حضرت مسیح موعودؑ کی کونسی ادا پیاری لگی!!
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 20؍مارچ 2000ء میں اخبار ’’الحکم‘‘ 26؍دسمبر 1935ء سے ایک مضمون منقول ہے جس میں اس سوال کے جواب میں کہ ’’آپؓ کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کونسی ادا پیاری لگی؟‘‘ بہت سے صحابہؓ کرام نے اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے اور یہ مضمون ایک خوشنما اور خوشبودار گلدستہ کی صورت میں حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانیؓ نے ہدیہ قارئین ہے:
حضرت شیخ محمد اسماعیل صاحب سرساویؓ نے بیان فرمایا: میرا محبوب دشمنوں کا بھی ہمدرد تھا، غریبوں کا غمگسار تھا، اس کو کسی بڑائی کی خواہش نہ تھی۔ … ان اوصاف سے متصف محبوب کی کس ادا کو پیارا کہوں اور کس ادا کو دوسری پر ترجیح دوں!۔
مکرم مہاشہ محمد عمر صاحب نے فرمایا: میرے دلبر آقا کی تحدی اور یقین نے وہ اثر کیا کہ مَیں اس کی ادا پر قربان ہوگیا۔
حضرت قاضی محمد یوسف صاحبؓ آف پشاور نے فرمایا کہ حضور علیہ السلام سادگی کے مجسمے اور تکلفات سے دُور تھے۔
حضرت بابا محمد حسن صاحبؓ نے فرمایا: حضورؑ کی شان یہ تھی کہ ہر ایک آدمی جو حضورؑ سے وابستہ تھا، اس سے ایسی محبت کرتے تھے کہ وہ یہ سمجھنے لگتا کہ حضورؑ مجھ سے سب سے زیادہ محبت کرتے ہیں۔
حضرت ماسٹر عبدالرحمن صاحبؓ نے فرمایا کہ مَیں سکھ سے مسلمان ہوا۔ میرا دل اُسی محبت کا شکار ہوا جو حضورؑ اپنے خدام سے فرمایا کرتے تھے۔
مکرم غلام محمد صاحب اختر کو حضور علیہ السلام کی قبولیت دعا پیاری لگی۔
حضرت بھائی مدد خان صاحبؓ نے فرمایا: مجھے حضورؑ کا چہرہ بہت پیارا لگتا تھا، مَیں جب اس کو دیکھتا تو اپنے سارے غم بھول جاتا۔
حضرت بابا کریم بخش صاحبؓ مہاجر نے فرمایا کہ مَیں نے جب حضورؑ کو پہلی دفعہ دیکھا تو حضورؑ کا جلوہ مجھے بہت پیارا لگا جس نے میری قوت کو صلب کردیا۔ … اس میں کونسا جادو تھا، مَیں نہ جان سکا۔
حضرت ڈاکٹر غلام غوث صاحبؓ نے فرمایا کہ حضورؑ اس قدر مجسمہ حسن و اخلاق تھے کہ حضورؑ کی کس ادا کو پیارا کہوں اور کس کو نہ کہوں!۔
مکرم مولوی عبداللہ صاحب اعجاز نے فرمایا
ز سرِ فرق تا بہ قدم ہر کجا مے نگرم
کرشمہ دامن دل مے کشد کہ جا ایں جا است
(یعنی سر سے لے کر پاؤں تک آپ کا وجود اتنا خوبصورت ہے کہ میرا دل ہر جگہ اٹک اٹک جاتا ہے)
حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحبؓ نے فرمایا کہ مجھے حضرت مسیح موعودؑ کی صورت بڑی پیاری لگتی تھی۔ آنکھوں کی غنودگی دل پر ہمیشہ یہ اثر پیدا کرتی تھی کہ حضورؑ ذکرالٰہی میں مستغرق ہیں۔
مکرم چودھری مظفرالدین صاحب بنگالی کو حضورؑ کی امن پسندی بہت پسند آئی۔
حضرت مفتی فضل الرحمن صاحبؓ نے فرمایا کہ میرا آقا
سیّدالقومِ خادمھم
کا مصداق تھا … گرمی کا موسم تھا، حضورؑ نے فجر کی نماز کے بعد مجھے گورداسپور بھیجا۔ مَیں وہاں سے بارہ بجے سخت دھوپ میں واپس آیا۔ حضرت اس وقت آرام فرما رہے تھے۔ مَیں نے حاضر ہوکر جواب پیش کیا۔ حضورؑ نے ازراہ شفقت فرمایا کہ میاں فضل الرحمن! تم بیٹھو، مَیں تمہارے لئے شربت لاتا ہوں۔ مَیں گرمی کا مارا ہوا تھا اور سفر کی منزل سے تھکا ہوا تھا۔ بستر پر لیٹ گیا کہ جب حضورؑ کی آہٹ پاؤں گا تو اٹھ کر بیٹھ جاؤں گا۔ لیٹتے ہی آنکھ لگ گئی۔ حضورؑ آئے اور مجھے معلوم نہ ہوا۔ گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ بعد آنکھ کھلی۔ دیکھا میرا آقا سید و مولیٰ کھڑا ہے۔ پنکھے کی رسی اُس کے ہاتھ میں ہے اور مجھے ہوا دے رہا ہے۔ مَیں دیکھتے ہی بے قرار ہوگیا اور گھبراہٹ سے اٹھ کر کھڑا ہو گیا۔ حضورؑ نے میری ندامت کو دیکھ کر فرمایا: گھبرانے کی کوئی بات نہیں، آپ تھکے ہوئے تھے، مَیں نے جگانا مناسب نہ سمجھا۔ یہ لو شربت پی لو۔ ایسے محسن آقا کی ہر شان جب مجھے یاد آتی ہے، میری آنکھوں سے آنسو بہ نکلتے ہیں۔
حضرت بابو محمد اسماعیل صاحبؓ کو حضورؑ کا آنحضورﷺ سے عشق بہت پیارا لگتا تھا۔
حضرت بابو وزیر خان صاحبؓ نے فرمایا کہ حضورؑ کا چہرہ اس قدر خوبصورت تھا کہ یہ خوبصورتی مَیں نے کسی انسان میں نہ دیکھی۔
حضرت شیخ عبدالرحمن صاحب قریشی نے فرمایا کہ مجھے تو حضورؑ کے اخلاق نے گرویدہ کرلیا۔
حضرت پیر مظہر حق صاحبؓ نے فرمایا کہ ہم بہت سے بچے اکٹھے ہو کر اُس کمرے کے باہر شور مچاتے اور کھیلتے جہاں حضورؑ آرام فرماتے بلکہ فٹ بال کھیلتے ہوئے اُس دروازہ میں بھی ککیں لگاتے جس کمرے کے اندر حضورؑ آرام فرمایا کرتے مگر وہ اخلاق کا مجسمہ کبھی ناراض نہ ہوتا اور کبھی نہ ڈانٹتا۔ مَیں اب پورے شعور کے ساتھ انسانی فطرت کا مطالعہ کرتا ہوں اور اس عظیم الشان شخص کے اخلاق کو دیکھتا ہوں تو حیرانی میں گم ہوجاتا ہوں۔
حضرت منشی کظیم الرحمن صاحبؓ نے فرمایا کہ جو بچے تعلیم کے لئے قادیان آتے ، حضورؑ اُن پر اپنے بچوں کی طرح مہربان تھے۔ ایک دفعہ میرے بھائی محب الرحمن کے روپیہ آنے میں تاخیر ہوئی اور ضابطہ کے مطابق اُن کی روٹی بند ہوگئی۔ انہوں نے چند دن کسی دوسرے شخص سے مل کر کھانا کھایا۔ جب حضورؑ کو علم ہوا تو آپؑ سپرنٹنڈنٹ پر سخت ناراض ہوئے اور فرمایا کہ یہ بچے میرے پاس آئے ہیں، کسی کو حق نہیں کہ ان کی روٹی بند کرے۔ میرے بھائی کو بلواکر اُس کی بڑی دلداری کی۔
حضرت حکیم عبدالعزیز صاحب ؓ پسروری کو حضورؑ کے تقویٰ نے اپنا گرویدہ کرلیا۔
حضرت قاضی محمد ظہورالدین صاحب اکملؓ نے فرمایا: میرے نزدیک حضرت مسیح موعودؑ کی ہر ایک ادا دلربا و دلکش تھی، کس کو کس پر ترجیح دوں:-
کرشمہ دامن دل مے کشد کہ جا ایں جا است
(یعنی: آپؑ کے حسن کا کرشمہ دامنِ دل کو اپنی طرف کھینچتا ہے۔)
حضرت شیخ نورالدین صاحبؓ تاجر قادیان پر ملاقات کے وقت حضورؑ کی مسرت اور بشاشت نے بہت اثر ڈالا۔
حضرت عبدالرحیم صاحبؓ چشم دہلوی حضورؑ کے غض بصر پر فدا تھے۔
حضرت مولوی فضل محمد صاحبؓ ہرسیاں والے کے دل پر حضورؑ کی وسعت حوصلہ کا بہت اثر تھا۔ آپؓ فرماتے ہیں کہ مَیں کئی دفعہ حضورؑ کی خدمت میں حاضر ہوتا اور ایسی باتیں کرتا جن کا حضورؑ سے کوئی تعلق نہ ہوتا۔ مجھے اب وہ باتیں یاد آتی ہیں تو حضورؑ کے قیمتی وقت ضائع کرنے کا افسوس کرتا ہوں مگر حضورؑ نے کبھی بات سننے میں بے پروائی کا اظہار نہیں کیا اور کبھی نہیں فرمایا کہ بس کرو، مجھے کوئی اَور کام ہے۔
حضرت سید عزیزالرحمن صاحب ؓ نے فرمایا کہ ہر شخص خیال کرتا کہ حضورؑ مجھ سے زیادہ محبت کرتے ہیں۔ اور حضورؑ کا پگڑی باندھنا اور پگڑی کے پیچ مجھے بہت ہی بھاتے۔
حضرت مولوی عبیداللہ صاحب بقاپوریؓ نے بیان فرمایا کہ حضورؑ کا میری پیٹھ پر اپنا دست مبارک پھیرنا مَیں کبھی نہیں بھول سکتا، ایک مقناطیسی قوت تھی جو بجلی کی رَو کی طرح تمام بدن میں دوڑ گئی۔
حضرت بابو محمد سعیدصاحبؓ ارشد نے فرمایا کہ طاعون کے زمانہ میں آدمیوں کی ہلاکت اور احمدیوں کی حفاظت کے نشان کی شوکت، جلال اور رعب کا مجھ پر آج بھی گہرا اثر ہے۔
حضرت حبیب احمد صاحبؓ کاتب نے بیان کیا کہ وہ لاریب سلطان القلم تھا، مجھے اُس کی گردش قلم نے موہ لیا۔
حضرت مولانا عبدالرحیم صاحب نیرؓ نے فرمایا کہ مَیں تو حضورؑ کی نگاہ کا کشتہ ہوں۔ مَیں جب پہلی بار قادیان آیا تو پوربی زبان میں ایک نظم کہی جس کا ایک مصرعہ تھا:
اے گوپال! ہماری طرف بھی ایک نظر فرما
حضورؑ نے یہ سن کر آنکھ اٹھاکر میری طرف دیکھا۔ اس نظر کا جادو مجھ پر ایسا ہوا کہ مَیں اس کا نقشہ کھینچ نہیں سکتا۔… خدا کی قسم! اس نظر کے بعد اس سے بہتر اور خوبصورت نظر آج تک نظر نہ آئی۔
حضرت حافظ غلام رسول صاحبؓ وزیرآبادی نے بیان فرمایا کہ مخالفین نے میرا مکان مجھ سے چھین لیا تو مَیں نے حضورؑ سے شکوہ کیا۔ آپؑ نے فرمایا کہ لوگ ختنوں اور شادیوں پر مکانات فروخت کر دیتے ہیں، آپ کا مکان خدا کیلئے جاتا ہے تو جانے دو۔ اس دن سے میرے دل میں سے مکانوں وغیرہ کی محبت جاتی رہی۔ ہاں خدا نے پھر اپنے فضل سے مجھے سب کچھ دیدیا جو مَیں انعام سمجھتا ہوں۔
حضرت مرزا ارشد بیگ صاحبؓ حضورؑ کی آنکھوں کے متوالے تھے۔ جو حیا اور لطف اُن آنکھوں میں دیکھا وہ کسی کی آنکھوں میں نہ دیکھا۔
حضرت اللہ دین صاحبؓ (فلاسفر) نے فرمایا کہ مَیں حیران ہوں کہ حضورؑ کی کس ادا کو پیاری کہوں اور کس کو نہ کہوں۔