حضرت مسیح موعودؑ کے مقولے

ماہنامہ ’’انصاراللہ‘‘ اکتوبر 2001ء میں حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ کا ایک مضمون شامل اشاعت ہے جس میں آپؓ نے حضرت مسیح موعودؑ کے بعض مقولے بیان فرمائے ہیں جو حضورؑ اپنی عام بول چال میں اکثر ا ستعمال فرمایا کرتے تھے۔
حضرت مسیح موعودعلیہ السلام جب کوئی مفید تحریک جاری فرماتے تو فرماتے ’’انبیاء تلامیذالرحمن ہوتے ہیں‘‘۔ گویا کوئی خاص الہام آپؑ کو اس بارہ میں نہیں ہوا کرتا تھا بلکہ وہی آپؑ کیا کرتے تھے جو کچھ خدا تعالیٰ آپؑ کے دل میں ڈالتا تھا۔
آپؑ کا ایک مقولہ تھا: ’’یاتوں لوڑ مقدمیں یا اللہ نوں لوڑ‘‘۔ یعنی یا تم خدا کی تلاش کرو یا اپنے دنیاوی مقدمات کرلو۔ حضورؑ اُن لوگوں کے ذکر میں یہ کلمہ لایا کرتے تھے جو اپنے دنیوی دھندوں میں ایسے منہمک ہوتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کو اور اس کے احکام کو بھول جاتے ہیں۔
حضورؑ یہ بھی فرمایا کرتے تھے: ’’نماز مشکلات سے بچنے کی چابی ہے‘‘۔ 1904ء میں مجھے ایسا بخار آیا جو اُترتا نہ تھا۔ ایک دن ایسی حالت ہوئی گویا کہ آخری وقت ہے۔ میری بیوی روتی چیختی حضورؑ کی خدمت میں حاضر ہوئی۔ آپؑ فوراً اٹھے اور وضو کرکے نماز میں کھڑے ہوگئے اور ہنوز نماز میں ہی تھے کہ میری حالت سنبھل گئی اور تندرستی کی طرف مائل ہوگئی۔ حضورؑ فرمایا کرتے تھے کہ بعض لوگ نماز کے اندر تو دعا کرتے نہیں، جب نماز ختم ہوجاتی ہے تو بعد میں دعائیں کرنے لگتے ہیں۔ اُن کی مثال ایسی ہی ہے کہ ایک شخص بادشاہ کے دربار میں حاضر ہوکر خاموش کھڑا رہے لیکن جب دربار سے باہر آجائے تو پکارنے لگے کہ میری یہ درخواست بھی اور یہ درخواست بھی ہے۔
حضورؑ فرمایا کرتے: ’’جو منگے سو مر رہے، مرے سو منگن جا‘‘ یعنی مانگنا اور موت اختیار کرنا برابر ہے۔ خدا تعالیٰ کے حضور دعا ایسی عاجزی اور زاری سے ہونی چاہئے گویا انسان اپنے اوپر موت وارد کرنے لگا ہے۔
حضورؑ کا ایک فارسی مقولہ تھا: ’’سخن کزدل برون آید۔ نشیند لاجرم بردل‘‘۔ جس کا مطلب تھا کہ جو بات دل سے نکلتی ہے، وہ اثر رکھتی ہے۔ یہ مقولہ ایسے موقع پر فرمایا کرتے جب مبلغ اور واعظ کے اندر اخلاص کی ضرورت پر زور دیتے۔
جب کوئی دوست حضورؑ سے واپسی جانے کی اجازت مانگتے تو حضورؑ چند یوم مزید ٹھہرنے کا ارشاد فرماتے۔ حضورؑ کا منشاء تھا کہ چونکہ زمانہ نبوت تھا، ممکن تھا کہ وہ صاحب چند روز میں کوئی اَور نشان دیکھ لیں، یا اُن کے حق میں کوئی الہام ہوجائے یا اُن کی واسطے کسی خاص دعا کا موقع مل جائے۔ ایسے میں جب وہ دوست اپنے ایسے دنیاوی کاموں کا ذکر کرتا جو ادھورے چھوڑ آیا ہے تو حضورؑ اکثر فرمایا کرتے: ’’کار دنیا کسے تمام نکرد‘‘۔ دنیا کے کام تو کسی سے ختم نہیں ہوتے۔ ہر ایک شخص جو مر جاتا ہے وہ کئی ایک کام بیچ میں ہی چھوڑ کر مر جاتا ہے۔
جب حضورؑ ایسا ذکر فرماتے کہ خدا تعالیٰ اپنے پیاروں کو بعض ایسی طاقتیں دیدیتا ہے جو خارق عادت ہوتی ہیں اور عام طور پر لوگوں میں نہیں پائی جاتیں۔ مثلاً آپؑ فرمایا کرتے تھے کہ بعض دفعہ آپؑ ایک بند کمرے میں ہوتے ہیں لیکن دوسرے کمرے کی اشیاء ایسے دیکھ رہے ہوتے ہیں گویا کوئی دیوار درمیان میں حائل نہیں ہے۔ اس قسم کے اظہار کے وقت آپؑ مولانا روم کا یہ شعر پڑھا کرتے تھے:

فلسفی گو منکر از حنانہ است
از حواس اولیاء بیگانہ است

اس میں مسجد نبوی کے ستون ’’حنانہ‘‘ کا ذکر ہے جس کے ساتھ ٹیک لگاکر آنحضورﷺ خطبہ وغیرہ ارشاد فرمایا کرتے تھے لیکن جب منبر تیار ہوگیا تو وہ ستون حضورؐ کی جدائی میں رویا اور صحابہؓ نے بھی اس رونے کو سنا۔ مولانا روم کہتے ہیں کہ فلسفی اس امر سے انکار کرسکتا ہے لیکن وہ اس حقیقت سے بے خبر ہے کہ اولیاء اللہ کو کیسے حواس عطا کئے جاتے ہیں۔
مضمون نگار بیان کرتے ہیں کہ 91-1890ء کے موسم سرما میں جب مَیں پہلی بار قادیان آیا تو اُس وقت جموں میں ہائی سکول میں ٹیچر تھا۔ ایک روز صبح کی سیر کے وقت مَیں نے حضورؑ سے سوال کیا کہ گناہوں سے بچنے کا کیا ذریعہ ہے؟ تو حضورؑ نے فرمایا: ’’انسان طولِ امل نہ کرے اور موت کو یاد رکھے۔ اس طریقہ سے گناہوں سے بچا رہتا ہے‘‘۔ آپؑ اکثر یہ شعر پڑھا کرتے تھے:

غنیمت جان لو مل بیٹھنے کو
جدائی کی گھڑی سر پر کھڑی ہے

دنیا کی بے ثباتی کے اظہار اور عاقبت کی طرف توجہ دلاتے ہوئے حضورؑ فرمایا کرتے: ’’شب تنور گزشت و شب سمور گزشت‘‘ یعنی سردیوں کی راتیں کسی نے تنور کی آگ تاپ کر گزار دیں اور کسی نے پوستین اور سمور پہن کر، دونوں کی رات گزر ہی جاتی ہے اور وقت نکل جاتا ہے۔
حضوراکثر فرماتے: ’’سب کرامتوں کی اصل جڑ دعا ہے‘‘۔ فرماتے کہ ایک دفعہ مجھے خیال آیا کہ بخل تو جائز نہیں، لیکن اگر بالفرض بخل جائز ہوتا تو مَیں کس چیز پر بخل کرتا۔ مَیں نے بہت غور کیا، دنیا کی کوئی شے مجھے ایسی محبوب نہ معلوم ہوئی جس پر بخل کرنا مَیں روا رکھتا۔ نہ مال و دولت نہ نسخہ۔ لیکن مَیں نے سوچا کہ دعا ایک ایسی نعمت ہے کہ اگر بخل جائز ہوتا تو مَیں اس بات کے بتلانے میں بخل کرتا کہ دعا کے ذریعہ ہر ایک مشکل حل ہوجاتی ہے اور ہر ایک نعمت اور برکت حاصل ہوسکتی ہے۔
ایک فقرہ حضورؑ اکثر استعمال فرماتے کہ ’’الاستقامۃ فوق الکرامۃ‘‘۔ یعنی استقامت کرامت سے بڑھ کر ہے۔ یعنی جب کوئی انسان نیکی اختیار کرلے تو پھر کسی نقصان کے خوف یا مخالفت کے ڈر کی وجہ سے اس سے نہ رُکے۔
آپؑ فرمایا کرتے: ’’خاک شو پیش ازاں کہ خاک شوی‘‘ یعنی خاک ہونے سے پہلے خاک ہوجا۔ یعنی چاہئے کہ زندگی میں ہی انسان خاکساری اختیار کرے اور تکبر و رعونت ترک کردے۔
آپؑ یہ بھی فرمایا کرتے: ’’استغفار کلید ترقیاتِ روحانی ہے‘‘۔ اور عموماً حضور استغفار کے واسطے یہ کلمہ سکھاتے:

’’اَستغفراللّہ ربّی من کُلّ ذنبٍ واَتُوبُ اِلیہ‘‘۔
50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں