حضرت مسیح موعودؑ کی سخاوت
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 19؍مارچ 2004ء میں مکرم بشیر احمد رفیق صاحب کے قلم سے حضرت مسیح موعودؑ کی سخاوت کے بارہ میں ایک مضمون شامل اشاعت ہے۔
حضرت مسیح موعود ؑ سے جب بھی کسی سائل نے کوئی سوال کیا تو آپ نے ہمیشہ نہایت خوش دلی اور بشاشت کے ساتھ اس کی ضرورت کو پورا فرمایا۔ اور کبھی اشارۃً یا کنایتہ بھی اس بات پر ناراضگی کا اظہار نہیں فرمایا کہ سائل مانگتا کیوں ہے۔
1905ء میں حضورؑ دہلی تشریف لے گئے توایک روز مزارات بزرگان پر جانے کا پروگرام بنا۔ کسی نے مزاروں پر فقیروں کا ذکر کیا کہ کہ ہٹے کٹے ہوتے ہیں اورحقیقتاً کوئی ضرورت بھیک مانگنے کی انہیں نہیں ہوتی۔ آپؑ نے یہ سن کر فرمایا: کوئی بات نہیں۔ ہم سب گداگروں کو دیں گے۔
حضرت صاحبزادہ سید عبدالطیف صاحب شہید نے حضرت مسیح موعود ؑ کیلئے ایک نہایت قیمتی کوٹ جس پر خوبصورت کام ہوا تھا اور جس کے اندر اونی استر تھا، بطور تحفہ بھیجا۔ حضورؑ نے یہ کوٹ ایک دن زیب تن فرمایا تھا کہ خواجہ کمال الدین صاحب وکیل کی نظر اس پر پڑ گئی۔ انہوں نے عرض کیا ۔ حضور یہ کوٹ مجھے عنایت فرمائیں، مجھے عدالت میں پیش ہونا ہوتا ہے۔ اس کوٹ کی برکت سے میں مقدمات میں کامیابی حاصل کرسکوں گا۔ حضور نے مسکرا کر اسی وقت یہ قیمتی جبہ انہیں دیدیا۔
ایک دفعہ حضور سیر کے بعد گھر تشریف لے جانے لگے تو کسی فقیر نے خیرات کی صدادی۔ حضور کسی سے گفتگو میں مشغول تھے اس لئے فقیر کی آواز صاف نہ سن سکے اور اندر تشریف لے گئے۔ لیکن تھوڑی ہی دیر بعد باہر تشریف لائے اور فرمایا کسی فقیر نے سوال کیا تھا۔ وہ کہاں ہے؟ لوگوں نے دوڑ دھوپ کر کے فقیر کو تلاش کر دیا۔ آپ نے اسے کچھ رقم دی۔ اور پھر گھر میں تشریف لے گئے۔
قادیان کے قریب سٹھیالی ایک چھوٹا سا گاؤں ہے۔ وہاں سے ایک فقیرآکر مسجد مبارک کی چھت کے نیچے آکر کھڑکی کے پاس آواز لگایا کرتا کہ غلام احمد روپیہ لینا ہے۔ اگر حضورؑ اُس کی آواز کو نہ سن پاتے تو وہ ہر تھوڑی دیر کے بعد آواز لگاتا جو اکثر لوگوں کو ناگوار لگتا اور اگر کوئی اس فقیر کو منع کرتا تو کہہ دیتا تھا کہ میں تمہارے پاس تو نہیں آیا۔ میں تو غلام احمد سے مانگتا ہوں۔ حضور کو جب معلوم ہوجاتا کہ کسی نے اسے کچھ کہا ہے تو حضور ناراض ہوتے اور فوراً باہر تشریف لاکر مسکرا کر فقیر کو روپیہ عنایت فرمادیتے تھے۔
ایک دن نماز عصر کے بعد آپ معمولاً اٹھے اورمسجد کی کھڑکی میں اندر جانے کیلئے پاؤں رکھا اتنے میں ایک سائل نے آہستہ سے کہا کہ حضور میں سوالی ہوں۔ حضور کو اس وقت ایک ضروری کام درپیش تھا اور کچھ اس سائل کی آواز دوسری آوازوں میں گھل مل گئی۔ حضور اندرچلے گئے۔ لیکن جب گھر کے اندر تشریف لے گئے۔ تو فقیر کی دھیمی آواز پھر کان میں پڑی۔ اور خلیفہ نورالدین صاحب کو آواز دی کہ ایک سائل تھا۔ اسے دیکھو کہاں ہے؟ وہ سائل آپ کے گھر کے اندر تشریف لے جانے کے بعد چلا گیا تھا۔ خلیفہ صاحب نے بہت ڈھونڈا مگر پتہ نہ چلا۔ شام کو حسب عادت نماز پڑھ کر حضور خدام میں جلوہ افروز ہوئے تو وہی سائل آگیا اور سوال کیا۔ حضور نے بہت جلدی جیب سے کچھ نکال کر اس کے ہاتھ میں رکھ دیا اور ایسا معلوم ہوا کہ آپ ایسے خوش ہوئے ہیں کہ گویا کوئی بوجھ آپ کے اوپر سے اتر گیا ہے۔ چند دن بعد ایک تقریب میں حضور نے ذکر فرمایا ’’کہ اس دن جب وہ سائل نہ ملا۔ تو میرے دل پر بہت بوجھ ہوا اور سخت بے قرار رہا۔ اور مجھے خوف ہوا کہ کہیں مجھ سے کوئی خطا تو سرزد نہیں ہوئی کہ میں نے سائل کی طرف دھیان نہ کیا اور یوں جلدی اندر چلا گیا۔ اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ وہ شام کو واپس آگیا۔ ورنہ خدا جانے میں کس اضطراب اور تکلیف میں رہتا۔ میں نے دعا بھی کی تھی کہ اللہ تعالیٰ اسے واپس لائے‘‘۔
حضرت اماں جانؓ سے روایت ہے کہ حضورؑ صدقہ بہت دیا کرتے تھے اور عموماً ایسا خفیہ دیا کرتے تھے کہ ہمیں بھی پتہ نہ لگتا تھا۔ آخری ایام میں جتنا روپیہ آتا تھا۔ اس کا دسواں حصہ صدقے کیلئے الگ رکھ دیا کرتے تھے اور اس میں سے دیتے رہتے تھے۔ ورنہ ویسے دینے کو تو اس سے زیادہ بھی دیتے تھے ۔
قادیان میں نہال سنگھ نامی ایک سکھ احمدیوں کا دشمن تھا۔ اس نے جماعت کے اکابرین میں سے بعض کے خلاف فوجداری کے مقدمات بھی دائر کررکھے تھے۔ انہی دنوں جب وہ اپنی مخالفت، گالی گلوچ میں مگن تھا تو اسے مشک کی ضرورت پڑی۔ مشک بہت قیمتی چیز ہے اور قادیان میں یہ کہیں سے بھی نہیں مل سکتی تھی۔ اُس کی ضرورت شدید تھی اس لئے وہ حضرت مسیح موعود ؑ کے دروازہ پر گیا اور دستک دی۔ آپ ؑ باہر تشریف لائے تو اُس نے حضورؑ کی خدمت میں مشک کی درخواست کی۔ حضورؑ فوراً اندر تشریف لے گئے۔ اور خاصی مقدار میں مشک لا کر اس کے حوالہ کر دی۔ آپؑ نے نہ اس بات کی پرواہ کہ مانگنے والا دشمن ہے اور نہ اس بات کی پرواہ کی کہ مشک بہت قیمتی چیز ہے۔
ایک دفعہ ایک غیر احمدی مولوی قادیان آیا اور حضرت مسیح موعود ؑ سے بحث کرنے لگا۔ جب کوئی جواب نہ بن پڑا تو خاموش ہو گیا۔ حضورؑ نے اس سے دریافت کیا: مولوی صاحب! اب تو آپ سمجھ گئے ہوں گے۔ اُس نے جواب دیا ’’جی میں سمجھ گیا ہوں کہ آپ دجال ہیں کیونکہ دجال کی ایک یہ بھی صفت بیان ہوئی ہے کہ وہ بحث میں دوسروں کے منہ بند کردے گا‘‘۔ حضور نے پھر کچھ نہ فرمایا۔ اور یہ مولوی چلا گیا۔ امرتسر جاکر اس نے ایک اشتہار میں یہ واقعہ بیان کیا کہ میں نے یہ الفاظ کہے لیکن باوجود اس کے جب آپ اندر تشریف لے گئے۔ تو میں نے ایک رقعہ بھیجا کہ میں ضرورت مند ہوں۔ آپ نے فوراً پندرہ روپے بھیج دئیے۔ مولوی صاحب نے مزید لکھا میرزا صاحب بہت سخی شخص ہیں اور آپ کے منہ پر بھی آپ کو سخت الفاظ کہے جائیں تو برا نہیں مناتے۔
آپ کی یہ عادت مبارکہ تھی کہ خود اپنے آپ کو تکلیف میں ڈال کر بھی دوسروں کی مدد کر دیا کرتے تھے اور اس میں خوشی محسوس کرتے تھے۔ میرزا اسماعیل بیگ صاحب جنہوں نے بچپن سے حضورؑ کے آخری عہد زندگی تک خدمت کی تھی، کہتے ہیں کہ میں گھر سے 7؍ روٹیاں لایا کرتا تھا۔ چار آپ کیلئے اور تین اپنے لئے۔ ان چار میں سے آپ کے حصہ میں ایک روٹی بھی نہیں آیا کرتی تھی۔ کھانے کے عین وقت پر عنایت بیگ آتا اور دروازہ کھٹکھٹاتا تھا۔ آپ ایک روٹی اور سالن کا کچھ حصہ اسے دے دیتے اور وہ وہیں بیٹھ کر کھالیتا تھا۔ پھر وہ چلا جاتا تو تھوڑی دیر بعد حسینا کشمیری آتا۔ ایک روٹی اور سالن کا کچھ حصہ اسے دے دیتے اور وہ وہیں بیٹھ کر کھا لیتا اور چلا جاتا۔ پھر اس کے بعد جمال کشمیری آجاتا۔ایک روٹی اور سالن کا کچھ حصہ اسے دے دیتے تھے۔ پھر حافظ معین الدین چلے آتے۔ انہیں بھی ایک روٹی سالن کا کچھ حصہ عنایت فرماتے اور اس طرح روٹیاں دوسروں کو کھلا کو خود تھوڑا سا بچا ہوا شوربہ پی لیتے۔ میں ہر چند اصرار کرتا مگر میری روٹی میں سے نہ کھاتے۔ میرے اصرار کرنے پر بھی گھر سے اَور روٹی اپنے لئے نہ منگواتے تھے۔ کبھی جب میں بہت ضد کرتا اور کہتا کہ اگر آپ میرے حصہ میں سے نہیں کھائیں گے تو میں بھی نہیں کھاؤں گا۔ تو تھوڑی سی کھا لیتے۔ ایسا ہی شام کو بھی ہوتا۔ البتہ شام کو ایک پیسے کے چنے منگواکر کچھ آپ چبا لیتے۔ کچھ مجھے دیتے۔
حضرت مولوی نور الدین صاحبؓ کا ایک بھتیجا بدصحبت میں پڑنے کی وجہ سے آوارہ ہوگیا تھا اور فقیروں جیسا لباس پہن کر پھرا کرتا تھا۔ وہ کبھی کبھی قادیان بھی آنکلتا۔ اور حضرت مولوی صاحب سے مالی مدد لے لیا کرتا تھا۔ ایک دفعہ حضرت مولوی صاحب نے اس کے خراب چال چلن اور بار بار مانگنے سے تنگ آکر اسے کچھ دینے سے انکار کردیا تو وہ حضرت مسیح موعود ؑ کے دروازہ پر گیا۔ لوگوں نے اسے سمجھایا کہ میاں اگر تمہارے سگے چچا نے تمہاری مدد کرنے سے انکار کر دیا تو بھلا حضور تمہاری مدد کیوں کرنے لگے۔ لیکن اس نے باصرار ایک رقعہ حضور کی خدمت میں اندر بھجودیا۔ جس میں لکھا کہ میرے چچا تو میری مدد کرنے سے انکاری ہیں اس لئے آپ کے دروازہ پر آیا ہوں۔ رقعہ میں اس نے ایک معقول معین رقم کا مطالبہ کیا تھا۔ تھوڑی ہی دیر میں اندر سے خادمہ اتنی ہی رقم لے کر سائل کو دے گئی۔
سید عبد الحئی صاحب عرب نے جب شادی کی تو حضور کی خدمت میں حاضر ہو کرعرض کیا کہ میں اپنا مکان بنوانا چاہتا ہوں اس لئے میں فلاں جگہ جاتا ہوں وہ مالدار لوگ ہیں۔ میری ضرور مدد کریں گے۔ آپ نے فرمایا ۔ ٹھیک ہے، کوشش کر دیکھو۔ کچھ عرصہ بعد وہ مایوس واپس لوٹے اور حضور کی خدمت میں عرض کیا کہ مالداروں نے تو کوئی مدد نہ کی۔ آپؑ نے سن کر فرمایا: میاں عبد الحئی صاحب! پریشان نہ ہوں آپ کا مکان ہم بنوادیں گے۔ اور دوسرے دن عرب صاحب کو پانچ سو روپیہ بھجوادیا۔ جس سے انہوں نے اپنا مکان بنوا لیا۔
حضورؑ عام طور پر خفیہ طریقوں سے مدد کرتے تھے اور خاص خیال رکھتے تھے کہ سائل کی عزت نفس مجروح نہ ہونے پائے۔ ایک دفعہ آپ کو معلوم ہوا کہ آپ کا ایک مرید مالی تنگی کا شکا ر ہے آپ نے پچیس روپے ایک پوٹلی میں باندھے اور اس مرید کے گھر تشریف لے گئے۔ مرید خوشی سے پھولے نہ سماتا تھا کہ حضور یعنی اس کے آقا اس کے گھر آئے ہیں۔ حضور نے اس کے حالات دریافت فرمائے اور پوچھا کہ کتنی تنخواہ ملتی ہے اس نے بتایا 8روپے ماہوار۔ آپ نے اسے نصیحت فرمائی کہ تھوڑے پر بھی خدا کا شکر کرنا چاہئے ۔ اللہ تعالیٰ بہت دینے والا ہے۔ پھر آپ واپس جانے کیلئے اٹھے تو چپکے سے وہ پوٹلی جس میں 25روپے باندھ رکھے تھے۔ اس کی چارپائی پر رکھ دی۔ حضور کے چلے جانے کے بعد جب اس نے پوٹلی دیکھی تو دوڑا دوڑا حضور کے پاس پہنچا اور کہا: حضور آپ یہ پوٹلی بھول گئے ہیں۔ آپ نے فرمایا میں بھول کر نہیں آیا۔ یہ تمہارے لئے ہیں۔ رکھ لو۔ بعد میں آپ اس شخص کی متواتر مالی مدد فرماتے رہے۔