حضرت مسیح موعودؑ کا حسن معاشرت

حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:
’’روحانی اور جسمانی طور پر اپنی بیویوں سے نیکی کرو۔ ان کیلئے دعا کرتے رہو … جس کو خدا نے جوڑا ہے اس کو ایک گندے برتن کی طرح مت توڑو‘‘۔
چنانچہ ایک شخص جو عجلت میں اپنی بیوی کو طلاق دینا چاہتا تھا اس کے بارہ میں آپؑ نے فرمایا ’’جو شخص اس قدر جلدی قطع تعلق کرنے پر آمادہ ہو جاتا ہے تو ہم کیسے امید رکھ سکتے ہیں کہ ہمارے ساتھ اس کا پکا تعلق ہے۔‘‘
حضرت نواب محمد علی خان صاحب کی زوجہ اوّل کی وفات کے موقع پر حضور علیہ السلام نے انہیں جو تعزیتی خط لکھا اس میں تحریر فرمایا ’’درحقیقت اگرچہ بیٹے بھی پیارے ہوتے ہیں بھائی اور بہنیں بھی عزیز ہوتی ہیں لیکن میاں بیوی کا علاقہ ایک الگ علاقہ ہے جس کے درمیان اسرار ہوتے ہیں۔ میاں بیوی ایک ہی بدن اور ایک ہی وجود ہو جاتے ہیں۔ ان کو صدہا مرتبہ اتفاق ہوتا ہے کہ وہ ایک ہی جگہ سوتے ہیں۔ وہ ایک دوسرے کا عضو ہوجاتے ہیں۔ بسااوقات ان میں ایک عشق کی سی محبت پیدا ہوجاتی ہے … بسا اوقات اس تعلق کی برکت سے دنیوی تلخیاں فراموش ہو جاتی ہیں۔ یہاں تک کہ انبیاء علیہم السلام بھی اس تعلق کے محتاج تھے۔ جب سرور کائناتﷺ بہت ہی غمگین ہوتے تھے تو حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی ران پر ہاتھ مارتے تھے اور فرماتے تھے کہ ارحنا یا عائشہ یعنی اے عائشہ ہمیں خوش کر کہ ہم اس وقت غمگین ہیں‘‘۔
حضرت اماں جانؓ فرماتی ہیں کہ جب میں پہلے پہل دلّی سے آئی تو مجھے معلوم ہوا کہ حضرت مسیح موعودؑ گڑ کے میٹھے چاول پسند فرماتے ہیں ۔ چنانچہ میں نے بہت شوق اور اہتمام سے میٹھے چاول پکانے کا انتظام کیا، تھوڑے سے چاول منگوائے اور اس میں چار گنا گڑ ڈال دیا، سو وہ بالکل راب سی بن گئی …ادھر کھانے کا وقت ہوگیا تھا۔ حیران تھی کہ اب کیا کروں۔ اتنے میں حضرت صاحب آگئے، میرے چہرے کو دیکھا جو رنج اور صدمہ سے رونے والوں کا سا بنا ہوا تھا۔ آپؑ دیکھ کر ہنسے اور فرمایا کیا چاول اچھے نہ پکنے کا افسوس ہے۔ پھر فرمایا نہیں یہ تو بہت اچھے ہیں۔ میرے مذاق کے مطابق پکے ہیں۔ ایسے زیادہ گڑ والے ہی تو مجھے پسندیدہ ہیں۔ یہ تو بہت ہی اچھے ہیں اور پھر بہت خوش ہوکر کھائے۔… حضرت صاحب نے مجھے خوش کرنے کی اتنی باتیں کہیں کہ میرا دل بھی خوش ہوگیا۔‘‘
حضور علیہ السلام نے فرمایا ہے ’’فحشاء کے سوا باقی تمام کج خلقیاں عورتوں کی برداشت کرنی چاہئیں‘‘۔
ایک دوست کی اپنے گھر میں درشت مزاجی کا ذکر ہوا تو حضورؑ نے فرمایا ’’ہمارے احباب کو ایسا نہ ہونا چاہئے … میرا یہ حال ہے کہ ایک دفعہ میں نے اپنی بیوی پر آوازہ کسا تھا اور میں محسوس کرتا تھا کہ وہ بانگ بلند دل کے رنج سے ملی ہوئی ہے اور باایں ہمہ کوئی دل آزار اور درشت کلمہ مونہہ سے نہیں نکلا تھا۔ اسکے بعد میں بہت دیر تک استغفار کرتا رہا اور بڑے خشوع و خضوع سے نفلیں پڑھیں اور کچھ صدقہ بھی دیا کہ یہ درشتی زوجہ پر کسی پنہانی معصیت الٰہی کا نتیجہ ہے‘‘۔
ایک مرتبہ ایک سیڑھی کی جگہ تبدیل کرنے کی ضرورت پڑی۔ نئی جگہ پر رکھنے کے مولوی محمد احسن صاحب مخالف تھے کہ میرے حجرہ کو اندھیرا ہو جائے گا اور حضرت اماں جانؓ کا حکم تھا کہ وہاں رکھی جاوے۔ حضرت میر ناصر نواب صاحبؓ یہ انتظام کر رہے تھے اس لئے ان کو بڑی جدوجہد کرنی پڑی اور ان کی مولوی صاحبؓ سے تکرار ہورہی تھی کہ حضورؑ تشریف لائے اور پوچھا کیا ہے؟ میر صاحب نے کہا کہ مجھ کو اندر سیدانی (یعنی حضرت اماں جان) آرام نہیں لینے دیتی اور باہر سید سے پالا پڑ گیا ہے، نہ یہ مانتے ہیں نہ وہ مانتی ہیں، میں کیا کروں۔ حضورؑ نے مسکرا کر فرمایا مولوی صاحب آپ کیوں جھگڑتے ہیں میر صاحب کو جو حکم دیا گیا ہے ان کو کرنے دیجئے ، روشنی کا انتظام کردیا جاوے گا، آپ کو تکلیف نہیں ہوگی۔ … غرض کبھی اور کوئی موقع ایسا نہیں آیا کہ آپؑ نے حضرت اماں جانؓ کی دلشکنی کی ہو۔
حضرت اماں جانؓ اور حضرت اماں جیؓ (حرم حضرت خلیفۃالمسیح الاولؓ) اپنے بچوں کے ہمراہ حضرت میر ناصر نواب صاحبؓ کے ساتھ 4؍جولائی 1907ء کو تبدیلی آب و ہوا کی غرض سے لاہور تشریف لے گئیں۔ 14؍ جولائی کو یہ قافلہ واپس بٹالہ پہنچا تو حضرت اقدس مسیح موعودؑ اپنے حرم کے استقبال کے لئے چند خدام سمیت عازم بٹالہ ہوئے۔ … آپؑ کے سٹیشن پر پہنچنے سے پہلے گاڑی آچکی تھی اور حضرت اماں جانؓ آپ کو تلاش کر رہی تھیں۔ چونکہ ہجوم بہت زیادہ تھا اس لئے تھوڑی دیر تک آپؑ انہیں نظر نہیں آسکے۔ پھر جب آپؑ پر نظر پڑی تو ’’محمود کے ابا‘‘ کہہ کر آپ کو اپنی طرف متوجہ کیا۔ اس پر حضرت اقدسؑ آگے بڑھے اور اپنی زوجہ محترمہ سے مصافحہ کیا۔ اس کے بعد حضور واپس اپنی فرودگاہ پر تشریف لائے اور دوپہر کا وقت گزار کر پچھلے پہر عازم قادیان ہوئے۔‘‘
حضرت منشی ظفر احمد صاحبؓ کپورتھلوی حضرت مسیح موعودؑ کی سادگی اور بے تکلف زندگی کا مظہر یہ واقعہ بیان فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ حضورؑ دہلی سے واپسی پر امرتسر اترے۔ حضرت اماں جانؓ بھی ہمراہ تھیں۔ حضورؑ نے ایک صاحبزادے کو جو غالباً میاں بشیر احمد صاحبؓ تھے گود میں لیا اور ایک وزنی بیگ دوسری بغل میں لیا۔ مجھے فرمایا کہ آپ پاندان لے لیں۔ میں نے کہا حضور مجھے یہ بیگ دے دیں۔ آپؑ نے فرمایا نہیں ۔ ایک دو دفعہ میرے کہنے پرحضورؑ نے یہی فرمایا تو میں نے پاندان اٹھالیا اور ہم چل پڑے۔ اتنے میں دو تین جوان عمر انگریز جو سٹیشن پر تھے انہوں نے مجھ سے کہا کہ حضور سے کہوں کہ ذرا کھڑے ہو جائیں۔ چنانچہ میں نے عرض کی۔ حضورؑ کھڑے ہوگئے اور انہوں نے اسی حالت میں حضورؑ کا فوٹو لے لیا۔
دراصل حضرت اقدس مسیح موعودؑ اور آپؑ کی زوجہ محترمہ میں محبت کی بنیاد محبت الٰہی تھی چنانچہ جب حضورؑ کا وصال ہوا تو حضرت اماں جانؓ جسد مبارک کے پاس تشریف لائیں اور فرمایا ’’تو نبیوں کا چاند تھا تیرے ذریعہ میرے گھر میں فرشتے اترتے تھے اور خدا کلام کرتا تھا‘‘۔ اس فقرے سے نمایاں ہے کہ حضورؑ اپنے اہل خانہ سے کسقدر حسن معاشرت کرتے تھے اور آپؑ کے دعاوی کی صداقت کس طرح حضرت اماں جانؓ کے دل میں جاگزیں تھی۔
حضرت مسیح موعودؑ جماعت کو نصیحت فرماتے ہیں ’’چاہئے کہ بیویوں سے خاوند کا ایسا تعلق ہو جیسے دو سچے اور حقیقی دوستوں کا ہوتا ہے‘‘۔
سیرت طیبہ کے سلسلہ میں یہ مضمون ماہنامہ ’’انصاراللہ‘‘ جولائی 1997ء میں (مرتبہ مکرم سمیع اللہ زاہد صاحب) شامل اشاعت ہے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں