حضرت مسیح موعودؑ کے اصحابؓ کا ذوقِ عبادت

ماہنامہ ’’خالد‘‘ ربوہ دسمبر 2001ء میں شامل اشاعت ایک مضمون میں مکرم سہیل ثاقب بسرا صاحب نے حضرت مسیح موعودؑ کے اصحابؓ کے ذوقِ عبادت کا نقشہ کھینچا ہے۔
حضرت میر ناصر نواب صاحبؓ کے لئے آخری عمر میں چلنا پھرنا بھی مشکل ہوگیا تھا لیکن آپؓ نماز باجماعت کے اس قدر پابند تھے کہ دارالعلوم سے پیدل چل کر مسجد مبارک آتے لیکن نماز باجماعت میں کبھی ناغہ نہ کرتے۔
حضرت مسیح موعودؑ اپنے ایک خادم حضرت حافظ حامد علی صاحبؓ کے التزام نماز کے بارہ میں فرماتے ہیں: ’’مَیں نے اس کو دیکھا ہے کہ ایسی بیماری میں جو نہایت شدید اور مرض الموت معلوم ہوتی تھی اور ضعف اور لاغری سے میت کی طرح ہوگیا تھا، التزام ادائے نماز پنجگانہ میں ایسا سرگرم تھا کہ اس بیہوشی اور نازک حالت میں جس طرح بن پڑے نماز پڑھ لیتا تھا۔ مَیں جانتا ہوں کہ انسان کی خداترسی کا اندازہ کرنے کے لئے اس کے التزام نماز کو دیکھنا کافی ہے کہ کس قدر ہے اور مجھے یقین ہے کہ جو شخص پورے پورے اہتمام سے نمازیں اداکرتا ہے اور خوف اور بیماری اور فتنہ کی حالتیں اس کو نماز سے روک نہیں سکتیں، وہ بے شک خدا تعالیٰ پر ایک سچا ایمان رکھتا ہے‘‘۔ (ازالہ اوہام۔ روحانی خزائن جلد3۔ صفحہ 540)
حضرت خلیفۃالمسیح الرابع ایدہ اللہ تعالیٰ نے حضرت نواب محمد عبداللہ خانصاحبؓ کے بارہ میں فرمایا: ’’نماز کے عاشق تھے، خصوصاً نماز باجماعت کے قیام کیلئے آپ کا جذبہ اور جدوجہد امتیازی شان کے حامل تھے۔ بڑی باقاعدگی سے پانچ وقت مسجد میں جانے والے۔ جب دل کی بیماری سے صاحب فراش ہوگئے تو اذان کی آواز کو ہی اس محبت سے سنتے تھے، جیسے محبت کرنے والے اپنے محبوب کی آواز کو۔ جب ذرا چلنے پھرنے کی سکت پیدا ہوئی تو بسااوقات گھر کے لڑکوں میں سے ہی کسی کو پکڑ کر آگے کرلیتے اور نماز باجماعت ادا کرنے کے جذبہ کی تسکین کرلیتے‘‘۔
حضرت مولوی شیر علی صاحبؓ کے بارہ میں حضرت شیخ فضل احمد صاحب بٹالویؓ لکھتے ہیں کہ ایک دفعہ مجھے مولوی صاحبؓ کی رفاقت میں نماز کے لئے مسجد مبارک میں جانے کا موقع ملا۔ جب ہم وہاں پہنچے تو نماز ختم ہوچکی تھی۔ چنانچہ آپ مجھے اپنے ہمراہ لئے مسجد اقصیٰ تشریف لے گئے لیکن وہاں بھی اتفاق سے نماز ختم ہوچکی تھی۔ اب آپؓ مجھے ساتھ لے کر مسجد فضل کی طرف چل پڑے۔ وہاں نماز کھڑی تھی چنانچہ ہم نے نماز باجماعت ادا کی۔
حضرت ماسٹر فقیراللہ صاحبؓ بیان کرتے ہیں کہ حضرت مسیح موعودؑ کے زمانہ میں مجھے اکثر یہ دیکھنے کا اتفاق ہوا کہ حضرت مولوی شیر علی صاحبؓ نماز عشاء کے بعد کافی دیر تک نوافل میں انہماک اور توجہ کے ساتھ مشغول رہتے۔ بہت لمبا سجدہ کرتے اور نماز کو کافی طول دینے کی وجہ سے اکثر بھول جاتے کہ دو رکعات پڑھ چکے ہیں یا ایک۔
محترم مولوی محمد شریف صاحب بیان کرتے ہیں کہ حضرت سید محمد سرور شاہ صاحبؓ پانچوں نمازیں مسجد مبارک میں ادا فرماتے تھے۔ بارش ہو یا آندھی ہو، اندھیری رات ہو، سخت دھوپ ہو، جلسہ ہو جلوس ہو، مشاعرہ ہو، مناظرہ ہو، عام تعطیل ہو یا خاص، آپ نماز کھڑی ہونے سے بہت پہلے اپنے مقررہ وقت پر اپنی مقررہ جگہ پر موجود ہوتے تھے۔ آپؓ کی نمازوں کے خشوع و خضوع کو وہی لوگ اچھی طرح سمجھ سکتے ہیں جو اس کوچۂ یار ازل سے کچھ آشنائی رکھتے ہوں۔
مکرم مولوی سلیم اللہ صاحب بیان کرتے ہیں کہ حضرت مولانا سید سرور شاہ صاحبؓ کی صاحبزادی حلیمہ بیگم نزع کی حالت میں تھیں کہ اذان ہوگئی۔ آپؓ نے بچی کا ماتھا چوما اور سر پر ہاتھ پھیرا اور سپرد خدا کرکے مسجد چلے گئے۔ نماز کے بعد جلدی سے اٹھ کر واپس آنے لگے تو کسی نے اس جلدی کی وجہ پوچھی تو فرمایا کہ نزع کی حالت میں بچی کو چھوڑ کر آیا تھا، اب فوت ہوچکی ہوگی۔ اُس کے کفن دفن کا انتظام کرنا ہے۔ چنانچہ دوسرے دوست بھی گھر تک آئے تو بچی وفات پاچکی تھی۔
حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب ؓ قادیانی قبولِ احمدیت سے قبل ہندو تھے۔ جب اسلام قبول کرلیا تو آپؓ کے والد دھوکہ دے کر آپؓ کو قادیان سے گھر لے گئے اور وہاں سختیوں کی انتہا کردی۔ نماز سے بھی روکا گیا۔ ایسے میں بعض اوقات آپؓ کوکئی کئی نمازیں ملاکر پڑھنا پڑھتیں یا اشاروں میں نماز ادا کرنا پڑتی۔ کبھی کسی بہانہ سے کھیتوں میں جاتے اور نماز ادا کرتے۔
حضرت چودھری محمد ظفراللہ خان صاحبؓ بیان فرماتے ہیں کہ نماز اور استغفار میری والدہ حضرت حسین بی بی صاحبہؓ کی غذا تھی۔ جن دنوں سحری کے وقت جسمانی تکلیف کے باعث اٹھنے سے قاصر رہتیں تو اس کی کمی نماز چاشت کے نوافل سے پوری کرنے کی کوشش فرماتیں۔
حضرت منشی امام الدین صاحبؓ کا گاؤں بٹالہ سے چار میل کے فاصلہ پر تھا۔ آپؓ اور آپکی بیوی ہر جمعہ کے روز صبح گاؤں سے پیدل چلتے۔ نماز جمعہ باقاعدگی سے قادیان میں اداکرتے اور شام تک واپس اپنے گھر پہنچ جاتے۔
حضرت حافظ معین الدین صاحبؓ کو ایک لمبا عرصہ حضرت مسیح موعودؑ کی صحبت میں رہنے کی توفیق ملی۔ آپ ؓ، نابینا ہونے کے باوجود، سب سے پہلے مسجد پہنچتے، اذان کہتے اور پھر ایسی جگہ پہلی صف میں کھڑے ہوتے کہ حضرت صاحبؑ کے ساتھ ہی جگہ ہو۔ ٹھیک وقت پر مسجد کی طرف آنے سے اُن کا وجود دوسروں کے لئے ایک خطا نہ کرنے والی گھڑی جیسا تھا۔ نماز کی باجماعت پابندی کے علاوہ نوافل اور تہجد بھی التزام سے پڑھتے تھے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں