اور مَیں نوعمر لیکن ہم دونوں کا روزہ نہیں ہے۔ اور وہ کافر اور ہم …؟
حضرت خلیفہ ثالثؒ نے کچھ رقم بھیجی۔ اس دن 68 دکانوں مکانوں کو نقصان پہنچا تھا۔ حافظ بھائی کا مکان کلینک کار وغیرہ سب کچھ نذرآتش، کچھ بھی نہ بچا۔ حضرت مرزا صاحب کا بھی نقصان کافی تھا۔ مگر ان دونوں بزرگوں نے اس رقم میں سے کچھ بھی نہ لیا باوجود ہمارے اصرار کے کہ یہ تبرک ہے۔ ہم نے حضورؒ کی خدمت میں رپورٹ کردی تو حضورؒ نے فرمایا کہ میں ان کیلئے الگ سے خاص طور دعا کررہا ہوں، انہیں مجبور نہ کریں وہ نہیں لیں گے دوسروں میں تقسیم کردیں۔
حضرت مصلح موعودؓ کے ساتھ یکرنگی اور ہم آہنگی اور اطاعت شعاری حضرت مرزا صاحب کی اپنے کمال کو پہنچی ہوئی تھی۔آپ فرماتے تھے کہ حضورؓ کا (ذاتی یا جماعتی) ایک ضروری مقدمہ درپیش تھا۔ حضور نے مجھے اپنی ایک قمیص دیتے ہوئے فرمایا یہ میری قمیص کل پہن کر عدالت جانا ہے، انشاء اللہ کامیابی ہوگی۔ اور مرزا صاحب وہ اپنے قد سے لمبی قمیص پہن کر گئے اور قادر کریم نے کامیابی بخشی: وھو علیٰ کلّ شییٍٔ قدیر۔
میرے پاس بھی حضورؓ کا ایک پاجامہ ہے۔ میرا بھی ایک ذاتی مقدمہ تھا جو میرے لئے بہت اہمیت رکھتا تھا۔ مَیں نے سوچا کہ حضورؓ کا پاجامہ شلوار کے نیچے پہننا تو تبرک کے ادب کے خلاف ہے۔ مَیں نے اسے اپنی قمیص کے نیچے اور بنیان کے اوپر گلے میں ڈال لیا۔ مجھے بھی حضور کی برکتوں سے وافر حصہ ملا اور میں بھی مقدمہ جیت گیا۔ الحمدللہ۔
حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ کا وصال ہوا تو اس سے ایک رات پہلے مجھے آواز آئی تھی کہ ’’دلدار فوت ہوگیا ہے‘‘۔ پھر زیارت چہرہ اور جنازہ میں شرکت کے لئے نصف شب لاہور کے فضائی مستقر پر پہنچے۔ حضرت مرزا صاحب بہت ہی غمزدہ تھے۔ حیران ہوئے کہ تم نے بھی ہمت کرلی۔ کیونکہ چند ماہ قبل میں نے دل کی اوپن سرجری کروائی تھی اور ہنوز نقاہت باقی تھی۔ جہاز میں کچھ دیر لیٹ کر جونہی مجھے تکان سے آرام محسوس ہوا تو مجھے حضرت مرزا صاحب کا خیال آیا۔ آپ کے ساتھ ایک آدمی مسلسل باتیں کرتا آرہا تھا۔ میں نے اُسے پچھلی نشست لینے کو کہا اور آپ کے لئے بستر تیار کردیا۔ لیکن مرزا صاحب سوئے نہیں کیونکہ کوئی اور عقیدت مند آگیا اور آپ اٹھ کر بیٹھ گئے۔
بجا کہ حضرت مرزا صاحب نے 106 سال کی طویل عمر پائی مگر سچ جانیئے ابھی تشنگی باقی تھی۔ آپ کی وفات کی خبر سن کر اپنے تو بیشمار آئے ہی تھے، غیراز جماعت دوستوں کی بھی کمی نہ تھی جن میں ایک رکن پارلیمینٹ بھی شامل تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اپنا تبصرہ بھیجیں