حضرت مرزا عبدالحق صاحب
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 29 مارچ 2012ء میں حضرت مرزا عبدالحق صاحب کی چند یادیں مکرم محمود احمد منگلا صاحب کے قلم سے شامل اشاعت ہیں۔
مضمون نگار رقمطراز ہیں کہ خاکسار کی رہائش حضرت مرزا صاحب کی رہائشگاہ کے قریب ہی تھی اور بچپن سے ہم اس شفیق وجود کی عنایات کے مورد بنتے رہے۔ پھرجب خاکسار سن شعور کو پہنچا تو مرزا صاحب سے ایک گہرا ذاتی تعلق قائم ہوا۔ آپ پیشہ کے اعتبار سے وکیل تھے۔ لیکن آپ کی تمام تر کامیابی آپ کی سچائی اور دیانتداری کی وجہ سے تھی۔ آپ نے کبھی جھوٹ کا ساتھ نہ دیا۔ آپ نے بتایا کہ ایک دفعہ مجھے ایک صاحب نے ایک کیس اور فیس دی۔ جب میں نے مطالعہ کیا تو مجھے کیس میں صداقت نظر نہ آئی۔ چنانچہ مَیں نے اسے کہا کہ تم اس کے لئے گواہ کہاں سے لاؤگے؟ اس نے مجھے بتایا کہ یہ صاحب گواہی کے لئے آئے ہیں۔ میں نے اُن صاحب سے کہا کہ اس جھوٹے کیس کے لئے کیسے گواہی پر آمادہ ہو گئے؟ تو انہوں نے جواب میں کہا کہ رقم کی خاطر مَیں گواہی دے رہا ہوں۔ یہ معلوم ہونے پر مَیں نے اُن کی فیس واپس کردی اور کیس لینے سے انکار کردیا۔
آپ نے فیصلہ کیا ہوا تھا کہ وکالت کے پیشے کو روزانہ چار گھنٹے سے زیادہ وقت نہ دیا جائے اور باقی وقت دینی علوم کے لئے استعمال کیا جائے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ فضل فرمایا کہ اس کے باوجود آپ ہمیشہ کامیاب وکلاء میں شمار کئے جاتے تھے۔ بعض وکلاء کہا کرتے تھے کہ مرزا صاحب مصلّے کے نیچے سے رقم نکال لاتے ہیں۔
مضمون نگار بیان کرتے ہیں کہ میرے والد محترم برکت اللہ صاحب منگلا ایڈووکیٹ کو بھی آپ سے بہت محبت تھی۔ میری ٹرانسفر جب فیصل آباد ہوئی تو میں نے اپنی رہائش ربوہ میں رکھ لی اور اپنے والد سے بھی عرض کیا کہ وہ ہمارے پاس ربوہ مستقل رہائش اختیار کرلیں۔ وہ فرمانے لگے کہ جب تک حضرت مرزا عبدالحق صاحب اس محلّہ میں موجود ہیں مَیں کسی دوسرے شہر میں رہنے کا تصوّر بھی نہیں کرسکتا۔ لیکن اُنہیں کیا معلوم تھا کہ اُن کا بلاوا حضرت مرزا صاحب سے پہلے آجانا ہے۔ اُنہیں نامعلوم افراد نے گھر میں داخل ہو کر شہید کردیا۔
حضرت مرزا صاحب کی دل موہ لینے والی شخصیت کا گہرا اثر اپنوں کے علاوہ بیگانوں پر بھی ہوتا تھا۔ تقسیم ہند کے وقت آپ گورداسپور شہر میں تھے، وہیں وکالت کی پریکٹس کرتے تھے اور مسلم لیگ کے ضلعی سیکرٹری بھی تھے۔ جب فسادات شروع ہوئے تو ہندوؤں اور سکھوں کے لیڈر آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی کہ جب تک آپ گورداسپور میں ہیں کسی مسلمان کو نقصان نہیں ہوگا۔ چنانچہ جب تک آپ گورداسپور میں قیام پذیر رہے کسی مسلمان کا کوئی نقصان نہیں ہوا۔
حضرت مرزا صاحب بیان کرتے تھے کہ اپنے کالج کے زمانہ میں مَیں شیو (Shave) نہیں کرتا تھا کیونکہ مَیں شروع سے ہی داڑھی رکھنے کا شوق رکھتا تھا۔ بعض طلباء کالج کے بورڈ پر میرے کارٹون بنا دیتے اور مذاق بھی کرتے لیکن میں ان کی پرواہ نہ کرتا۔
آپ نے یہ بھی بتایا کہ جب مَیں شملہ میں زیرتعلیم تھا اور میری جوانی کی عمر تھی تو سامنے والے گھر میں رہنے والی ایک لڑکی اکثر مجھے اپنی طرف متوجہ کرنے کی کوشش کرتی تھی لیکن مَیں اُسے کوئی توجہ نہیں دیتا تھا۔ ایک دفعہ جب میں اکیلا گھر میں تھا تو وہ لڑکی کسی طرح میرے گھر میں داخل ہو گئی۔ اس پر مَیں نے سختی سے اُسے گھر سے نکال دیا۔ تب سے جب بھی مجھے کوئی مشکل درپیش ہوتی تو مَیں اپنے خدا کو اپنا یہ عمل پیش کرتا کہ مَیں محض تیری رضا کے لئے اس بدی سے بچا، اب تُو ہی میری یہ مشکل آسان فرمادے اور میرا خدا میری مشکلیں آسان فرما دیتا۔
حضرت مرزا صاحب کو مطالعہ کا بے حد شوق تھا۔ آپ نے حضرت مسیح موعودؑ کی تمام کتب کو کئی مرتبہ پڑھا ہوا تھا۔ جب بڑھاپے میں کمزوری کی حالت ہوئی تو کئی دفعہ خاکسار سے الفضل پڑھ کر سنانے کے لئے کہتے۔
1974ء کے فسادات میں آپ کا گھر بھی نذرآتش کردیا گیا جس سے بہت نقصان ہوا۔ اس وقت آپ صرف قرآن مجید کو اپنے سینے سے لگائے ہوئے تھے۔ آپ کی لائبریری تھی جس میں بہت نایاب کتب بھی تھیں۔ گھر جلائے جانے کے چار روز بعد پنجاب کے چند اعلیٰ افسران آپ کے گھر آئے اور آپ سے نقصان کا افسوس کیا تو آپ فرمانے لگے کیسا افسوس! ایک مومن کو اللہ تعالیٰ ایک سجدہ میں جو لذّتیں عطا کر دیتا ہے اس کے سامنے ان سب چیزوں کی حیثیت ہی کیا رہ جاتی ہے۔
دعا کی قبولیت کا ایک دلچسپ واقعہ آپ نے یہ سنایا کہ مَیں گورداسپور سے قریباً ہر ہفتہ کو قادیان جاتا تھا۔ اتوار کا دن قادیان بسر کرتا اور پیر کے دن واپس آجاتا تھا۔ اس زمانہ میں بٹالہ سے قادیان گاڑی نہیں چلتی تھی اس لئے گورداسپور سے قادیان تک 12میل کا سفر سائیکل پر کرتا تھا۔ تین سال تک قریباً یہی روٹین رہی۔ کچھ عرصہ گھوڑا بھی رکھا کیونکہ سارا سفر سائیکل پر موزوں نہ تھا۔ بعض جگہ بورڈ لگے ہوتے تھے کہ آفتاب غروب ہونے کے بعد سفر نہ کریں۔ راستے میں ڈاکے وغیرہ پڑتے ہیں۔ ایک مرتبہ جب آدھا سفر سائیکل پر طے کیا تو اچانک سائیکل پنکچر ہوگیا۔ مجھے پنکچر لگانا بھی نہیں آتا تھا۔ ابھی ایک گھنٹے کا سفر باقی تھا اور اگر پیدل چلتا تو مزید تین گھنٹے لگتے۔ مَیں نے سائیکل کھڑی کرکے دعا کی۔ جب دعا ختم کی تو دیکھا کہ ایک سکھ سائیکل پر آرہا تھا۔ اس کو معلوم ہوا کہ میرا سائیکل پنکچر ہو گیا ہے تو اس نے سامان نکالا اور سائیکل کوپنکچر لگا دیا۔
ایک دفعہ آپ نے بتایا کہ مَیں نے خواب میں دیکھا کسی نے مجھے دودھ کا ایک پیالہ دیا ہے۔ مَیں نے وہ دودھ کا پیالہ پیا تو وہ اتنا مزیدار تھا کہ اس کی لذّت میرے تمام جسم میں پھیل گئی۔ صبح جب میں بیدار ہوا تو وہ لذت میرے منہ اورجسم میں محفوظ تھی۔ مَیں نے اس دن صبح ناشتہ بھی نہ کیا کہ وہ لذّت دیر تک قائم رہے۔
آپ فرمایا کرتے تھے کہ پاکیزہ نمونہ بذات خود بہت بڑی دعوت الی اللہ ہے۔ ایک دفعہ جب آپ کو مکرم ڈاکٹر مسعود الحسن نوری صاحب چیک اَپ کے لئے CMH راولپنڈی لے گئے تو وہاں ہسپتال میں آپ دو بجے تہجد کے لئے بیدار ہوتے۔ ڈیوٹی پر موجود سٹاف آپ کے اس عمل کو بڑی محبت کی نظر سے دیکھتا۔
خلفائے کرام کے ساتھ آپ کا قریبی تعلق تھا۔ آپ نے ایک دفعہ بتایا کہ جب میں نیا نیا سرگودھا آیا ایک دن بغیر اطلاع کے حضرت مصلح موعود مجھے ملنے تشریف لے آئے اور فرمایا کہ مَیں صرف آپ کی رہائش دیکھنے آیا ہوں کہ آپ یہاں سہولت سے ہیں یا نہیں؟
حضرت خلیفۃ المسیح الرابع کو بھی آپ سے بے انتہا محبت تھی۔ ایک دفعہ مسجد فضل لندن میں آپ نماز کے انتظار میں بیٹھے تھے کہ حضورؒ پیچھے سے تشریف لائے اور پیار سے آپ کے کندھوں پر ہاتھ رکھا۔ ایک دفعہ حضور آپ سے فرمانے لگے جب آپ لندن ہوتے ہیں تو مجھے بہت زیادہ خوشی رہتی ہے اورجب آپ چلے جاتے ہیں تو میں اس جگہ کو بھی پیار سے دیکھتا ہوں جس جگہ آپ آکر بیٹھتے ہیں۔ ایک دفعہ جب آپ لندن میں تھے تو فجر کی نماز پر آپ نہ آسکے۔ نماز کے بعد حضور فرمانے لگے کیا وجہ ہے کہ مرزا عبدالحق صاحب نہیں آئے۔ظہر کی نماز پر جب آپ تشریف لائے تو کسی نے آپ کو یہ بات بتادی۔ آپ بے چین ہوئے اور تین دفعہ اُن سے کہا کہ حضور کو میری طرف سے عرض کرنا کہ میں دُور رہتا ہوں اور آج فجر کی نماز کے وقت میری سواری کا بندوبست نہیں ہوسکا تھا۔
آپ نے حضرت مصلح موعودؓ کی اپنائیت کا ایک واقعہ یوں بیان کیا کہ حضرت مصلح موعودؓ دریا کی سیر کے لئے نکلے اور کشتی میں سوار ہو گئے۔ کچھ لوگ بھی ساتھ تھے اور صرف ایک آدمی کی جگہ تھی۔ حضرت مرزا ناصر احمد صاحبؒ اور خاکسار وہاں کنارے پر موجود تھے۔ حضور نے فرمایا: ناصر احمد آپ آجائیں۔ مرزا صاحب کہتے ہیں کہ جب مَیں گورداسپور گیا تو حضور کو خط لکھا کہ بیٹا آخر بیٹا ہی ہوتا ہے۔ اگلی دفعہ جب میں قادیان گیا تو حضورؒ مجھے اپنے ساتھ شکار کے لئے لے گئے۔ اس طرح میری دلجوئی فرمائی۔
اسی طرح ایک مرتبہ محترم کرنل مرزا داؤد احمد صاحب اور مَیں حضورؓ کے ساتھ کار میں سفر کررہے تھے کہ ایک جگہ ہرنوں کی ایک بڑی قطار نظر آئی۔ حضورؓ نے ہم دونوں کو فرمایا کہ ہرن کا شکار کرکے لاؤ اور حضورؓ وہاں سڑک کے کنارے کھڑے ہو گئے۔ ہم دونوں بندوقیں لے کر شکار کے لئے گئے۔ فائر بھی کئے مگر ہرن بھاگ گئے۔ کچھ وقت گزر گیا جب ہم واپس آئے تو حضور نے مجھے مخاطب کرکے ازراہ مزاح فرمایا: مرزا جی! سلام، ہرن گھر جاکر ضرور مر جائے گا۔ مَیں نے جواباً عرض کیا: حضور! سلام، واقعی ایک نہ ایک دن ضرور مر جائے گا۔
قبولیت دعا کا یہ واقعہ بھی آپ نے سنایا کہ مَیں بس میں سوار ہوکر کہیں جارہا تھا۔ پیٹ میں گڑبڑ تھی اور حاجت محسوس ہوئی لیکن بس کو ٹھہرانا بھی عجیب لگ رہا تھا اور دوسری طرف کام برداشت سے باہر تھا۔ مَیں نے دعا کی کہ اے اللہ! کوئی صورت نکال دے۔ چنانچہ اُسی وقت بس کا ٹائر پھٹ گیا اور بس کھڑی ہوگئی۔
آپ کی دین سے محبت اور دینی غیرت کا آئینہ دار یہ واقعہ بھی بیان کے لائق ہے۔ آپ کے ایک بیٹے طاہر احمد صاحب 1974ء کے حالات کی وجہ سے جماعت سے لاتعلق ہو گئے تھے۔ جب وہ فوت ہوئے تویہ عاجز آپ کے پاس افسوس کے لئے حاضر ہوا۔ آپ نے بڑے زور سے کہا کہ بیٹا افسوس کس چیز کا۔ میرے لئے تو وہ اسی دن مر گیا تھا جس دن اس نے جماعت سے علیحدگی اختیار کرلی تھی۔ پھر فرمانے لگے: وہ ایک بزدل شخص تھا خود بھی ضائع ہو گیا اور اپنی اولاد کو بھی ضائع کردیا۔ آخر میں فرمایا کہ اگر اللہ تعالیٰ مجھے حکم دے کہ اپنے تمام بیٹوں کو قربان کر دو تو میں ایک لمحہ کے لئے بھی نہ سوچوں اور اپنے تمام بچوں کوقربان کردوں۔
پس آپ ایسے مبارک وجود تھے جنہوں نے ہر ایک چیز پر اپنے خدا کو مقدّم رکھا اور اس سے اپنے اس مضبوط تعلق کو آخری سانس تک وفا کے ساتھ نبھایا۔ عابد و زاہد انسان تھے۔ ایک دفعہ مجھے بتایا کہ مَیں عموماً تہجد کی دورکعات نماز ڈیڑھ گھنٹے میں ادا کرتا ہوں۔
خاکسار کو آپ سے اور آپ کو مجھ سے جو محبت تھی اس کا اظہار اس بات سے ہوتا کہ ایک دفعہ مجھے بتایا کہ تہجد میں ایک سجدے میں آپ کے لئے دعا کرتا ہوں۔ اور یہ بھی بتایا کہ جب میں اپنے بچوں کا صدقہ دیتا ہوں تو آپ کا صدقہ بھی شامل کرلیتا ہوں۔
آپ ایک غریب پرور انسان تھے۔ اکثر و بیشتر مختلف علاقوں سے غرباء آپ کے پاس آتے اور آپ حسبِ استطاعت ان کی مالی مدد کیا کرتے تھے۔ مالی قربانی کا جذبہ بھی آپ کے اندر بہت زیادہ تھا۔ ہر تحریک میں آپ صفِ اوّل میں شامل تھے اور ہمیشہ چندہ سال کے شروع میں ہی ادا کر دیا کرتے تھے۔ ایک عجیب واقعہ آپ نے سنایا کہ مالی خوشحالی رکھنے والے کسی شخص سے آپ نے کچھ چندہ دینے کے لئے کہا تو وہ حیل و حجّت کرنے لگا۔ جس پر آپ نے اُسے کہا کہ اچھا پھر مرنے سے پہلے یہ وصیت کرجانا کہ میرا سارا مال میرے ساتھ قبر میں رکھ دو۔ خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ وہ چند دنوں کے بعد وفات پا گیا اور سب مال اسباب دنیا میں ہی چھوڑ گیا۔
آپ کی وفات کے بعد ایک دوست نے خواب میں دیکھا کہ ایک تخت لگا ہوا ہے حضرت مسیح موعودؑ موجود ہیں اور خلفائے احمدیت بھی وہاں ہیں اور مرزا عبدالحق صاحب بھی ہیں۔ مَیں نے دربان سے اندر جانے کی اجازت چاہی تو جواب ملا کہ یہ ایک بہت اہم میٹنگ ہے لہٰذا آپ اندر تشریف نہیں لے جاسکتے۔