حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی قبولیت دعا
(مطبوعہ ’’الفضل ڈائجسٹ‘‘، الفضل انٹرنیشنل لندن 11؍مارچ 2024ء)
مجلس انصاراللہ برطانیہ کے مجلّہ ’’انصارالدین‘‘ نومبرو دسمبر 2013ء میں مکرم عبدالرحمٰن شاکرصاحب کے قلم سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی قبولیتِ دعا کے حوالے سے ایک مضمون شامل اشاعت ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ نواب صدیق حسن خان وزیرریاست بھوپال نے بعض اپنی کتابوں میں لکھا تھا کہ جب مہدی موعود پیدا ہوگا تو غیرمذاہب کے سلاطین گرفتار کرکے اس کے سامنے پیش کیے جائیں گے اور یہ ذکر کرتے کرتے یہ بھی بیان کردیا کہ چونکہ اس ملک میں سلطنت برطانیہ ہے اس لیے معلوم ہوتا ہے کہ مہدی کے ظہور کے وقت اس ملک کاعیسائی بادشاہ اسی طرح مہدی کے رُوبرو پیش کیا جائے گا۔ یہ الفاظ موجب بغاوت سمجھے گئے اور یہ ان کی غلطی تھی کہ انہوں نے ایسا لکھا۔ مگر چونکہ انہوں نے غیرقوموں کو صرف مہدی کی تلوار سے ڈرایا اور آخر پکڑے گئے اور نواب ہونے سے معطّل کیے گئے اور بڑی انکساری سے میری طرف لکھا کہ مَیں ان کے لیے دعا کروں۔ تب میں نے ان کو قابل رحم سمجھ کر دعا کی تو خداتعالیٰ نے فرمایا کہ سرکوبی سے اس کی عزت بچا لی گئی۔ مَیں نے یہ اطلاع ان کو اور کئی لوگوں کو بھی دے دی۔ آخر کچھ مُدّت کے بعد گورنمنٹ کا حکم آگیا کہ صدیق حسن خان کی نسبت نواب کا خطاب قائم رہے۔ گویا یہ سمجھا گیا کہ جو کچھ اس نے بیان کیا ایک مذہبی پرانا خیال ہے ان کی بغاوت کی نیت نہ تھی۔ نواب صدیق حسن خان پر جو یہ ابتلا پیش آیا وہ میری ایک پیشگوئی کا نتیجہ ہے جو براہین احمدیہ میں درج ہے۔ انہوں نے میری کتاب براہین احمدیہ کو چاک کرکے واپس بھیج دیا تھا۔ میں نے دعا کی تھی ان کی عزت چاک کر دی جائے۔ سو ایسا ہی ظہور میں آیا۔ (ماخوذ از حقیقۃالوحی)
نواب سیّد صدیق حسن خان صاحب 14؍اکتوبر1832ء کو بریلی میں پیدا ہوئے۔ ابھی پانچ سال کے تھے کہ آپ کے والد اولاد حسن خان کاانتقال ہوگیا۔ وہ حضرت سیّد احمد شہیدؒ بریلوی کے مرید اور بہت پرہیزگار آدمی تھے۔ انہوں نے اپنے شیعہ والد کی لاکھوں روپے کی جائیداد لینے سے انکار کردیا جو ورثے میں ان کا حق بنتا تھا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ خاندان کے دوسرے شرکاء مالامال ہوگئے اور صدیق حسن معہ برادران غریب ہوگئے۔ آپ کی والدہ نے بچوں کوبڑی تنگی سے پالا، مختلف مقامات پربھجوا کر حدیث فقہ وغیرہ علوم اسلامیہ کی تعلیم دلوائی۔ آخر کار آپ اپنے گھرکی حالت دیکھ کر ملازمت کی نیت سے بھوپال پہنچے۔ مگر کسی کا وسیلہ نہ تھا اس لیے کوئی کام نہ مل سکا۔ آخر آپ نے مدارالمہام سید جمال الدین صاحب کو درخواست پیش کی تو تیس روپے ماہوار کی ملازمت مل گئی مگر وہ اخراجات کے لیے کافی نہ تھی۔ تاہم آپ بہت محنت سے کام کرتے رہے اور کچھ عرصہ بعد میر دبیر بنادیے گئے تو تنخواہ پچاس روپے ماہوار ہوگئی۔ مگر بعض حاسدین نے سازش کرکے آپ کووہاں سے نکلوا دیا۔ پھر آپ کانپور چلے آئے لیکن وہاں پہنچتے ہی 1857ء کا سانحہ پیش آگیا اور بڑی مشکل سے پُرخطر حالات میں اپنے وطن قنوج پہنچے۔ مالی حالت بالکل صفر تھی۔ تاہم والد کے دوست ان کی مدد کرتے رہے۔
ان حالات میں نواب سکندربیگم صاحبہ والیۂ بھوپال نے آ پ کو بھوپال بلوالیا۔ مگرگروہِ حاسدین نے ان کے پاؤں نہ جمنے دیے تو آپ مایوس ہوکر ٹونک چلے گئے۔وہاں سید جمال الدین صاحب اوران کی بیگم صاحبہ نے خطوط میں آپ سے اپنے سابقہ رویے پر معافی مانگی اور کہا کہ آپ پھر بھوپال آجائیں۔ چنانچہ اگست 1859ء میں آپ تیسری مرتبہ بھوپا ل آئے اور تاریخ بھوپال لکھنے پر مامورہوئے۔ وہیں پر 1860ء میں ذکیہ بیگم صاحبہ بنت سید جمال الدین صاحب سے آپ کی شادی ہوگئی اور آپ ریاست کے عمائدین میں شمار ہونے لگے۔ 1869ء میں حج کی توفیق پائی۔
نواب سکندربیگم کے بعد جب نواب شاہ جہاں بیگم ملکہ بھوپال ہوئیں تو انہوں نے مولوی صدیق حسن صاحب کو اپنا پرائیویٹ سیکرٹری مقررفرمالیا اورخان صاحب کا خطاب بھی عطا کیا۔ چونکہ یہ ملکہ جوانی میں ہی بیوہ ہوگئی تھیں اور مولوی صاحب کی پہلی بیوی بھی فوت ہوچکی تھیں لہٰذا 8؍مئی 1871ء کو دونوں نے گورنمنٹ آف انڈیاکی اجازت سے عقدِثانی کرلیا۔ ملکہ نے اپنے مرحوم خاوند کے خطابات ناظرالدولہ، نواب والا جاہ اور امیرالملک مولوی صاحب موصوف کے لیے گورنمنٹ سے منظور کرواکر 75؍ہزار روپے کی جاگیر بھی ان کے نام کردی۔ گورنمنٹ آف انڈیانے نواب صاحب کے لیے 17؍توپ کی سلامی کی بھی منظوری دے دی۔
نواب صاحب فرقہ اہلحدیث کے مشہور لیڈر تھے۔ آپ نے قریباً 90؍دینی کتب لکھیں جن میں ’حجج الکرامۃ فی آثارالقیامۃ‘ بہت مشہور ہے۔ اُنہی دنوں مشہورانقلابی مفکر سیدجمال الدین افغانی جو ’’پان اسلام ازم‘‘ کے بانی تھے اور جن کو کوئی مسلم حکومت پناہ دینے کے لیے تیارنہ تھی۔ وہ دورہ پر ہندوستان آئے تو بھوپال میں بھی تین چار لیکچر دیے۔ یہ وہ زمانہ تھاجبکہ انگریزوں کو روس کے حملے کا خطرہ لاحق رہتا تھا اور اگرکوئی شخص لفظ جہاد، مہدی، پان اسلام ازم وغیرہ کا نام لے لیتا تو انگریز خوفزدہ ہوجاتے۔ اُن دنوں انگلستان کا وزیراعظم ولیم گلیڈ سٹون سخت معانداسلام تھا۔
وہ ٹرکی (ترکی) کی حکومت کو وحشی اور غیرمہذب حکومت سمجھتا تھا۔ ٹرکی کی مرغی کواسی نے رواج دیا تھا جس کے بغیر انگلستان میں کرسمس کی ضیافت ادھوری سمجھی جاتی ہے۔ چنانچہ اُس کے اشارے پر جمال الدین افغانی کو بھوپال سے نکال دیاگیا لیکن اس شبہ پرکہ وہ نواب صدیق حسن خان سے بھی ملے ہوں گے اور انگریزوں کے خلاف گفتگو ہوئی ہوگی انگریز نواب صاحب سے بدظن ہوگئے۔ انہی دنوں آپ نے مہدی سوڈانی محمد احمد کو بھی کچھ مالی امداد دی۔ پھر آپ پر ریاست کے مہاجنوں کو تنگ کرنے اور اپنے رشتہ داروں کو اعلیٰ عہدوں پر فائز کرنے کے الزام لگے۔ درباری سازشیں بھی درپردہ کام کررہی تھیں۔ نیز نواب شاہ جہان بیگم کی پہلے خاوندسے بیٹی ولیہ عہد نواب سلطان جہاں بیگم بھی نواب صاحب کے سخت خلاف تھیں۔ چنانچہ بھوپال کے ریذیڈنٹ سرلیپل گریفن (مصنف پنجاب چیفس) کی رپورٹ پر گورنمنٹ آف انڈیا نے نواب صاحب کے خطابات ضبط کرکے آپ کو ’نورمحل‘ میں قید کردیا۔ صرف رات گزارنے کے لیے وہ والیہ کے ’تاج محل‘ میں جاسکتے تھے۔ آٹھ ماہ تک یہی حالت رہی تو پھر والیہ بھوپال نے کلکتہ جاکروائسرائے لارڈ ڈفرن سے نواب صاحب کی طرف سے معافی مانگی توصرف اتنی اجازت ملی کہ نورمحل میں ملکہ اورمولوی صاحب اکٹھے رہ سکتے ہیں۔
اسی زمانے میں حضرت مرزاغلام احمد صاحب نے اپنی کتاب ’’براہین احمدیہ‘‘ چار جلدوں میں شائع فرمائی۔ حضورؑ کے پاس چونکہ اس قدر فنڈ نہ تھا۔ چنانچہ دعا کرنے پر الہام ہوا کہ وَھُزِّ اِلَیْکَ بِجِزْعِ اَلۡنَّخۡلَۃِ تُسَاقِطۡ عَلَیْکَ رُطَبًا جَنِیًّا۔ اس حکم الٰہی پر عمل کرتے ہوئے حضورؑ نے خلیفہ محمدحسن صاحب وزیراعظم ریاست پٹیالہ کو خط لکھا تو انہوں نے پانچ صد روپے بھجوادیے اور کتاب باوجود نومیدی کے چھپ گئی۔ پھر حضورؑ نے کئی رئوساء کو خطوط لکھے اور اکثر نے حضورؑ کی تحریک پر توجہ دی مثلاً مرزا محمد علاؤالدین صاحب رئیس لوہارو 40؍روپے، نواب سر وقارالامراء اقبال الدولہ صاحب حیدرآباد دکن 100؍روپے، محمد افضل خان صاحب 110؍روپے، نواب صاحب مالیرکوٹلہ 100؍روپے، شیخ محمد بہاؤالدین صاحب وزیراعظم جوناگڑھ 1000؍روپے۔
حضرت اقدسؑ کے خط لکھنے پر نواب صدیق حسن صاحب نے پہلے تو کتب کی خریداری کا وعدہ کیا مگر بعد میں دستکش ہوگئے۔ حضورؑ تحریر فرماتے ہیں: ’’نواب صاحب کی خدمت میں کہ جو بہت پارسا طبع اور متقی خصائل حلمیہ اورقال اللہ اور قال الرسول سے بدرجہ غایت خبر رکھتے ہیں کتاب براہین احمدیہ کی اعانت کے لیے لکھا تھا۔ سو اگر نواب صاحب اس کے جواب میں لکھتے کہ ہماری رائے میں یہ کتاب ایسی عمدہ نہیں ہے جس کے لیے کچھ مدد کی جائے افسوس نہ تھا مگرصاحب موصوف نے پہلے تویہ لکھا کہ پندرہ بیس کتب ضرورخریدیں گے اور پھر دوبارہ یاددہانی پر یہ جواب آیا کہ دینی مباحثات کی کتابوں کا خریدنا یا انہیں کچھ امداد دینا خلاف منشاء گورنمنٹ انگریزی ہے اس لیے اس ریاست سے خرید وغیرہ کی امید نہ رکھیں۔ سو ہم بھی نواب صاحب کو امیدگاہ نہیں بناتے۔ بلکہ امیدگاہ خداوندکریم ہی ہے اور وہی کافی ہے۔ خدا کرے گورنمنٹ انگریزی نواب صاحب سے بہت راضی رہے۔‘‘
حضورعلیہ السلام کو زیادہ رنج اس وجہ سے ہوا کہ نواب صاحب نے پہلے تو کتابوں کا پیکٹ وصول کرلیا۔مگر کھول کرجب پڑھا تو کچھ ایسے بگڑے کہ دوبارہ نہایت بُری طرح پیکٹ بناکر واپس بھیج دیا۔ نہ معلوم خودغصہ سے کتابیں پھاڑ دیں یااس لاپروائی سے پیکٹ بنوایا کہ کتابیں پھٹ گئیں۔ نتیجہ یہ ہوا کہ پھٹی ہوئی کتابوں کا پلندا جب حضرت اقدسؑ کو وصول ہوا تو اُن کتابوں کی حالت دیکھ کرآپؑ کوبہت رنج ہوا۔ اس کتاب کی اشاعت کے لیے حضورؑ نے بڑی تکلیف اٹھائی تھی۔ کاپیاں کاتب سے لکھوا کر خود پڑھتے۔ پھر ان کو لے کر امرتسر جاتے بعض دفعہ 36؍میل کا فاصلہ پیدل طے کرنا پڑتا۔ عیسائیوں کے پریس پر زیادہ اجرت دے کر چھپوائی۔ شیخ حامدعلی صاحب ؓ بیان کرتے ہیں کتب کواس بُری طرح پھٹا دیکھ کر رنج اورغصہ سے آپؑ کا چہرہ متغیر اور سرخ ہوگیا۔ آپؑ چہل قدمی فرمارہے تھے اور خاموش تھے کہ اچانک آپؑ کی زبان سے یہ الفاظ نکلے: اچھا تم اپنی گورنمنٹ کوخوش کرلو۔
خدا جانے کس درد سے آپؑ کے دل سے یہ کلمہ نکلا کہ 19؍اکتوبر 1885ء کو نواب صاحب کے تمام خطابات ضبط کرلیے گئے۔ غرض اس وقت سے نواب صاحب کے مصائب کاآغاز ہوا۔ جب چاروں طرف سے مایوسی اور ناکامی نے آن گھیرا تو نواب صاحب نے حضرت اقدس علیہ السلام کے ایک پرانے ملنے والے حافظ محمد یوسف صاحب امرتسری ضلعدار نہر (جو کہ خود نواب صاحب کی طرح اہلحدیث تھے) کو قادیان بھجوایا اور معافی کی درخواست کی۔ حافظ صاحب نے نواب صاحب کی سفارش کی اوردعا کے لیے عرض کیا۔ پہلے تو حضرت نے انکار فرمایا مگر حافظ صاحب نے بھی پیچھا نہ چھوڑا اور بار بار عرض کرتے رہے۔ آخر حضورؑ نے دعا کا وعدہ کرتے ہوئے فرمایا:
’’میں نے دعاکی ہے۔ نواب صاحب کوچاہیے کہ خود بھی توبہ کریں۔ اللہ تعالیٰ توبہ قبول کرنے والا ہے وہ رحم فرمائے گا اور وہ حکومت کے اخذ سے بچ جائیں گے۔‘‘
اس کے بعد حافظ صاحب نے نواب صاحب کی طرف سے’’براہین احمدیہ‘‘کی خریداری کی درخواست کی مگر حضورؑ نے منظورنہ فرمایا۔حافظ صاحب نے ہرچندعرض کیا مگر حضورؑ راضی نہ ہوئے اورفرمایا کہ ’’میں نے رحم کرکے دعا کردی ہے اورخداتعالیٰ کے فضل سے وہ عذاب سے بچ جائیں گے۔ میرایہ فعل شفقت کانتیجہ ہے۔ایسے شخص کوجس نے اس کتاب کواس حالت کے ساتھ واپس کیا، اب کسی قیمت پربھی دینا نہیں چاہتا۔ یہ میری غیرت اورایمان کے خلاف ہے۔ ان لوگوں کو جو تحریک کی تھی تو خداتعالیٰ کے مخفی امورکے ماتحت اوران پررحم کرکے کی تھی کہ یہ لوگ دین سے غافل ہوتے ہیں براہین کی اشاعت میں اعانت کرکے گناہوں کا کفارہ ہوجائے اورخداتعالیٰ انہیں کسی اََورنیکی کی توفیق دے۔ ورنہ مَیں نے تو ان لوگوں کوکبھی امیدگاہ نہیں بنایا۔ ہماری امیدگاہ تواللہ تعالیٰ ہی ہے اور وہی کافی ہے۔‘‘ (مجدد اعظم صفحہ 103)
بہرحال گورنمنٹ نے ملکہ بھوپال کی منت سماجت پر بالآخر نواب صاحب پرسے پابندیاں اٹھانے اور تمام خطابات واپس دینے کے احکام جاری کردیے مگر یہ احکام پہنچنے سے قبل ہی نواب صاحب بقضائے الٰہی 20؍فروری 1890ء کو مرض استسقاء سے فوت ہوگئے۔ اُن کی وفات کے بعد 12؍اگست 1890ء کولارڈ لینڈون وائسرائے نے مولوی صاحب کو مرحوم نواب صاحب لکھنے کی اجازت دے دی۔