حضرت مسیح موعودؑ کی قبولیت دعا
حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنی کتاب ’’ضرورۃالامام‘‘ (مطبوعہ 1897ء) میں فرماتے ہیں:
’’مَیں کثرت قبولیت دعا کا نشان دیا گیا ہوں۔ کوئی نہیں جو اِس کا مقابلہ کرسکے۔ مَیں حلفاً کہہ سکتا ہوں کہ میری دعائیں تیس ہزار کے قریب قبول ہوچکی ہیں اور ان کا میرے پاس ثبوت ہے۔‘‘
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی قبولیت دعا کے بارہ میں ایک مضمون ماہنامہ ’’خالد‘‘ مارچ 2002ء میں مکرم عامر شہزاد عادل صاحب کے قلم سے شامل اشاعت ہے۔
حضرت مرزا غلام اللہ صاحبؓ بیان فرماتے ہیں کہ مجھے ایک دفعہ ہیضہ ہوگیا۔ مرض اتنا بڑھ گیا کہ حضرت مولوی نورالدین صاحب نے علاج کے بعد کہہ دیا کہ اب بچنا مشکل ہے، زندگی کی نسبت موت زیادہ قریب ہے۔ اس پر حضرت اقدسؑ کی خدمت میں دعا کے لئے عرض کی گئی۔ آپؑ نے فرمایا: اچھا مَیں دعا کروں گا۔ چنانچہ تھوڑی ہی دیر بعد حالت میں تغیر ہوگیا اور صبح تک مَیں بولنے لگا اور دوپہر خاصی طاقت آگئی اور اگلے دن مَیں نے جمعہ کی نماز مسجد اقصیٰ میں جاکر ادا کی۔
حضرت میاں چراغ دین صاحبؓ آف لاہور فرماتے ہیں کہ میرا لڑکا عبدالمجید ایسا بیمار ہوا کہ حکیموں اور ڈاکٹروں نے لاعلاج قرار دیا۔ اُس کی شادی میں صرف پندرہ دن تھے۔ مجھے سخت صدمہ ہوا اور گھبرا کر حضرت صاحب کے پاس دعا کے لئے بذریعہ خط التجا کی۔ آپؑ نے فوراً جواب لکھا کہ مَیں نے تمہارا خط آنے پر بہت دعا کی اور وہ دعا قبول ہوگئی۔ اللہ تعالیٰ کی شان کہ دو دن کے اندر مرض بالکل جاتی رہی۔
حضرت میر ناصر نواب صاحبؓ بیان فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ مجھے درد قولنج ہوا اور بڑی تکلیف تھی۔ میاں اسماعیل بھی میرے پاس تھے ا ور وہ میرے در د کو محسوس کرکے روتے تھے۔حضرت صاحب آئے اور دعا شروع کی۔ دیرتک دعا کی جس کے دوران درد جاتا رہا اور آرام آگیا۔
حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ کی روایت ہے کہ طاعون کے زمانہ میں مولوی محمد علی صاحب کو بخار ہوگیا۔ رفتہ رفتہ بخار کی ایسی شدت ہوئی کہ انہوں نے گھبراکر سمجھا کہ طاعون ہوگیا ہے اس لئے مجھ سے وصیت کی باتیں کرنے لگے۔ مَیں نے ہاتھ لگاکر دیکھا تو بخار شدید تھا۔ اسی اثناء میں حضرت مسیح موعودؑ تشریف لائے، آپؑ کے چہرہ پر تبسم تھا اور آپؑ نے ایک جذبہ کے ساتھ اپنا ہاتھ مولوی صاحب کے بازو پر مارا اور نبض دیکھ کر فرمایا: آپ گھبراتے کیوں ہیں، آپ کو تو بخار نہیں ہے۔ اگر آپ کو طاعون ہوجائے تو میرا سلسلہ ہی جھوٹا ہے۔ (چونکہ حضور علیہ السلام ایسا الہام شائع کرچکے تھے کہ میرے گھر میں رہنے والے طاعون سے محفوظ رہیں گے)۔ حضورؑ کے ایسا فرمانے پر مَیں نے ہاتھ بڑھاکر دیکھا تو فی الواقعہ بخار اترا ہوا تھا۔ پھر وہ جلد ہی تندرست ہوگئے۔
حضرت حکیم مفتی فضل الرحمن صاحبؓ بیان فرماتے ہیں کہ 1907ء میں میرا لڑکا تولد ہوا تو ساتویں دن میری بیوی کو تشنج کے آثار معلوم ہوئے۔زچہ کے لئے یہ مرض بڑی خطرناک ہوتی ہے اور اُن دنوں اس سے بہت اموات واقع ہورہی تھیں۔ مغرب کے بعد مَیں نے حضورؑ کی خدمت میں عرض کیا تو آپؑ نے فرمایا کہ یہ تو بڑی خطرناک مرض کا پیش خیمہ ہے، فوراً اس کو دس رتی ہینگ دیدو اور گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ بعد مجھے اطلاع دو۔ مَیں عشاء کے بعد پھر حاضر ہوا ا ور عرض کیا کہ مرض میں ترقی ہوگئی ہے۔ فرمایا دس رتی کونین دیدو اور ایک گھنٹہ بعد مجھے اطلاع دو، یہ نہ سمجھنا کہ مَیں سوگیا ہوں، بے تکلّف مردانہ سیڑھیوں سے آواز دو۔ چنانچہ ایک گھنٹہ بعد مَیں نے جاکر عرض کیا کہ کوئی افاقہ نہیں ہوا۔ فرمایا دس رتی مشک دیدو۔ عرض کیا: مشک کہاں سے لاؤں؟۔ آپؑ مٹھی بھر کر مشک لے آئے ۔ مَیں نے عرض کیا یہ زیادہ ہے۔ فرمایا: لے جاؤ، پھر کام آئے گا۔ ایک گھنٹہ بعد مَیں پھر گیا اور عرض کیا کہ مرض میں بہت اضافہ ہوگیا ہے۔ فرمایا: دس تولہ کسٹر آئل دیدو۔ مَیں نے یہ بھی کردیا۔ اس کے بعد اُس کو بہت قے ہوئی۔ یہ اس مرض کا آخری مرحلہ ہوتا ہے۔ پھر اس کا سانس اکھڑ گیا، گردن پیچھے کو کھنچ گئی، زبان بند ہوگئی اور آنکھوں میں اندھیرا چھاگیا۔مَیں بھاگ کر گیا اور حالت عرض کی۔ فرمایا دنیا کے جتنے ہتھیار تھے، وہ تو ہم نے چلالئے، اب ایک ہتھیار باقی ہے اور وہ دعا ہے۔ تم جاؤ، مَیں دعا سے اس وقت سر اٹھاؤں گا جب اسے صحت ہوگی۔ یہ سن کر مَیں لَوٹ آیا۔ رات کے دو بجے تھے، مریضہ کو اسی حالت میں چھوڑ کر دوسرے کمرے میں جاکر سو رہا۔ صبح کسی آہٹ سے میری آنکھ کھلی۔ دیکھا تو بیوی برتن درست کررہی تھی۔ مَیں نے حال پوچھا تو کہنے لگی کہ آپ تو سو رہے اور مجھے دو گھنٹہ بعد اللہ تعالیٰ نے فضل کردیا۔