حضرت مسیح موعودؑ کے مخالفین کا انجام

ماہنامہ ’’احمدیہ گزٹ‘‘ کینیڈا کے جنوری، فروری اور مارچ 2011ء کے شماروں میں حضرت مسیح موعودؑ کے بعض مخالفین کے عبرتناک انجام کا تذکرہ مکرم مولانا فضل الٰہی انوری صاحب کے قلم سے شامل اشاعت ہے۔ بعض مخالفین جن کا تذکرہ قبل ازیں ’’الفضل ڈائجسٹ‘‘ میں شائع نہیں ہوا تھا، وہ ذیل میں ہدیۂ قارئین ہے:

مولوی محمد حسین بٹالوی کا انجام
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا پہلا مخالف جو آپؑ کے دعویٔ ماموریت کے ساتھ ہی مخالفت میں کھڑا ہوگیا اور جس نے آپؑ کے سلسلہ کو مٹانے کے لئے سردھڑ کی بازی لگادی وہ بٹالہ کا رہنے والا مولوی محمد حسین تھا۔ اس نے آپؑ کے خلاف کفر کا فتویٰ تیار کرکے پہلے اس پر مولوی نذیر حسین دہلوی کے تصدیقی دستخط کروائے اور پھر سارے ملک میں پھر کر اُس فتویٰ پر دو صد علماء کی گواہیاں حاصل کیں اور اسے اخبار میں نشر کیا جس کے نتیجہ میں حضورؑ کے خلاف سارے ملک میں مخالفت کی آگ بھڑک اُٹھی۔ اس فتویٰ سے متعلق حضور علیہ السلام فرماتے ہیں: ’’اس ظالم نے بھی وہ فتنہ برپا کیا کہ جس کی اسلامی تاریخ میں گزشتہ علماء کی زندگی میں کوئی نظیر ملنی مشکل ہے۔… ایسا طوفان فتنہ کا اٹھا کہ گویا ایک زلزلہ آیا جس سے آج تک ہزاروں خدا کے نیک بندے اور دین اسلام کے عالم اور فاضل اور متقی، کافر اور جہنم ابدی کے سزاوار سمجھے جاتے ہیں‘‘۔
مولوی محمد حسین نے عیسائی پادری ڈاکٹر ہنری مارٹن کلارک کے حضورعلیہ السلام کے خلاف قتل عمد کے جھوٹے دعویٰ کی تصدیق میں عدالت میں بیان بھی دیا اور پھر ڈپٹی انسپکٹر محمد بخش کی طرف سے حضورؑ پر بنائے جانے والے مقدمہ کے وقت بھی اُس نے عدالت میں حضورؑ کی ایسی تحریریں پیش کیں جن سے ثابت ہو کہ یہ تحریریں امن عامہ کے لئے خطرہ ہیں۔ اگرچہ عدالت نے ہر دو موقع پر اُس کی گواہی ردّی کی ٹوکری میں پھینک دی بلکہ اُلٹا اس سے اس بات پر دستخط کروائے کہ وہ آئندہ حضورؑ کے بارہ میں خلافِ تہذیب کوئی بات نہیں لکھے گا اور اس طرح اس نے اپنے ہی فتویٰ کو واپس لے لیا جس میں آپؑ کو کافر، دجّال اور کذّاب کہا گیا تھا۔
مولوی محمد حسین نے بٹالہ آنے والی ہر گاڑی کی آمد کے وقت ریلوے سٹیشن پر پہنچ کر اُن لوگوں کو بہکانا اپنا وطیرہ بنالیا تھا جو حضور علیہ السلام کے دعویٰ کی تحقیق کے لئے قادیان جانا چاہتے تھے۔ لیکن نتیجہ یہ نکلا کہ حضورؑ کا سلسلہ تو بدستور ترقی کرتا چلا گیا جبکہ مولوی محمد حسین کی اپنی اولاد بھی اُسے چھوڑ گئی۔ چنانچہ مولوی صاحب نے اپنے رسالہ ’’اشاعۃالسنۃ‘‘ میں لکھا کہ ’’میرے لڑکوں کی سفاہت، درجہ فسق کو کامل کرکے درجہ کفر تک پہنچ گئی ہے اور تحصیل علوم دینی سے ان کے انکار اور فسق و فجور پر سالہا سال سے اُن کے اصرار کرنے سے کوئی صورت اُن کی رشد و ہدایت کی نظر نہیں آتی‘‘۔ اسی حوالہ سے مزید لکھتے ہیں کہ ’’ان سب میں سے اوّل درجہ کا متکبّر اور میری اطاعت سے سرکش نمبر اوّل عبدالسلام ہے۔ اور سب سے بڑھ کر بدچلنی اختیار کرنے والا اور مجھے جانی و مالی ایذا دینے والا نمبر چہارم و پنجم ہے۔… بعض ایسے بھی ہیں جو قانونی جرائم کے مرتکب ہوچکے ہیں اور ان کے مقدمات کی مثلیں عدالت میں موجود ہیں۔ اور بعض میری جان کو نقصان پہنچانے کا ارادہ بھی ظاہر کرچکے ہیں۔‘‘
اسی طرح اپنی لڑکیوں کے بارہ میں لکھتے ہیں: ’’پانچ بلکہ سات لڑکوں کے علاوہ میری تین جوان لڑکیاں صاحب ِ اولاد ہیں۔ یہ جب تک صغیر سن رہیں، میری اطاعت میں رہیں اور جب جوان ہوئیں اور ان کی شادی ہوگئی تو تینوں بحکم اپنے شوہروں کے جو میرے مخالف ہیں، میری اطاعت سے فارغ ہوگئیں‘‘۔
حضرت اقدس علیہ السلام نے اسی قسم کے بدقسمت مخالفین کی نسبت فرمایا ہے:

اے پئے تکفیر ما بستہ کمر
خانہ اَت ویراں تو در فکرے دگر

یعنی اے بدقسمت انسان جو میری تکفیر پر کمربستہ ہے۔ تیرا اپنا گھر ویران ہوگیا ہے اور تجھے دوسروں کی فکر پڑی ہوئی ہے۔
—————————
مجسٹریٹ لالہ چندولال کا انجام
لیکھرام کی ہلاکت کی پیشگوئی پوری ہوئی تو آریہ قوم نے دل سے اس نشان کی عظمت محسوس کی۔ اس لئے وہ اس کیس کو عدالت میں تو نہ لے گئے مگر اپنی اس خفّت کابدلہ لینے کے لئے جذبۂ انتقام سے بھر گئے۔ چنانچہ جب مولوی کرم دین جہلمی نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خلاف ازالۂ حیثیت عرفی کا مقدمہ بنایا تو دو آریہ مجسٹریٹوں نے آپؑ کے خلاف اپنے بغض و کینہ کا ہر طرح سے اظہار کیا اور دونوں خدا کی قہری تجلّیات کا نشانہ بنے۔ ان میں سے پہلا ضلع گورداسپور کا مجسٹریٹ لالہ چندولال تھا جس کا رویّہ شروع سے ہی اس قدر متعصّبانہ تھا کہ حضورؑ کے وکلاء کو ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کے پاس انتقالِ مقدمہ کی درخواست دینی پڑی۔ یہ درخواست ردّ ہوئی تو چیف کورٹ میں اپیل کی گئی لیکن وہاں بھی درخواست مسترد ہوگئی اور مقدمہ بدستور لالہ چندولال کے پاس ہی رہا۔ اس دوران گورداسپور کے آریوں نے لالہ چندولال سے مل کر ایک مکروہ منصوبہ تیار کیا اور حضورؑ کے متعلق اُسے کہا کہ یہ شخص لیکھرام کا قاتل ہے اور اب وہ تمہارے ہاتھ کا شکار ہے اور ساری قوم کی نظر تم پر ہے۔ لالہ چندولال نے بھی اُن سے وعدہ کرلیا کہ وہ پہلی پیشی پر ہی عدالتی کارروائی عمل میں لے آئے گا یعنی اپنا اختیار استعمال کرتے ہوئے ملزم کو بغیر ضمانت قبول کئے گرفتار کرلے گا۔ اس ناپاک سازش کی اطلاع کسی طرح حضورعلیہ السلام کے مخلص مرید حضرت محمد اسماعیل خان صاحبؓ کو بھی ہوگئی جنہوں نے حضرت مولوی سیّد سرور شاہ صاحب سے یہ ذکر کردیا۔ حضرت مولوی صاحبؓ نے یہ ساری روئیداد خدمت اقدسؑ میں سنائی۔ آپؑ اُس وقت لیٹے ہوئے تھے۔ جونہی آپؑ نے اپنے بارہ میں آریوں کی طرف سے کہا گیا لفظ شکار سُنا تو آپؑ اُٹھ کر بیٹھ گئے اور چہرۂ مبارک سُرخ ہوگیا۔ اور بلند آواز میں فرمایا: ’’مَیں اُس کا شکار ہوں؟ مَیں شکار نہیں ہوں۔ مَیں شیر ہوں اور شیر بھی خدا کا شیر۔ وہ خدا کے شیر پر ہاتھ ڈال کر تو دیکھے!‘‘۔ حضورؑ نے ’’خدا کا شیر‘‘ کے الفاظ کئی بار دہرائے۔ پھر یہ خاص کیفیت جاتی رہی تو آپؑ نے فرمایا: ’’مَیں کیا کروں؟ مَیں نے تو خدا کے سامنے پیش کیا ہے کہ مَیں تیرے دین کی خاطر اپنے ہاتھ اور پاؤں میں لوہا پہننے کو تیار ہوں مگر وہ کہتا ہے کہ نہیں، مَیں تجھے ذلّت سے بچاؤں گا اور عزّت کے ساتھ بری کروں گا۔‘‘
چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اپنے مامور کو امکانی ذلّت سے بچانے کی یہ تدبیر فرمائی کہ اس مجلس کے کچھ دیر بعد آپؑ کو اچانک خون کی قَے ہوئی۔ اس پر مقامی ہسپتال کے سول سرجن (انگریز) ڈاکٹر ایس پی مور نے معائنہ کرنے کے بعد کہا کہ اس عمر میں خون کی قَے آنا خطرناک ہے اور سرٹیفیکیٹ دیا کہ آپؑ ایک ماہ کے لئے کچہری میں پیش ہونے کے قابل نہیں۔ اس کے بعد حضورؑ پیشی سے قبل ہی قادیان روانہ ہوگئے۔ اگلے روز مجسٹریٹ نے ڈاکٹری سرٹیفکیٹ دیکھا تو سٹپٹاکر رہ گیا اور عدالتی کارروائی مؤخر کرنے پر مجبور ہوگیا۔ بعد میں اُسی سِول سرجن نے قادیان جاکر بھی حضورؑ کا معائنہ کیا اور آپؑ کی عمومی حالت کے پیش نظر مزید چھ ہفتہ کے لئے آرام کی ہدایت کی اور اتنے عرصہ کے لئے سفر کے ناقابل ہونے کا سرٹیفکیٹ بھی دے دیا۔
اللہ تعالیٰ نے ایک طرف اپنے مامور کو ہر ذلّت سے بچانے کی بشارتیں دیں تو دوسری طرف بھی اپنا جلالی ہاتھ دکھانا شروع کردیا۔ چنانچہ دورانِ مقدمہ چند غیرازجماعت معززّین نے جب آپؑ کی خدمت میں ازراہ ہمدردی کہا کہ چندولال کا ارادہ آپؑ کو قید کرنے کا معلوم ہوتا ہے تو آپ ؑ نے فرمایا: ’’مَیں تو چندولال کو عدالت کی کرسی پر نہیں دیکھتا‘‘۔
اس کی تقریب یوں پیدا ہوئی کہ گورداسپور جیل میں کسی مجرم کو پھانسی لگنی تھی۔ ڈپٹی کمشنر کی طرف سے چندولال کی ڈیوٹی اس موقع پر لگائی گئی تو اُس نے عذر کیا کہ وہ اتنا رقیق القلب ہے کہ کسی مجرم کو پھانسی لگتے نہیں دیکھ سکتا۔ اس پر یہ ڈیوٹی کسی دوسرے مجسٹریٹ کے سپرد کردی گئی اور ڈپٹی کمشنر نے چندولال کے بارہ میں حکّام بالا کو رپورٹ بھجوائی کہ یہ اس قابل نہیں کہ اسے فوجداری اختیارات تفویض کئے جائیں۔ چنانچہ چندولال اکسٹرا اسسٹنٹ کمشنر کے عہدہ سے معزول ہوکر عام جج بناکر ملتان بھجوادیا گیا۔ بعد میں وہ اسی صدمہ کی وجہ سے پاگل ہوگیا اور اسی حالت میں راہی ملک عدم ہوا۔
—————–
مہتہ آتمارام کا انجام
لالہ چندولال کی جگہ آنے والے آریہ مجسٹریٹ مہتہ آتمارام نے بھی آتے ہی اوچھے ہتھیار استعمال کرنے شروع کردیئے۔ پہلے اُس نے حضورؑ کو کرسی دینے سے انکار کیا بلکہ بعض اوقات شدید پیاس کے باوجود بھی آپؑ کو پانی پینے کی اجازت نہ دی۔ پھر سماعت کی تاریخیں اتنی قریب قریب دینی شروع کردیں کہ حضورؑ کو وسط اگست 1904ء سے تا اختتام مقدمہ گورداسپور میں ہی قیام کرنا پڑا۔ علاوہ ازیں اُس نے عدالت کا ایک افسوسناک مظاہرہ یوں کیا کہ حضرت اقدس علیہ السلام کے حق میں جانے والی ایک فیصلہ کُن شہادت کو طلب کرنے سے بھی انکار کردیا۔
بالآخر مہتہ آتمارام نے 8؍اکتوبر 1905ء کے دن کا آخری وقت فیصلہ سنانے کے لئے مقرر کیا۔ یہ ہفتہ کا آخری دن تھا اور اگلے روز چھٹی تھی۔ اُس کا ارادہ تھا کہ آپؑ کو جرمانہ کی سزا سنائے اور چونکہ فوری طور پر ادائیگی ممکن نہیں ہوسکے گی اس لئے عدم ادائیگی جرمانہ کی صورت میں وہ حضورؑ کو کم از کم دو راتیں اور ایک دن قید میں رکھ سکے گا۔ اسی لئے اُس نے فیصلہ سنانے والے دن پولیس کا اچھا خاصہ انتظام کررکھا تھا اور سپاہی کمرۂ عدالت کے اندر بھی متعین تھے۔ مگر اُس کی یہ ساری تدبیر اس طرح خاک میں مل گئی کہ جرمانہ کی رقم مبلغ سات صد روپے صرف ایک دن پہلے حضرت نواب محمد علی خان صاحبؓ نے احتیاطاً بھجوادیئے تھے جنہیں حضورؑ کے وکیل خواجہ کمال الدین صاحب نے اُسی وقت گن کر عدالت کی میز پر رکھ دیا۔ نوٹ دیکھ کر آتمارام کا رنگ فق ہوگیا اور وہ کھسیانوں کی طرح نوٹوں کو اُلٹنے پلٹنے لگا۔ پھر اچانک بولا کہ ان نوٹوں پر تو کراچی اور مدراس لکھا ہے اس لئے یہ قابل قبول نہیں۔ خواجہ صاحب اُس کی نیت بھانپ گئے اور کہا کہ آپ لکھ دیں کہ سات سو روپے کے کرنسی نوٹ پیش کئے گئے مگر اِس وجہ سے عدالت نے قبول نہیں کئے۔
آتمارام کو علم تھا کہ اُس کا یہ حربہ کارگر نہیں ہوسکے گا کیونکہ حکومت اپنی عملداری کی حدود میں اپنے نوٹوں کا انکار نہ کرسکتی تھی۔ چنانچہ چاروناچار اُسے وہ نوٹ قبول کرنے پڑے اور اُس کا منصوبہ خاک میں مل گیا۔
آتمارام کے فیصلہ کے خلاف امرتسر کی سیشن کورٹ میں اپیل داخل کی گئی جس پر عدالت عالیہ نے ماتحت عدالت کی طرف سے عائد کردہ تمام الزامات کالعدم کرکے جرمانہ کی تمام رقم واپس کئے جانے کا حکم صادر کیا۔ تاہم آتمارام کو اپنے کئے کی سزا مل گئی۔
جن دنوں وہ اپنا فیصلہ لکھنے والا تھا، اُن دنوں حضور علیہ السلام کو کشفاً دکھایا گیا تھا کہ اُس کی اولاد پر کوئی آفت آنے والی ہے۔ چنانچہ آپؑ نے دیکھا کہ ایک شیر آیا ہے اور وہ آتمارام کے دو لڑکے اٹھاکر لے گیا ہے۔ خدا کی قہری تقدیر یوں ظاہر ہوئی کہ اُس کے دو نوںجوان بیٹے (اُس کے فیصلہ سنائے جانے سے قبل ہی) یکے بعد دیگرے طاعون سے ہلاک ہوگئے۔ چنانچہ حضورؑ نے اس مقدمہ کے ضمن میں ایک جگہ رقم فرمایا کہ ’’ڈویژنل جج کی عدالت سے عزت کے ساتھ مَیں بری کیا گیا اور میرا جرمانہ واپس ہوا مگر آتمارام کے دو بیٹے واپس نہ آئے۔‘‘
حضورؑ نے مزید فرمایا کہ ’’افسوس کہ میرے مخالفوں کو باوجود اس قدر متواتر نامرادیوں کے میری نسبت کسی وقت محسوس نہ ہوا کہ اس شخص کے ساتھ درپردہ ایک ہاتھ ہے جو اُن کے ہر حملے سے اس کو بچاتا ہے۔‘‘
کئی سال بعد جب ایک دفعہ حضرت مصلح موعودؓ دہلی تشریف لے جارہے تھے تو آپؓ کو لدھیانہ ریلوے سٹیشن پر آتمارام ملا اور بڑے الحاح سے کہنے لگا کہ دعا کریں کہ اللہ مجھے صبر کی توفیق دے، مجھ سے بڑی بڑی غلطیاں ہوئی ہیں اور میری حالت ایسی ہے کہ مَیں ڈرتا ہوں کہ مَیں کہیں پاگل نہ ہوجاؤں۔ نیز اب میرا ایک اَور بیٹا ہے۔ دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ اُسے اور مجھے دونوں کو تباہی سے بچائے۔
——————–
مولوی کرم الدین عتاب الٰہی کی زد میں
مولوی کرم الدین ساکن بھیں ضلع جہلم نے جھوٹ اور مکروہ حرکتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں قریباً چار سال تک ایک زلزلہ برپا کئے رکھا۔ اس کا پس منظر یہ ہے کہ حضور علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے اذن پاکر اور اس کی دی ہوئی اعجازی طاقت کی برکت سے ’’اعجاز المسیح‘‘ کے نام سے سورۃ الفاتحہ کی فصیح و بلیغ عربی تفسیر لکھ کر علماء کو چیلنج دیا کہ اگر ان میں طاقت ہے تووہ بھی اس کے مقابل پر عربی میں سورۃ الفاتحہ کی تفسیر لکھیں۔ اس پر مدرسہ نعمانیہ (واقع شاہی مسجد لاہور) کے ایک مدرس مولوی محمد حسن فیضی نے اشتہار شائع کیا کہ وہ اس کا جواب لکھنے والا ہے۔ مگر خدا کی جلالی قدرت کاکرشمہ دیکھیں کہ ابھی اس نے اس کتاب ’’اعجازالمسیح‘‘ کے حواشی پر کچھ نوٹ ہی لکھے تھے اور ایک جگہ اس نے لَعْنَۃُ اللّٰہِ عَلَی الْکَاذِبِیْن کے الفاظ بھی لکھ دئے کہ خدا کے غضب کی لاٹھی اس پر چل گئی اور وہ دو ہفتوں کے اندر کسی نامعلوم بیماری کا شکار ہو کر مرگیا۔
اس کے مرنے کے بعد گولڑہ (ضلع راولپنڈی) کے ایک گدی نشین پیر مہر علی شاہ نے (جو اس سے قبل حضورؑ کے مقابل پر اپنی فضیلت علمی کی شیخی بھگار چکا تھا) مولوی محمد حسن فیضی کے والد سے وہ کتاب (اعجاز المسیح) منگوائی اور اس کے حاشیوں پر لکھے ہوئے فیضی کے نوٹس پر تھوڑا بہت اضافہ کر کے اپنی طرف سے اردو میں ایک کتاب ’’سیف چشتیائی‘‘ شائع کی اور اس کا ایک نسخہ حضرت اقدسؑ کوبھی بذریعہ ڈاک ارسال کر دیا۔آپؑ پہلے تو اس بات پر حیران ہوئے کہ آپ نے عربی زبان میں مقابلہ کی دعوت دی تھی جبکہ یہ کتاب اردو زبان میں تھی۔ دوسرے یہ تفسیر نہیں تھی بلکہ محض حضورؑ کی کتاب ’’اعجازالمسیح‘‘ کی بعض انتہائی فصیح و بلیغ عبارات کی صرفی نحوی ’غلطیاں‘ نکالی ہوئی تھیں۔یا پھر یہ لکھا ہوا تھا کہ فلاں جملہ یا عبارت حریریؔ اور ہمداؔنی وغیرہ کتب سے چرائی گئی ہے۔وغیرہ۔
اُدھر ایک عجیب اتفاق یہ ہوا کہ موضع بھیں کا رہنے والا ایک شخص شہاب الدین نامی ایک دن اپنے گھر میںبیٹھا پیر مہر علی شاہ کی کتاب ’سیف چشتیائی‘ کا مطا لعہ کر رہا تھا کہ کوئی آدمی مولوی محمد حسن فیضی کے گھر کا پتہ پوچھتا ہوا آیا۔ استفسار پر معلوم ہوا کہ پیر مہرعلی شاہ گولڑوی نے اسے دو کتابیں دے کربھیجا ہے کہ وہ انہیں محمد حسن فیضی کے والد کو واپس کردے۔ دیکھنے پر معلوم ہوا کہ ان میں سے ایک کتاب حضرت مسیح موعودؑ کی وہی کتاب ’اعجازالمسیح‘ تھی جس کے حواشی پر مولوی فیضی نے مرنے سے قبل نوٹس لکھے تھے۔ جب شہاب الدین نے ان عبارتوں کا کتاب ’سیف چشتیائی‘ سے موازنہ کیاتو وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ وہ ہُوبہُو وہی عبارتیں ہیں جوکتاب ’اعجازالمسیح‘ کے حواشی پر مولوی فیضی کے ہاتھ کی لکھی ہوئی ہیں۔ اس پر شہاب الدین نے ایک بڑا جوشیلا خط گولڑوی صاحب کے نام لکھا کہ آپ نے تو اپنی ساری کتاب مولوی محمد حسن فیضی کے نوٹوں سے تیار کی ہے۔وغیرہ
پیر صاحب نے جو اس طرح اپنا راز کھلتے دیکھا تو ایک طرف انہوں نے محمد حسن فیضی کے والد کو خط لکھا کہ وہ شہاب الدین سے ہوشیار رہے اوراسے وہ کتاب آئندہ دیکھنے کے لئے نہ دے۔ دوسر ے محمد حسن فیضی کے ایک نسبتی بھائی مولوی کرم دین کو ایک کارڈ بھیجاجس میں پیر صاحب نے یہ اعتراف تو کیا کہ انہوں نے محمد حسن فیضی کے نوٹس سے اپنی کتاب ’’سیف چشتیائی ‘‘کی رونق بڑھائی ہے۔ لیکن ساتھ ہی انہوں نے یہ خلافِ واقعہ بات بھی لکھ دی کہ انہوں نے محمدحسن سے اُس کی زندگی میں اس کی اجازت لے لی تھی۔کرم دین چونکہ شہاب الدین کا دوست تھا ، اس نے پیر صاحب والے خط کے مضـمون سے شہاب الدین کو بھی آگاہ کر دیا اورپھر بذریعہ خط ان تمام حقائق کی اطلاع حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو کردی۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے یہ سارا واقعہ اپنی ان دنوں شائع ہونے والی کتاب ’’نزول المسیح‘‘ میں درج کرکے تحریر فرمایا کہ دیکھوجس شخص نے میرے مقابل پر اپنی قرآن دانی اور عربی دانی کی بڑ ماری تھی، اس کی قابلیت کا یہ حال ہے کہ اس نے ایک متوفّیٰ کی عبارتیں لے کراور انہیں اپنی طرف منسوب کرکے ایک قسم کے سرقہ کا ارتکاب کیا ہے۔ اسی طرح ایڈیٹر ’الحکم‘ ، حکیم فضل دین صاحب نے بھی ا خبار کی 17؍ ستمبر1902ء کی اشاعت میں اُن خطوط کی نقول شائع کر دیں جو کرم الدین نے حضور علیہ السلام کو لکھے تھے۔
جب عوام الناس پر پیر مہرعلی صاحب کی دیانت و امانت اور ان کے مزعومہ علمی تفو ق کی حقیقت عیاں ہوئی تو مولوی کرم دین ان کے اور ان کے مریدوں کے غیظ و غضب کا نشانہ بننے لگا۔ اس پر اُس نے اخلاق اورخداترسی کے جملہ تقاضوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اخبار ’’سراج الاخبار‘‘ (راولپنڈی) کے 6؍ اور 13؍ اکتوبر 1902 ء کے شماروں میں ایک تو یہ لکھا کہ وہ خط جو اس نے پیر مہر علی صاحب کا لکھا ہوا ظاہر کر کے مرزا صاحب کو بھجوایا تھا، وہ دراصل پیر صاحب کا نہیںبلکہ اس کے اپنے ہاتھوں کا لکھا ہوا تھا۔ دوسرے اُس نے یہ لکھا کہ کتاب ’’اعجازالمسیح‘‘ کے اندر حاشیوں پر درج شدہ نوٹ محمد حسن فیضی المتوفیٰ کے لکھے ہوئے نہیں تھے بلکہ وہ عبارتیں اُس نے خود کسی بچے سے اس کتاب کے اوپر لکھوا کر یہ جعلی کارروائی اِس لئے کی کہ تا اس طریق سے وہ مرزا صاحب کی ملہمیت کا امتحان کر سکے۔
اس پر مولوی کرم الدین کی اس اوچھی حرکت کو طشت از بام کرتے ہوئے حضرت مسیح موعودؑ نے اپنی عربی کتاب ’’مواہب الرحمن‘‘ میں بجا طور پراسے’ کذاب‘ اور’ لئیم‘ قرار دیا۔ انہی الفاظ کو بنیاد بناتے ہوئے مولوی کرم الدین نے آپؑ پر عدالت میں’’ ازالۂ حیثیت عرفی‘‘ کا دعویٰ دائر کر دیا۔ اور ساتھ ہی حضرت مسیح موعودؑ کو لکھے ہوئے خطوط اور اخبار’’سراج الاخبار‘‘ میں شائع ہونے والے مضامین کا مصنف ہونے سے بھی انکار کر دیا۔
یہ مقدمہ جوگورداسپورکی عدالت میں دائر کیا گیا تھا، اتنا سنگین ہو گیا کہ بعض غیراحمدی شرفاء نے اِسے واپس لینے کا بھی کرم الدین کو مشورہ دیا مگر وہ جو کہ ماتحت عدالت کے دونوں آریہ ججوں یعنی لالہ چندولال اور مہتہ آتمارام کے (جن کے بدانجام کا ذکر گزشتہ شمارہ کے ’’الفضل ڈائجسٹ‘‘ میں شائع کیا جاچکا ہے) اپنے حق میں جانے والے رویّہ کودیکھ چکا تھا ، دوسری طرف اسے اپنی قماش کے بہت سے مولویوں کی سرپرستی حاصل تھی، چنانچہ وہ مقدمہ واپس لینے پر راضی نہ ہوا۔
یہ مقدمہ تین سال تک طویل ہوتا چلا گیااور جیسا کہ گزشتہ شمارہ میں بتایا جا چکا ہے کہ پھرماتحت عدالت کے حضرت مسیح موعودؑ اور آپؑ کے مرید حکیم فضل دین ایڈیٹر ’’الحکم‘‘پر سات سو جرمانہ عائد کرنے پر ختم ہوا تاہم یہ جرمانہ عدالت عالیہ کے حکم سے واپس ہوا۔
مولوی کرم الدین کے لئے یہ سُبکی بھی کچھ کم نہ تھی کہ عدالت عالیہ نے اس کے ساختہ پرداختہ پر خط تنسیخ کھینچ کر اس کے حضور علیہ السلام پر عائد کردہ جملہ الزامات کو ردّی کی ٹوکری میں پھینک دیا۔ تاہم وہ ذلّت جو اُسے عین عدالت کے اندراٹھانی پڑی، وہ اس سے کہیں زیادہ تھی۔ چنانچہ اس بارے میں حضورؑ کے مخلص مرید حضرت ملک مولابخش صاحبؓ جو اُس وقت بطور ریڈر کمرۂ عدالت میں موجود تھے، کی روئیداد پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے جو بتاتی ہے کہ عین عدالت کے اندر انگریز سیشن جج، مسٹر اے۔ ای۔ ہری (A.E.Hurry) نے مولوی کرم الدین کو کس طرح آڑے ہاتھوں لیا۔ وہ تحریرفرماتے ہیں کہ جب اپیل کا دن آیا تو وہاں کسی بحث کا سوال ہی پیدا نہ ہوا۔جج صاحب نے چھٹتے ہی مولوی کرم دین صاحب سے پوچھا کہ آپ کو یہ شکایت ہے کہ مرزا صاحب نے آپ کوجھوٹا کہا ۔ انہوں نے کہا، ہاں۔پھر ان کا بیان سن کر کہا کہ یہ سچ تھا اور جھوٹ نہیں تھا (یعنی جو کچھ حضرت اقدسؑ نے فرمایا تھا وہ بالکل سچ تھا)۔ اب مولوی صاحب یہ تو نہ کہہ سکے کہ سچ تھا مگر کہا، نہیں حضور! یہ جھوٹ نہیں، اس کو پالیسی کہتے ہیں اور اس طرح جھوٹوں اور چوروں کو پکڑنے کو کیا جاتا ہے۔ جج صاحب نے کہامَیں تو یہ پوچھتا ہوں کہ کیا یہ سچ تھا؟ مولوی صاحب نے پھر کہا کہ نہ حضور! یہ جھوٹ نہیں۔ ایسا جھوٹ گورنمنٹ بھی بولتی ہے، پولوس نے بھی بولا، مسیح نے بھی بولا۔ جج نے کہا: مَیں یہ نہیں پوچھتا کہ کس کس نے بولا۔ سوال یہ ہے کہ خدا کے نزدیک یہ جھوٹ تھا یا سچ؟ مولوی صاحب سٹپٹائے اور جواب دینے سے پہلو بچانا چاہا۔مگر جج نے کہا کہ آپ گواہ کے کٹہرے میں کھڑے ہوکر حلفیہ بیان دیں۔ مولوی صاحب گواہ کے کٹہرے میںجانا نہیں چاہتے تھے مگر جج صاحب نے ڈانٹ کر اُنہیں وہاں جانے کے لئے کہا۔ الغرض کرہاً مولوی صاحب کٹہرہ میں گئے اور ان کو حلف دیا گیا۔ اور وہاں انہوں نے تسلیم کیا کہ اُن کا بیان جھوٹا تھا۔ مگر کہا کہ جھوٹے کو تو عربی میں کاذب کہتے ہیں، مرزا صاحب نے مجھے کذّاب کہا ہے جس کے معنی ہیں بہت جھوٹا۔ اس پر جج نے کہا: اچھا اگر آپ کو صرف جھوٹا کہا جاتا تو آپ ناراض نہ ہوتے؛ چھوٹے اُلّو اور بڑے اُلّو میں کیا فرق ہے!۔
یہ عجیب بات ہے کہ جو چیز ماتحت عدالت کے دونوں آریہ ججوں کودوسالوں میں معلوم نہ ہو سکی،وہ عدالت عالیہ کے انگریز جج کو مقدمہ کی فائل دیکھتے ہی معلوم ہو گئی۔ یہی وجہ ہے کہ جو الفاظ ماتحت عدالت میں مولوی کرم الدین کے لئے موجب ہتک سمجھے گئے تھے، اس نے انہی الفاظ کا اسے مصداق قرار دیتے ہوئے اپنے فیصلے میں لکھا: ’’لفظ ’کذّاب‘ او ر ’لئیم‘ جو کرم دین کی نسبت استعمال کئے گئے ہیں وہ محل پر ہیں اور کرم دین ان الفاظ کا مستحق ہے۔ بلکہ اگر ان الفاظ سے بڑھ کر اَور سخت الفاظ کرم دین کی نسبت لکھے جاتے تب بھی وہ ان الفاظ کا مستحق تھا۔ ایسے الفاظ سے کرم دین کی کوئی ازالہ حیثیت عرفی نہیں ہوئی ۔ ‘‘
نہ صرف یہ کہ بلکہ اس سے بھی بڑھ کرفاضل جج نے لکھا کہ:’’ان سے ایک دانستہ منصوبہ چال بازی اور خلاف بیانی اور جعل سازی کاظاہر ہوتا ہے جس پر بے حیائی سے ایک عام اخبار کی سطروں میں دنیا کے سامنے فخر کیا گیا ہے۔ … اندرونی شہادت سے دلالت ہوتی ہے کہ سوائے مستغیث کے کسی اور نے یہ مضامین تحریر نہیں کئے۔ بے شک مرزا صاحب کا کوئی مرید ایسا کام نہیں کر سکتا۔ نویسندہ اپنی چالاکی پر نہایت خوش معلو م ہوتا ہے۔ (اِس) نے اُس تحریر کو جو اِس کی بیان کی جاتی ہے، شناخت کرنے میں اس قدر ٹال مٹول کیا ہے کہ ہم اس پر کوئی اعتبار نہیں کر سکتے‘‘۔ اور آخر پرماتحت عدالت کو اس مقدمہ کے سلسلہ میں نا اہلی اور وقت کے ضیاع کا مرتکب قرار دیتے ہوئے فاضل جج نے لکھا: ’’بہت ہی افسوس ہے کہ ایسے مقدمہ میں جو کارروائی کے ابتدا ئی مراحل میں ہی خارج کیا جانا چاہئے تھا، اس قدر وقت ضائع کیا گیا ہے۔ لہٰذا ہر دو ملزمان مرزا غلام احمد و حکیم فضل دین بری کئے جاتے ہیں۔ ان کا جرمانہ واپس دیا جائے گا۔‘‘
مگرمعلوم ہوتاہے،خدا تعالیٰ کے مامور کی توہین کی پاداش میں مولوی کرم دین کے لئے اس سے بھی زیادہ ذلّت اور دکھ دیکھنا مقدّر تھا۔ چنانچہ وہ اپنی عمر کے آخری حصہ میں مسلسل کئی قسم کے صدموں سے دو چار ہوکر بالآخر بڑی کسمپرسی کی حالت میں ہلاک ہوا۔ اس کی تفصیل یوں ہے کہ ایک تو اس نے ایک ساس اور داماد کا آپس میں نکاح پڑھ دیا۔ اس کے نتیجے میں اس کے خلاف اس کے اپنے ہی گاؤں بھیںؔ اور اردگرد میں شور اٹھ کھڑا ہوا۔ چنانچہ ایک بہت بڑے جلسہ میں قریباً دو صد افراد نے حلفاً گواہی دی کہ مولوی کرم دین نے نفسانی لالچ میں آکر ایسا خلاف شرع اقدام کیا ہے۔ نیز اسی جلسہ میں بعض لوگوں نے یہ بھی گواہی دی کہ اس نے فلاں نکاح پر نکاح پڑھا ہے۔ اس پر اس کے خلاف ایک قرارداد پاس ہوئی جس میں اس پر ’’ننگِ اسلام‘‘ ہونے کا فتویٰ لگایا گیا۔ یہ تو ان کے اپنے ساختہ پرداختہ کی وجہ سے ہوا۔
دوسری ذلّت کی مار اُس پر اُس کے بیٹے کی وجہ سے پڑی۔ 1941ء میں اُس کا لڑکا منظور حسین چکوال کے S.D.O. کو قتل کرکے مفرور ہو گیا۔ اس پر پولیس اُس کے باپ مولوی کرم دین کو شہربہ شہر اپنے ساتھ لئے پھرتی رہی تاکہ کسی طرح بیٹے کا سراغ مل جائے۔ اسی طرح ان کی بیوی بھی کئی دن تک پولیس کی تحویل میں رہی۔جب اس طرح بھی منظور حسین کا کوئی سراغ نہ ملا تو مولوی کرم دین کی جائیداد بحق سرکار ضبط کرلی گئی۔ اس کے کچھ عرصہ بعد اخبارات میں یہ خبر شائع ہوئی کہ منظور حسین پولیس مقابلہ میں مارا گیا ہے۔ اس طرح پر مولوی کرم دین کو بڑھاپے میں اپنے جوان بیٹے کے قتل ہو جانے کا صدمہ بھی سہنا پڑااور ذلّت الگ اٹھانی پڑی۔ بالآخر وہ خود بھی حافظ آباد میں چھت کی منڈیر پر سے گرکر موت کا شکار ہوگیا۔
———-
ذیل میں چند ایسے معاندین کا ذکر ہے جنہوں نے حضور علیہ السلام کے بارہ میں نہ صرف اپنی گندہ دہنی اور سفلہ پن کی انتہا کر دی بلکہ علی الاعلان آپؑ کی ہلاکت کی تمنّا بھی کی مگربالآخر وہ خود آپؑ کی زندگی میں ہلاک ہوکر اپنے کذب اور حضورؑ کی صداقت پر مہر ثبت کر گئے۔
1۔ سعداللہ لدھیانوی
ہندوؤں میں سے مسلمان ہونے والے سکول ٹیچر سعداللہ لدھیانوی نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خلاف ایک کتاب ’’شہاب ثاقب بر مسیح کاذب‘‘کے عنوان سے لکھی جس میں یاوہ گوئی اور دشنام طرازی سے کام لیتے ہوئے آپؑ کو کذّاب اور مفتری قرار دیا اور دعویٰ کیا کہ یہ (یعنی حضرت اقدس علیہ السلام) ذلّت کی مَوت مرے گا اور اِس کی جماعت متفرق اور منتشر ہو جائے گی، وغیرہ ۔ اُس کی بدزبانی اس قدر بڑھتی چلی گئی کہ حضورؑ کو بالآخر اس کے لئے بددعا کرنی پڑی۔ چنانچہ آپؑ اپنی کتاب ’’حقیقۃالوحی‘‘ میں فرماتے ہیں
’’اگرچہ یہ تمنّا ہر ایک دشمن میں پائی جاتی ہے کہ وہ میری مَوت دیکھیں اور ان کی زندگی میں میری مَوت ہولیکن یہ شخص سب سے بڑھ گیا تھا اور ہر ایک بدی کے لئے جب بدقسمت مخالف قصد کرتے تھے تو وہ اس منصوبہ سے پورا حصہ لیتا تھا۔اور مَیں باور نہیں کر سکتا کہ جب سے دنیا پیدا ہوئی ہے،کسی نے ایسی گندی گالیاں کسی نبی اور مُرسل کو دی ہوں،جیسا کہ اس نے مجھے دیں۔چنانچہ جس شخص نے اس کی مخالفانہ نظمیں اور نثریں اور اشتہار دیکھے ہوں گے،اس کو معلوم ہوگا کہ وہ میری ہلاکت اور نابود ہونے کے لئے اور نیزمیر ی ذلّت اور نامرادی دیکھنے کے لئے کس قدر حریص تھا‘‘۔
حضور علیہ السلام نے سعداللہ کی بدزبانی کے متعلق مزید فرمایا: ’’سخت سے سخت الفاظ اور ناپاک سے ناپاک گالیاں اس شدت اور بے حیائی سے اس کے منہ سے نکلتی تھیں کہ جب تک کوئی شخص اپنی ماں کے پیٹ سے ہی بدطینت پیدا نہ ہو، ایسی فطرت کا انسان نہیں ہوسکتا‘‘۔
پھر فرماتے ہیں کہ: ’’ مَیں نے اس کے ابتر اور نامراد مرنے کے لئے سبقت نہیں کی اور نہ مَیں نے یہ چاہا کہ وہ میرے روبرو ہلاک ہو۔ مگر جب اس نے ان باتوں میں سبقت کی اور کھلے کھلے طور پر اپنی کتاب’شہاب ثاقب‘ میں میری مَوت کی نسبت پیشگوئی شائع کی او ر میرا دل دُکھایا اور دُکھ دینے میں حد سے بڑھ گیا۔تب چار برس بعد مَیں نے اس کے لئے دعا کی اور خدا نے مجھ کو اس کی مَوت کی خبر دی اور نیز فرمایا کہ سعداللہ جو تیرے ابتر رہنے کی پیشگوئی کرتا ہے، وہ خود ابتر رہے گا۔‘‘
چنانچہ سعداللہ کی نسبت الہام اِنَّ شَأنِئَکَ ھُوَالاَبْتَر کے علاوہ حضورؑ نے یہ بھی پیشگوئی فرمائی کہ وہ نامرادی اور ذلّت کے ساتھ میرے رُوبرو مرے گا۔اس پیشگوئی کا اظہار آپؑ نے القائے ربّانی سے لکھے گئے چند عربی اشعار میں بھی فرمایا۔ اور پھر سعداللہ کی ذلّت کی موت کی پیشگوئی کو اپنی صداقت کا معیار قرار دیتے ہوئے اسے ایک مباہلہ قرار دیا کہ جس کے نتیجہ میں صادق کی زندگی میں ہی جھوٹے کی مَوت ہوجائے گی۔ بلکہ ایک شعر میں یہ اشارہ بھی کردیا کہ اُس کی موت نمونیہ پلیگ سے ہوگی جس سے پھیپھڑے میں شگاف ہوجائے گا۔
چنانچہ سعداللہ اس پیشگوئی کے بارہ سال بعد جنوری 1907ء میں نمونیہ پلیگ سے بیمار ہو کر ہلاک ہو گیا۔
جس وقت حضورؑ نے پہلی پیشگوئی فرمائی، اُس وقت سعداللہ کا ایک لڑکا (جس کا نام محمود تھا) بعمر پندرہ یا سولہ سال موجود تھا۔ اس پیشگوئی کے بعد بارہ سال تک سعداللہ کے ہاں کوئی اَورلڑکا پیدا نہ ہوا۔ ظاہر ہے کہ اس نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئی کو جھوٹا ثابت کرنے کے لئے کئی جتن کئے ہوں گے مگرخدا کی تقدیر کے سامنے اس کی سب کوششیں رائیگاں گئیں۔ حضورؑ فرماتے ہیں کہ
’’ اسی روز سے جبکہ خدا تعالیٰ نے اس کی نسبت مجھے خبر دی کہ اِنَّ شَأنِئَکَ ھُوَالاَبتَر ، جس کو آج تک بارہ برس گذر گئے،اُسی وقت سے اولاد کا دروازہ سعداللہ پر بندکیا گیا ،اور اس کی بددعاؤں کو اُسی کے منہ پر مار کر خداتعالیٰ نے تین لڑکے بعد اس الہام کے مجھ کو دئے۔ اور کروڑہا انسانوں میں مجھے عزّت کے ساتھ شہرت دی،اور اس قدر مالی فتوحات اور آمدنی نقد اور جنس اور طرح طرح کے تحائف مجھ کو دئے گئے کہ اگر وہ سب جمع کئے جاتے، تو کئی کوٹھے ان سے بھر سکتے تھے۔ سعداللہ چاہتا تھا کہ مَیں اکیلا رہ جاؤں، کوئی میرے ساتھ نہ ہو۔پس خداتعالیٰ نے اس آرزومیں اس کو نامراد رکھ کر کئی لاکھ انسان میرے ساتھ کر دیا۔اور وہ چاہتا تھا کہ لوگ میری مدد نہ کریںمگر خداتعالیٰ نے اس کی زندگی میں ہی اس کو دکھلا دیا کہ ایک جہان میری مدد کے لئے میری طرف متوجہ ہو گیا۔….. اور وہ چاہتا تھا کہ مَیں اس کی زندگی میں ہی مر جاؤں اور میری اولاد بھی مر جائے۔مگر خداتعالیٰ نے میری زندگی میں اس کو ہلاک کیا ،اور الہام کے دن کے بعد تین لڑکے اَور مجھ کو عطا کئے ۔‘‘
حضور علیہ السلام مزید فرماتے ہیں کہ ’’ہر ایک کو معلوم ہے کہ پیشگوئی کے وقت میں سعداللہ کا لڑکابعمر پندرہ سال یا چودہ سال موجود تھااور باوجود لڑکے کے موجود ہونے کے خداتعالیٰ نے اپنی پیشگوئی میں اس کا نام ابتر رکھا تھا۔ اور فرمایا تھا کہ اِنَّ شَأنِئَکَ ھُوَالاَ بْتَر …… پس جبکہ پیشگوئی کے زمانہ میں یہ لڑکا موجود تھاتو ایک عقلمند صاف سمجھ سکتا ہے کہ اس پیشگوئی کا یہ مطلب ہے کہ یہ لڑکا کالعدم ہے اور ا س کے بعد نسل کا خاتمہ ہے۔اور یہی خداتعالیٰ کی طرف سے مجھے تفہیم ہوئی تھی ‘‘۔ گویا بالفاظ دیگر آپ نے یہ اعلان فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کے الہام کے رُو سے جس طرح سعداللہ خود آئندہ اولاد سے محروم کر دیا گیا ہے،اسی طرح اس کے بیٹے سے بھی اولاد پیدا کرنے کی قوت سلب کر لی گئی ہے۔
یہ کوئی معمولی اعلان نہ تھا کیونکہ دنیا میں کسی انسان کو کسی دوسرے انسان پر تصرّف نہیں بلکہ اسے اپنے آپ پر بھی تصرّف نہیں۔ تاہم سعداللہ کی وفات کے بعد اس کے بیٹے کی شادی ہو گئی۔ لیکن بالآخر وہی ہوا جو خدا کے مامور نے فرمایا تھا اور اس کا یہ بیٹا اولاد کو ترستا ہوا شادی کے انیس سال بعد اپنے باپ سے جا ملا۔اور اس طرح پر بدقسمت سعداللہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی پیشگوئی کے مطابق ہمیشہ کے لئے مقطوع النسل ہوگیا۔
———–
2۔ عبدالقادر ساکن طالب پور پنڈوری
ایک اور شخص جو اپنی ہلاکت سے حضرت مسیح موعودؑ کے صدق پر مہر تصدیق ثبت کر گیا ، وہ بدنصیب عبدالقادر نامی تھا۔ جب وہ اپنے ہی ساختہ پرداختہ کی سزا پاکر بڑی ذلّت کے ساتھ طاعونی مَوت مر کر اس دنیا سے رخصت ہوا تو اسے ایک بہت بڑے نشان کے طور پر پیش کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں:
’’اس نے اپنے طور پر میری نسبت خدا تعالیٰ سے فیصلہ چاہا،اور بہت سی ناکردنی اور ناگفتنی باتیں میری طرف منسوب کر کے خدا تعالیٰ سے انصاف کا خواستگار ہوا۔ تب وہ اس درخواست کے چند روز بعد ہی بعارضہ طاعون اِس جہان سے انتقال کرگیا۔تفصیل اس کی یہ ہے کہ: ’’ایک شخص عبدالقادر نام ساکن طالب پور پنڈوری ضلع گورداسپور میں رہتا تھا اور طبیب کے نام سے مشہور تھا۔ اس کو مجھ سے سخت عناد اور بغض تھااور ہمیشہ مجھے گندی گالیاں دیتا تھا۔ پھر جب اس کی گندہ زبانی انتہا تک پہنچ گئی،تب اس نے مباہلہ کے طور پر ایک نظم لکھی جس کا وہ حصہ ہم اس جگہ چھوڑدیتے ہیںجس میں اُس نے سخت سے سخت فسق و فجور کی باتیں میری طرف منسوب کی ہیںاور سعداللہ لدھیانوی کے رنگ میں میرے چال چلن پر بھی تہمتیں لگائی ہیں اور بہت گندے الفاظ استعمال کئے ہیں۔‘‘
حضورؑ نے پھر نہایت افسوس کے رنگ میں فرمایا:
’’افسوس کہ یہ لوگ آپ جھوٹ بولتے ہیں اور آپ گستاخ ہو کر تہمتیں لگاتے اور شریعت نبویہ کی رُو سے حدِّقذف کے لائق ٹھیرتے ہیں،پھر بھی کچھ پروا نہیں کرتے۔ یہ ہیں علماء فضلاء یعنی اِس زمانہ کے ان لوگوں کے دلوں میں کچھ ایسی شوخی اور لاپروائی ہے کہ جب ایک شخص خدا تعالیٰ سے ایسا فیصلہ مانگ کر ہلاک ہو جاتا ہے تو دوسرا اس کی کچھ بھی پروا نہیں کرتااور اس کا قائمقام ہوکر گستاخی اور بدزبانی شروع کر دیتا ہے بلکہ اس سے بھی آگے بڑھ جاتا ہے۔‘‘
پھر عبدالقادر پنڈوری والے کی شعری او ر ادبی اغلاط سے بھری ہوئی نظم کے چند اشعار بطور نمونہ درج کرنے کے بعد اس کی نظم کے آخری دعائیہ شعر:

یا الٰہی جلد تر انصاف کر
جھوٹ کا دنیا سے مطلع صاف کر

کی طرف اشارہ کرتے ہوئے آپؑ نے تحریر فرمایا:
’’جیسا کہ اِن شعروں کے مصنف نے جناب الٰہی میں دعا کی تھی کہ وہ انصاف کرے اور جھوٹ کا مطلع صاف کرے، ایسا ہی خدا نے جلد تر انصاف کر دیا اور ان شعروں کے لکھنے کے چند روز بعد یعنی بعد تصنیف ان شعروں کے وہ شخص یعنی عبدالقادر طاعون سے ہلاک ہو گیا۔مجھے اس کے ایک شاگرد کے ذریعہ سے یہ دستخطی تحریر اس کی مل گئی اور نہ وہ صرف اکیلا طاعون سے ہلاک ہوابلکہ اَور بھی اس کے بعض عزیز طاعون سے مر گئے۔ایک داماد بھی مر گیا۔ پس اس طرح پر اس کے شعرکے مطابق جھوٹ کا مطلع صاف ہوگیا۔‘‘
—————
3۔ محمد جان المعروف مولوی محمد ابوالحسن
تیسرا شخص جس نے احمدیت کی دشمنی میں آکر اپنی مَوت کوخود دعوت دی، وہ پنج گرائیں،تحصیل پسرور ،ضلع سیالکوٹ کا رہنے والا محمد جان المعروف مولوی محمد ابوالحسن نامی ایک عالم دین تھا۔ اس کی شوخی اور بے حیائی کا یہ حال تھا کہ اس نے ’’ بجلی آسمانی بر سر دجّال قادیانی‘‘ کے نام سے ایک کتاب لکھی جس میں اس نے کئی مقامات پر کاذب کے لئے مَوت کی دعا کرتے ہوئے حضرت اقدسؑ کی نسبت بہت ہی گندے اور طعن و تشنیع سے بھرے ہوئے اشعار لکھے ۔مثلاً پنجابی کی ایک نظم کا ایک شعر یہ تھا:

توبہ کر جلدی اے ملحد موت نیڑے ہے آئی
اج کل مر دُنیا تو غافل ہونا ہے تو راہی

ایک دوسرے شعر میں اس نے لکھا:

نبیاں تائیں اِس متنبی لائیاں بڑیاں سلّاں
دوجے حصے اندردیکھیں میریاں اس دیاں گلاں

دراصل وہ اس کتاب کا ایک دوسرا ایڈیشن بھی شائع کرنا چاہتا تھا جس کا اس نے یہاں ذکر کیا ہے مگر اِس دوسرے حصہ کا لکھنااسے نصیب ہی نہ ہوا اور وہ اس سے پہلے ہی اس دنیا سے رخصت ہو گیا۔
پھر سب سے بڑی شرارت اس نے یہ کی کہ اس نے ایک بیہودہ نظم کی صورت میں حضرت مسیح موعودؑ کے بارہ میں آپؑ کی فرضی مَوت کا سیاپا لکھاجس کے اشعار کچھ اس قسم کے تھے:

مرزا مویا خوشیاں مینوں راتیں نیند نہ آئی ،مرزا گذر گیا
مرزا مویا بیشک جانو مَیں ہن نصرت پائی،مرزا گذر گیا

مگر اس نے نصرت کیا پائی۔ حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں کہ ابھی اپنی دوسری کتاب شروع بھی نہ کرنے پایا تھا کہ طاعونی مَوت نے اسے آ لیا اورپھر وہ پورے انیس دن تک طاعون میں مبتلا رہ کر چیخیں مارتا ہوااس دنیا سے رخصت ہوا۔
عجیب بات یہ ہے کہ اس شخص نے اپنے انہی شعروں میں ایک شعر اس مضمون کا بھی لکھا تھا کہ مرزا نے طاعون کے پھیلنے کی خبر دی تھی مگر وہ بھی ظہور میں نہ آئی۔ لیکن خدائے غیور نے اس پر ایسی طاعونی مَوت وارد فرمائی کہ نہ صرف اُسے بلکہ ایک دنیا کو دکھادیا کہ ایک دن، دو دن نہیں،پورے انیس دن وہ طاعون میں تڑپتا رہا اور بڑی درد ناک حالت میں مرا۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کتاب ’’حقیقۃالوحی‘‘ میں اس قسم کی متعدد مثالیں دینے کے بعد بالآخر بڑے درد کے ساتھ نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’اے پڑھنے والے اس کتا ب کے! خدا سے ڈر اور ایک دفعہ اوّل سے آخر تک اس کتاب کو دیکھ اور اس قادر مطلق سے درخواست کر کہ وہ تیرے دل کو سچائی کے لئے کھول دے اور خدا کی رحمت سے ناامید مت ہو۔‘‘

3 تبصرے “حضرت مسیح موعودؑ کے مخالفین کا انجام

  1. جزاک اللہ احسن الجزا
    مولوی کرم دین کے بارے بہت تفصیل سے بیان ھوا ہے۔اسی کی تلاش تھی

  2. بہت اچھا مضمون ہے ۔ صرف حوالوں کی کمی رہ گئی ہے۔

    1. السلام علیکم ورحمۃاللہ۔ پسندیدگی کا شکریہ۔ دراصل وہ تمام مضامین جن میں اصل اخبار یا رسالہ کا حوالہ مضمون میں دیا جاتا ہے اس سے مراد یہی ہے کہ یہ اصل مضمون کا تفصیلی خلاصہ ہے جو الفضل ڈائجسٹ کی زینت بنایا جاچکا ہے۔ اگر آپ چاہیں تو اصل مضمون کا مطالعہ بھی کرسکتے ہیں۔ خلاصہ بناتے وقت اکثر حوالے حذف کردیئے جاتے ہیں اور زوائد بھی چھوڑ دیئے جاتے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں