حضرت مرزا عبدالحق صاحب
روز نامہ’’ الفضل‘‘ ربوہ 18جنوری 2007ء میں مکرم صفدر علی وڑائچ صاحب کا حضرت مرزا عبدالحق صاحب کے بارہ میں ایک مضمون شامل اشاعت ہے۔
مضمون نگار بیان کرتے ہیں کہ خاکسار اپنی ملازمت کے سلسلہ میں مئی1986ء میں سرگودھا آگیا جہاں خدام الاحمدیہ کا کام کرنے کی وجہ سے حضرت مرزا عبدالحق صاحب سے تعارف ہو ا اور ملاقاتوں کا سلسلہ شروع ہوگیا۔خاکسار کو پہلی تحریک حضرت مرزا عبدالحق صاحب نے اس طرح کی کہ فرمایا آپ اگر داڑھی رکھ لیں، بے شک چھوٹی ہو، تو آپ کو اہم میٹنگز میں ساتھ لے جایا جاسکتا ہے۔ میں ابھی آپ کی تحریک پر سوچ رہا تھا اور شیو نہیں کروائی تھی کہ تیسرے دن مکرم چودھری خادم حسین وڑائچ صاحب قائد ضلع نے بغیر میرے پوچھے حضرت امیر صاحب سے کہاکہ صفدر وڑائچ صاحب نے آپ کی تحریک پر داڑھی رکھ لی ہے تو آپ نے بڑے پیا ر سے میرے کندھوں پر ہاتھ پھیرتے ہوئے فرمایا مبارک ہو، ماشاء اللہ اچھی لگتی ہے۔ اور اس طرح اللہ تعالیٰ نے مجھے داڑھی رکھنے کی توفیق فرمائی۔
1987-88ء میں مجھے قا ئد خدام الاحمدیہ ضلع سرگودھا مقرر کیا گیا تو حضرت مرزا صاحب سے ملاقاتوں کا سلسلہ روزانہ کی بنیاد پر شروع ہوگیا۔ یہ شدید مخالفتوں کا دَور تھا۔ جب بھی آپ سے ملنے گیا تو آپ خود آکر برآمدہ میں ملتے اور پھر اسی طرح الوداع کرتے، بڑی خوشی سے پوری بات سنتے اور تفصیلی ہدایات دیتے۔ آپ کی بیٹی لجنہ کی صدر تھیں، اگر کسی بات پر اُنہیں تنبیہ بھی کرنا پڑتی تو کرتے۔
خاکسار کی شادی کو سات سال ہو گئے تھے مگر اولاد نہ تھی۔ خاکسار دعا کی تحریک کیا کرتا اور آپ مجھے حضور انور کی خدمت میں دعا کی درخواست کی ہدایت فرماتے اور کہتے میں بھی دعا کروں گا۔ 1987ء میں ایک دفعہ میں نے خواب دیکھا کہ مجلس عاملہ کا اجلاس ہو رہا ہے میں حضرت مرزا صاحب کی بائیں جانب بیٹھا ہوں جبکہ مکرم چوہدری نصراللہ بھلی صاحب نائب امیر ضلع دائیں بیٹھے ہیں۔ مکرم بھلی صاحب نے اپنے دائیں ہاتھ کی شہادت کی انگلی بلند کی اور اعلان کیا کہ خدا تعالیٰ صفدر وڑائچ کو اولاد کی نعمت سے نوازے گا۔ اور پھر حضرت مرزا صاحب کا دایاں ہاتھ پکڑ کر بلند کرتے ہوئے تین دفعہ یہ اعلان کرتے ہیں کہ مرزا عبدالحق صاحب گواہ رہنا۔ خاکسار نے اگلے روز آپ کو خواب سنائی تو آپ نے اُسی وقت میرا منہ میٹھا کروایا اور فرمایا کہ اس خواب کی تعبیر بہت میٹھی ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے یہ خواب پوری فرمائی۔
23؍مارچ1989ء کو صد سالہ جشن تشکر کے موقع پر خاکسار کو ضلع بھر کی جماعتوں سے رپورٹ حا صل کرنے والی کمیٹی کا صدر مقرر فرمایا ہو ا تھا۔ خاکسار عزیزم الطاف احمد صاحب کے ہمراہ احمدیہ مسجد سے نکلا تو مخالفین نے ہم پر حملہ کرکے بہت مارا پیٹا اور پھر سٹی تھانہ میں بند کروادیا۔ میرے دائیں ہاتھ سے خون بہہ رہا تھا ۔ ایک حوالاتی نے میرے خون کو بوسہ دے کر کہا کہ مجھے یہ تو معلوم نہیں کہ آپ کا مذہب صحیح ہے کہ نہیں مگر آپ کا خون اپنے دین کی خاطر بہہ رہا ہے یہ خون بڑا مبارک ہے۔ تھانہ میں مخالفین کے گروہ در گروہ آتے اور ہمیں کیفرکردار تک پہنچانے کا مطالبہ کرتے۔ وہاں بڑی ایمان افروز گفتگو ہوتی رہی۔ تھانہ میں حضرت مرزا صاحب کا فون آیااور آپ کی ہدایت پر ہمیں کھانا اور پھل بھی پہنچایا گیا۔ رات 12بجے ہمیں آزاد کر دیا گیا۔
14اکتوبر1992ء کو ایک قاتلانہ حملہ میں زندگی اور موت کی کشمکش میں خاکسار آپریشن تھیٹر میں پڑا تھا۔ اپنے پیارے اللہ سے اس انداز میں دعا کی کہ اے میرے اللہ! میں بڑا کمزور حقیر انسان ہوں۔ بے اولاد ہوں اور اپنے والد صاحب کی وفات کی بنا پر اپنے چھوٹے بھائیوں اور بہنوں کا سربراہ بھی ہوں۔ قائد خدام الاحمدیہ ضلع وعلاقہ اور سیکرٹری دعوت الی اللہ ضلع کی ذمہ داریاں بھی مجھ پر ہیں جو پوری طرح ادا نہیں کر سکا مجھے معاف فرماتے ہوئے میرے وجود کو ایسے دھودے جیسے دھوبی کپڑا دھوتا ہے۔ تو کیا دیکھتا ہوں کہ حضرت مرزا صاحب آکر میرے ماتھے پر بوسہ دیتے ہوئے تسلی دیتے ہیں کہ خداتعالیٰ آپ کو صحت عطافرمائے گااور آپ پہلے کی طرح خدمت دین کے کام کریں گے، میں نے آپ کیلئے حضور انور کی خدمت میں دعا کے لئے فیکس کر دی ہے ۔ دوسرے دن جب حضرت مرزا صاحب آپریشن کے بعد میری عیادت کے لئے تشریف لائے تو میں ہوش میں تھا۔ میں نے عرض کیا کہ رات کو جب آپ مجھے تسلی دے گئے تو میں نے سمجھ لیا تھا کہ میں نے مرنا نہیں ۔ اس پر حضرت مرزا عبدالحق صاحب نے فرمایا مجھے تو رات کو پتہ ہی نہیں چلا تھا اگر مجھے رات کو اطلاع ہوتی تو میں اسی وقت آتا۔
مَیں آج بھی اُس دن کو یاد کرتا ہوں جب آپ ہسپتال میں اپنی ٹھوڑی کے نیچے اپنی کھونڈی رکھے بنچ پر بیٹھے ہوئے میری طرف ٹکٹکی باندھے دیکھتے ہوئے دعائیں کرتے رہے۔ تقریباً ایک گھنٹہ یہی کیفیت رہی۔ پندرہ دن سرگودھا ہسپتال میں رہنے کے بعد بازوؤں کے علاج کے لئے الائیڈ ہسپتال فیصل آباد گیا۔ جب بازوؤں کے آپریشن کے بعد واپس گھر آیا تو دوسرے دن آپ میری عیادت کے لئے میرے گھر تشریف لائے اور بڑی تسلی دی دعائیں دیتے ہوئے رخصت ہوئے۔ اگلے دن آپ کی طرف سے مجھے تحریراً خط آیا کہ ملزم کو معاف کر دیا جائے۔ خاکسار بازوؤں کی تکلیف میں مبتلا تھا تو اس خط کا اسی تکلیف میں جواب لکھوادیا کہ ایسی حالت میں معافیاں شروع ہوگئیں تو ایسے ملزموں کی حوصلہ افزائی ہوگی۔ اگلا فقرہ مزید سخت تھا کہ آپ کہ بیٹے کو فائر لگے ہوتے تو پھر پتہ چلتا کہ اتنا جلدی کیسے معاف کیا جاتا ہے۔
دوسرے دن آپ تشریف لائے تو میں اپنی اس بے وقوفانہ حرکت کی وجہ سے سخت نادم تھا۔ چھپنے کو جگہ نہیں تھی۔ آتے ہی بڑا پیار کیا اور فرمایا کہ آپ نے کیسے محسوس کرلیا ہے کہ آپ سے زیادہ بیٹوں کو اہمیت دیتا ہوں آپ مجھے نثار صاحب سے بھی پیارے ہیں۔ یہ تھے وہ بزرگ امیر جو اپنی اولاد سے بھی زیادہ اپنے حواریوں سے پیار فرمایا کرتے۔ اور پھر فرمایا اپنی پسند کے وکیل بتاؤ ہم اس مقدمہ میں وہی کریں گے۔ چنانچہ میں نے جن وکلاء کو تجویز کیا وہی وکیل مقرر ہوئے۔ انفرادی ملاقاتیں تو آخری دم تک دوسرے تیسرے دن لازمی ہو جایا کرتیں مگر ایک اجتماعی ملاقات ہفتہ وار اجلاس میں ہوتی۔ خاکسارکی بیماری کے دوران گاڑی بھجوادیتے۔ یہ سلسلہ کئی ہفتے جاری رہا ایک دن اجلاس میں فرمایا کہ دو زخمی دوست رانا محمد اشرف صاحب اور ارشد محمود صاحب تو معافی کے لئے رضامند ہیں مگر صفدرعلی وڑائچ معاف کرنے کے لئے تیار نہیں، میں نے اب حضورکو رپورٹ کردینی ہے۔ میں نے دل میں سوچا ایک تو گولیاں کھائی ہیں اوپر سے مرزا صاحب دباؤ ڈال رہے ہیں لیکن خاموش رہا اجلاس کے بعد جب گھر آیا تو اپنا محاسبہ کیا اور ساری رات بغیر سوئے یہ دعا کرتا رہا کہ اے اللہ مجھے معاف فرما اور بچالے۔ صبح نماز کے بعد تلاوت کے لئے بیٹھا تو گیٹ سے گھنٹی کی آواز آئی۔ دیکھتا ہوں کہ حضرت مرزا صاحب ہیں، فرمانے لگے: را ت کو عاملہ میں سخت بات ہوگئی تھی اس کی معذ رت کے لئے آیا ہوں۔ خاکسار آپ سے لپٹ گیا۔ پھر فرمانے لگے آج آپ کے گھر سے ایک کیلا ایک انڈا اور ایک کپ دودھ بھی پیئوں گا۔ یہ آپ کا ناشتہ تھا اور مجھ سے پیار کا ایک اظہار۔ پھر ایک گھنٹہ تک بیٹھے رہے۔
1996ء میں میں نے حصول اولاد کے لئے دوسری شادی کی۔ اس میں سے اللہ تعالیٰ نے 9مئی 1997ء کو بیٹا عطا فرمایا ۔ جس دن ولادت متوقع تھی تو آپ کو دعا کے لئے کہا۔ آپ نے تین دفعہ مجھے فون کرکے پوچھا کہ کیا صورتحال ہے، میں دعا کر رہا ہوں، شام کو بچے کی پیدائش کی اطلاع کی تو بہت خوش ہوئے اور بڑی دعائیں دیں۔ پھر آکر بچہ کو قیمتی تحفہ بھی دیا۔ اسی طرح جب ہمارے نئے گھر تشریف لائے تو کرسی پر بیٹھے اور ہم سب سامنے دری پر۔ آپ نے فرمایا کہ جب میں سرگودھا ہجرت کرکے آیا تھا تو میں نے کو ٹھی پر پڑا سارا سامان گورنمنٹ کے خزانے میں جمع کروادیا تھا اور خود فرش پر دری بچھا کر مع فیملی کئی ماہ تک گزارہ کیا۔ …اللہ تعالیٰ آپ کے گھر کو بھی بھر دے گا۔
اپنے پہلے بچے کی پیدائش پر میں نے خواب میں دیکھا کہ حضرت خلیفۃالمسیح الرابع کی طرف سے میرے نام خط آیا ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کو بیٹا عطا فرمائے تو اس کا نام مبشر احمد یار رکھیں بیٹی ہو تو مبشرہ ھما رکھیں۔ یہ خواب میں نے حضورؒ کی خدمت میں لکھ کر نام عطا فرمانے کی درخواست کی۔ ایک ماہ گزرنے پر بھی جواب نہ آیا۔ پھر مَیں ربوہ گیا تو حضرت صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب ناظر اعلیٰ نے دریافت فرمایا کہ اپنے بچے کا کیا نام رکھا ہے؟ میں نے ساری بات بتائی تو آپ نے اُسی وقت مجھ سے خط لکھواکر حضورؒ کو فیکس کروادیا۔ اسی دن جواب آگیا کہ بچے کا نام مظہر علی رکھ دیں۔ لیکن ایک ہفتہ بعد پہلے والے خط کا جواب آگیا کہ مبشر احمد یار بہت پیارا نام ہے خواب کی تعمیل کریں۔ اب کئی بزرگان سلسلہ نے پہلا نام ہی کافی سمجھا بعض نے بدلنے کو کہا۔ حضرت مرزا صاحب نے فرمایا کہ جنہوں نے نام بھجوائے ہیں اُنہی سے پوچھیں۔ چنانچہ میں نے حضورؒ کی خدمت میں دونوں خطوط کی کاپیا ں بھجوادیں اور نام کے فیصلہ کی درخواست کی جس پر حضور انور نے مجھے لکھا کہ مظہرعلی رہنے دیں اور مبشر احمد یار آئندہ بچے کے لئے ریزرو کرلیں ۔ گویا دوسرے بچہ کی بشارت بھی مل گئی۔
آپ نماز، قرآن او ر خلافت احمدیہ کے عاشق تھے۔ ایک دفعہ حساب لگاکر بتایا کہ میں 1486دفعہ قادیان گیا ہوں۔ خا کسار کو 21سال آپ کے ساتھ خد مت دین کے کاموں میں ٹیم ورک کا موقع ملا ۔ ہمیشہ پیار ہی پیار ملا کرتا۔ آخری دفعہ 24؍اگست 2006ء کو ملا قات کا شرف حاصل ہوا۔ جب کمرہ میں داخل ہوا تو پوری ہمت سے اٹھ کر بیٹھ گئے۔ مجھے پیار بھری تھپکیاں دیں اور فرمایا ماشاء اللہ آپ بہت کام کرتے ہیں۔ دعا بھی کی اور بعض جماعتی امور کے متعلق ہدایات بھی دیں۔ یعنی آپ بستر پر پڑے ہوئے بھی اپنی ذمہ داریاں ادا فرمارہے تھے۔