حضرت مسیح موعودؑ کے اخلاق فاضلہ
ماہنامہ ’’خالد‘‘ اپریل 2009ء میں لباس کے حوالہ سے حضرت مسیح موعودؑ کے اخلاق فاضلہ سے متعلق حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحبؓ کا ایک مضمون شامل اشاعت ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو دیکھ کر کوئی یہ نہیں کہہ سکتا تھا کہ اس شخص کی زندگی میں یا لباس میں کسی قسم کا بھی تصنّع ہے یا زینت کا دلدادہ ہے۔ ہاں آپؑ صاف اور ستھری چیز ہمیشہ پسند فرماتے اور گندی اور میلی چیز سے سخت نفرت رکھتے۔ ہر روز کپڑے نہ بدلتے لیکن اُن کی صفائی میں فرق آنے لگتا تب بدلتے تھے۔
جرابیں آپؑ سردیوں میں استعمال فرماتے اور اُن پر مسح فرماتے۔ بعض اوقات زیادہ سردی میں دو دو جرابیں اوپر تلے چڑھالیتے۔ اگر جراب کہیں سے کچھ پھٹ جاتی تو بھی مسح جائز رکھتے بلکہ فرماتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب ایسے موزوں پر بھی مسح کرلیا کرتے تھے جن میں سے اُن کی انگلیوں کے پوٹے باہر نکلے رہا کرتے۔
جوتی آپؑ کی دیسی ہوتی خواہ کسی وضع کی ہو مگر ایسی جو کھلی کھلی ہو۔ انگریزی بوٹ کبھی نہیں پہنا، گرگابی حضرت صاحب کو پہنے مَیں نے نہیں دیکھا۔ جوتی اگر تنگ ہوتی تو اُس کی ایڑی بٹھالیتے مگر ایسی جوتی کے ساتھ باہر تشریف نہیں لے جاتے تھے۔ عصا آپؑ ضرور رکھتے تھے اور موٹی اور مضبوط لکڑی کو پسند فرماتے مگر کبھی اُس پر سہارا یا بوجھ دے کر نہ چلتے تھے۔
موسم سرما میں ایک دھسّہ لے کر آپؑ مسجد میں نماز کے لئے تشریف لایا کرتے تھے۔ جو اکثر آپؑ کے کندھے پر پڑا ہوا ہوتا تھا۔ اور اُسے اپنے آگے ڈال لیا کرتے تھے۔ جب تشریف رکھتے تو پیروں پر ڈال لیتے۔ سر پر کبھی نہیں اوڑھتے تھے بلکہ کندھوں اور گردن تک رہتی۔ گلوبند اور دستانوں کی عادت نہ تھی۔
تحریر وغیرہ کا سب کام پلنگ پر ہی اکثر فرمایا کرتے اور دوات، قلم، بستہ اور کتابیں یہ سب چیزیں پلنگ پر موجود رہا کرتی تھیں۔ یہی جگہ میز کرسی اور لائبریری سب کا کام دیتی تھی اور مَا اَنَا مِنَ المُتَکَلِّفِیْنَ کا عملی نظارہ خوب واضح طور پر نظر آتا تھا۔
آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سنّت کے مطابق حضور علیہ السلام بھی بہت ہی کم خور تھے اور بمقابلہ اس کام اور محنت کے جس میں حضورؑ دن رات لگے رہتے تھے اکثر حضورؑ کی غذا دیکھی جاتی تو بعض اوقات حیرانی سے بے اختیار لوگ یہ کہہ اٹھتے تھے کہ اتنی خوراک پر یہ شخص زندہ کیونکر رہ سکتا ہے۔ عام طور پر دن میں دو وقت مگر جب طبیعت خراب ہوتی تو دن بھر میں ایک ہی دفعہ کھانا نوش فرمایا کرتے تھے۔
مدّتوں آپؑ باہر مہمانوں کے ہمراہ کھانا کھایا کرتے تھے اور خاص مہمان آپؑ کے ہمراہ دسترخوان پر بیٹھا کرتے تھے۔ یہ عام طور پر وہ لوگ ہوا کرتے تھے جن کو حضرت صاحب نامزد کردیا کرتے تھے۔ ان کی تعداد دس سے بیس پچیس تک ہوجایا کرتی تھی۔ دن کا کھانا دس بجے سے ظہر کی اذان تک اور شام کا کھانا مغرب اور عشاء کے درمیان کھایا کرتے تھے سوائے اس کے کہ مغرب اور عشاء جمع ہوں تو عشاء کی نماز کے بعد کھاتے۔ جب کھانا آگے رکھا جاتا تو آپؑ اگر مجلس میں ہوتے تو یہ پوچھ لیا کرتے: ’’کیوں جی شروع کریں؟‘‘۔ پھر جواب ملنے پر کھانا شروع کرتے اور نہایت آہستہ آہستہ چبا چباکر کھاتے۔ کھانے میں کوئی جلدی نہ کرتے۔ کھانے کے دوران ہر قسم کی گفتگو فرمایا کرتے۔ سالن بہت کم کھاتے۔ ایک سے زیادہ چیزیں سامنے ہوں تو صرف ایک ہی پر ہاتھ ڈالا کرتے۔ بوٹیاں یا ترکاری کھانے کی عادت نہ تھی بلکہ لعاب سے اکثر چھوکر ٹکڑا کھالیا کرتے تھے۔ لقمہ چھوٹا ہوتاتھا اور روٹی کے بہت سے ٹکڑے آپؑ کرلیا کرتے تھے۔ دسترخوان سے اٹھنے کے بعد لوگ بطور تبرک اِن ٹکڑوں کو اٹھالیا کرتے تھے۔
آپؑ کو اپنے کھانے کی نسبت اپنے مہمانوں کے کھانے کا زیادہ فکر رہتا تھا اور اکثر دریافت فرماتے کہ فلاں مہمان کو کیا کیا پسند ہے اور کس کس چیز کی اس کو عادت ہے۔ چنانچہ مولوی محمد علی صاحب کا جب تک نکاح نہیں ہوا تب تک آپؑ کو ان کی خاطرداری کا اس قدر اہتمام تھا کہ روزانہ خود اپنی نگرانی میں اُن کے لئے دودھ، چائے، بسکٹ، مٹھائی، انڈے وغیرہ برابر صبح کے وقت بھیجا کرتے اور پھر لے جانے والے سے دریافت بھی کرلیتے تھے کہ انہوں نے اچھی طرح سے کھا بھی لیا؟ اسی طرح خواجہ صاحب کا بڑا خیال رکھتے اور بار بار دریافت فرمایا کرتے کہ کوئی مہمان بھوکا تو نہیں رہ گیا یا کسی کی طرف سے ملازمان لنگرخانہ نے تغافل تو نہیں کیا۔ بعض دفعہ کسی مہمان کے لئے سالن نہیں بچا تو اپنا سالن یا سب کھانا اُس کے لئے اٹھواکر بھجوادیا۔
آپؑ کو کوئی عادت کسی چیز کی نہ تھی۔ پان البتہ کبھی کبھی استعمال فرمالیا کرتے تھے۔ حقہ تمباکو کو ناپسند فرمایا کرتے تھے بلکہ ایک موقعہ پر کچھ حقہ نوشوں کو نکال بھی دیا تھا۔ البتہ جن ضعیف العمر لوگوں کو مدّت العمر سے عادت لگی ہوئی تھی ان کو آپؑ نے بسبب مجبوری کے اجازت دیدی تھی۔
آپؑ نے اوائل عمر میں گوشۂ تنہائی میں بہت مجاہدات کئے اور ایک موقعہ پر متواتر چھ ماہ کے روزے منشاء الٰہی سے رکھے اور خوراک آپؑ کی صرف نصف روٹی یا اس سے بھی کم، روزہ افطار کرنے کے بعد ہوتی تھی اور سحری بھی نہ کھاتے تھے۔ گھر سے آنے والا کھانا کسی مسکین کو دیدیا کرتے تھے۔ مگر اپنی جماعت کے لئے عام طور پر آپؑ نے ایسے مجاہدے پسند نہیں فرمائے بلکہ اس کی جگہ تبلیغ اور قلمی خدمات کو مخالفان اسلام کے برخلاف اس زمانہ کا جہاد قرار دیا۔