حضرت مسیح موعود ؑ اور سر سید کا علم کلام – غیر از جماعت مصنفّین کا تجزیہ
ماہنامہ ’’انصار اللہ‘‘ ربوہ اگست2007ء میں مکرم مرزا خلیل احمد قمر صاحب کے قلم سے ایک مضمون شائع ہوا ہے جس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور سر سید احمد خان کے علم کلام کا تجزیہ غیرازجماعت علماء کی نظر سے پیش کیا گیا ہے۔
انیسویں صدی کے آغاز میں غیرمذاہب والے اُس زمانہ کے مسلمان علماء کی تفاسیر اور دیگر کتب کے ذریعے اسلام پر اعتراضات کرتے۔ بعض مسلمان علماء یہ دیکھ کر کڑھتے تو تھے مگر اعتراضات کو نہ سمجھنے کی وجہ سے جواب دینے سے قاصر تھے۔ نامور صحافی اور مصنف جناب عبد اللہ ملک لکھتے ہیں: ’’جس زمانہ میں مرزا غلام احمد دینی علوم کے حصول اور عبادت و ریاضت میں مصروف تھے وہ زمانہ ذہنی طور پر مسلمانوں اور اسلام کے لئے بڑا کرب کا زمانہ تھا۔ … اس دَور میں عیسائی پادریوں اور ان کی تبلیغ میں زبردست قسم کی جارحیت تھی اور انگریزی سرکار کے اہلکار کھلم کھلا ان پادریوں اور ان کے تبلیغی کارناموں کی سر پرستی فرماتے تھے۔ … اسی کرب کے دَور میں مرزا غلام احمد کی تحریک احمدیت نے جنم لیا۔ لطف یہ ہے کہ سر سید اور غلام احمد دونوں عیسائیت کی یلغار سے بہت بُری طرح متأثر ہوئے۔ اس کے خلاف مزاحمت کے طریقے ڈھونڈنے شروع کئے‘‘۔
ان حالات میں ایسا طبقہ منظر عام پر آیا جو جدید فلسفہ کو اپنانے میں اس قدر آگے بڑھ گیا کہ غیرمذاہب والے اسلام کے جس عقیدہ پر اعتراض کرتے یہ سرے سے ہی ان عقائد کا انکار کر دیتے اور ایسا معذرت خواہانہ رویہ اختیار کرتے کہ دین اسلام کا سارا حسن ختم ہو کر رہ جاتا۔ اس تاریک زمانہ میں حضرت مسیح موعودؑ نے غیرمذاہب کے گندے اور باطل اعتراضات کے پرخچے اڑا دئیے بلکہ آپؑ کے جارحانہ انداز سے اُن کو اپنے مذاہب کی صداقت ثابت کرنا مشکل ہوگیا۔ اور آپ کی وفات پر اخبارات و رسائل نے انہی دینی خدمات کی وجہ سے آپ کو فتح نصیب جرنیل قرار دیا۔
اس زمانہ میں اسلام کی پسماندگی دور کرنے کے لئے سرسید احمد خانصاحب بھی آگے آئے۔ انہوں نے مسلمانان ہند کی سیاسی، اقتصادی اور تعلیمی ترقی کے لئے نمایاں خدمات سر انجام دیں۔ لیکن اُن کا طرز فکر معذرت خواہانہ تھا۔ آپ برہمو سماج کی کامیابی سے متأثر تھے جو وحی و الہام، معجزات، جنت و دوزخ اور قبولیت دعا سے انکار کرتے تھے اور ان کا خیال تھا کہ الہامی کتب غلطیوں سے پاک نہیں ہیں۔ سر سید نے ان سے متأثرہ عقائد کو اختیار کیا اور ان کی تعلیمی پالیسی کو بھی اپنایا۔ عیسائیوں کے ساتھ بھی آپ کا رویہ مصلحت آمیز تھا۔ انگریزوں سے میل جول رکھنے کی خاطر رسالہ تحریر کیا۔ توریت اور انجیل کو اسلام کی تعلیمات کے مطابق ثابت کرنے کے لئے تفسیر لکھی۔ آریہ سماج کے ساتھ بھی آپ کے تعلقات نہایت اچھے تھے۔
حضرت مسیح موعودؑ کا سر سید احمد خاں سے پہلا رابطہ 1864ء تا 1868ء میں ہوا جب حضورؑ بسلسلہ ملازمت سیالکوٹ تشریف فرما تھے۔ آپؑ نے سر سید کو ایک عربی خط تحریر فرمایا جس میں اُن کی انجیل کی تفسیر سے متعلق کچھ امور بیان کئے۔ بعد ازاں سر سید نے 1877ء میں قرآن کی تفسیر شروع کی جس کے چند صفحات حضورؑ نے دیکھے لیکن پسند نہ فرمائے۔ حضورؑ نے ’’براہین احمدیہ‘‘ میں جہاں برہموسماج کے دس وساوس کاردّ فرمایا ہے وہاں ہی سرسید کے نیچری خیالات کا بھی ردّ فرمایا ہے۔ تاہم حضورؑ سر سید کی تعلیمی اور سیاسی خدمات کے معترف تھے مگر ان کے مذہبی خیالات اور اسلام کو مغربی فلسفہ کے مطابق ثابت کرنے کے سخت خلاف تھے۔ آپؑ نے 1882ء میں سرسید سمیت دنیا بھر کے مذہبی راہنماؤں کو قادیان آکر نشان دیکھنے کی دعوت دی۔ پیشگوئی 20؍ فروری 1886ء میں بھی سرسید کا ذکر فرمایا۔
حضرت اقدس نے ’’آئینہ کمالات اسلام‘‘ میں سر سید کو مخاطب کرکے اُن کی مذہبی غلطیوں کی نشان دہی کی اور اِس زمانہ میں الہام، وحی، معجزات، ملائکہ کا ثبوت دینے کے لئے اپنے آپ کو پیش فرمایا۔ پھر سر سید کے دعا کے بارہ میں خیالات کا جواب حضرت مولانا نورالدین صاحبؓ (جن کے سر سید سے قریبی تعلقات تھے) کی تحریک پر ’’برکات الدعا‘‘ کے نام سے تحریر فرمایا۔ پھر اتمام حجت کے لئے 12 مارچ 1897ء کو ایک اشتہار بھی شائع فرمایا۔ حضورؑ نے ’’سراج منیر‘‘ میں بھی سر سید پر اتمام حجت فرمائی۔ حضور ؑ نے مقدمہ اقدام قتل میں سرسید کو اپنی طرف سے صفائی کا گواہ لکھوایا۔ پھر ’’کشف الغطاء‘‘ میں سر سید کے بارہ میں اپنے خیالات تفصیل سے بیان فرمائے۔
سر سید کی طرف سے اسلام کے دفاع کی کوششوں کے بارہ میں جناب عبداللہ ملک لکھتے ہیں: ’’سر سید نے جدید علم الکلام کی بنیاد ڈالی جس کے متعلق انہوں نے ایک مفصل تقریر میں کہا تھا کہ اس زمانہ میں ایک جدید علم کلام کی حاجت ہے جس سے یا تو ہم علوم جدید کے مسائل کو باطل کر دیںیا مشتبہ ٹھہرادیں یا اسلامی مسائل کو ان سے مطابق کر دکھائیں‘‘۔
مزید لکھا کہ ’’(اپنی ) تفسیر میں سرسید نے قرآن کے تمام اندراجات کو عقل اور سائنس کے مطابق ثابت کیا ہے اور جہاں کہیں سائنس کی معلومات اور کلام مجید کے درمیان اختلاف معلوم ہوتا ہے وہاں معتزلہ طریقے کے مطابق آیات کی نئی تاویل اور تشریح کرکے اس اختلاف کو (اپنی دانست میں ) دُور کیا ہے۔ سر سید نے معراج، شق صدر کو رؤیا کا فعل مانا ہے۔ حساب، کتاب، میزان، جنت دوزخ کے متعلق تمام قرآنی ارشادات کو بطریق مجاز و استعارہ و تمثیل قرار دیا ہے۔ ابلیس اور ملائکہ سے کوئی خارجی وجود مراد نہیں لیا۔ حضرت عیسیٰ کے متعلق کہا ہے کہ قرآن مجید کی کسی آیت سے ثابت نہیں ہوتا کہ بن باپ پیدا ہوئے۔…‘‘۔
مولانا الطاف حسین حالی نے سرسید کی سوانح اور خدمات پر ’’حیات جاوید‘‘ کے نام سے ایک ضخیم کتاب تصنیف کی جس میں سر سید کا ہر طرح دفاع کرنے کے باوجود وہ لکھتے ہیں: ’’اگرچہ سر سید نے اس تفسیر میں جابجا ٹھوکریں کھائیں اور بعض مقامات پر ان سے رکیک لغزشیں ہوئی ہیں‘‘۔ مزید لکھا:’’اس بات سے انکار نہیں ہوسکتا کہ آخری عمر میں سر سید کی خودرائی یا جو وثوق کہ ان کو اپنی رایوں پر تھا وہ حد اعتدال سے متجاوز ہوگیا تھا۔ بعض قرآنی آیات کے وہ ایسے معنی بیان کرتے تھے کہ جن کو سن کر تعجب ہوتا تھا کہ کیونکر ایسا عالی دماغ آدمی ان کمزور اور بودی تاویلوں کو صحیح سمجھتا ہے۔ ہر چند کہ ان کے دوست ان تاویلوں پر ہنستے تھے مگر وہ کسی طرح اپنی رائے سے رجوع نہ کرتے تھے‘‘۔
سر سید کے علم الکلام کی ناکامی کے بارہ میں معروف سکالر اور کئی کتب کے مصنف جناب شیخ محمد اکرام لکھتے ہیں: ’’یہ نہیں کہا جاسکتا کہ ان کے علم کلام نے تعلیم یافتہ طبقے یا ارباب کے شک و الحاد کو ایمان کی دولت بہم پہنچائی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ کسی فرد یا کسی قوم کی ترقی کے لئے جزوی عقائد یا مسائل کو سائنس کے مطابق ناقابلِ اعتراض ثابت کرنے کی اتنی ضرورت نہیں ہوتی جتنی ایمان بالغیب و یقین کامل اور ان اخلاقی اور روحانی خوبیوں کی جو مذہب حقہ کا عطیہ ہیں‘‘۔
گورنمنٹ کالج لاہور کے پروفیسر اور کئی کتب کے مصنف قاضی جاوید سر سید کے علم کلام کے بارہ میں لکھتے ہیں: ’’انہیں اسلام کی نئی توجیہہ پیش کرنا پڑی۔ مذہب کی روایتی صورت کے لئے فطریت کو تباہ کن خطرہ تصور کرتے ہوئے اس امر کی کوشش کی گئی کہ فطریت اور اسلام میں ہم آہنگی پیدا کی جائے۔ ظاہر ہے کہ روایتی مسلّمہ الٰہیات اس معیار پر پورا نہیں اترسکتی تھیں۔ لہٰذا فقہا اور تقلید پرستوں کی آراء کو حرف آخر سمجھنے سے انکارکیا گیا۔ اس سلسلے میں زیادہ تر مدد اس تصور سے لی گئی کہ قرآن کریم کی زبان تمثیلی اور علاماتی ہے اس طرح گویا قرآنی تعلیمات کی من مانی توجیہات کا جواز تلاش کیا گیا‘‘۔
جناب پروفیر کرار حسین لکھتے ہیں: ’’سر سید احمد خاں نے تو مغربی زندگی کو انسانی تہذیب کا اعلیٰ ترین نمونہ (میں اسوہ حسنہ کہنے والا تھا) سمجھ کر جہاں کہیں کسی … عقیدہ اور رسم کو مغربی عقلیت سے ٹکراتے ہوئے دیکھا تو نہایت دیانتداری سے وہیں اس کی کوئی توجیہہ یا تاویل یا معذرت کر دی جس سے ذہن پر مرعوبیت کے نقوش گہرے ہونے کے علاوہ اسلام کی شکل ایک مسخرہ کا لبادہ ہوتے ہوتے رہ گئی‘‘۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے 28دسمبر 1897ء کے جلسہ سالانہ پر اسلام پر فلسفہ کے اعتراض اور علوم جدیدہ کے دلدادوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: ’’آج کل اعتراضوں کی بنیاد طبعی اور طبابت اور ہیئت کے مسائل کی بناء پر ہے اس لئے لازم ہوا کہ ان علوم کی ماہیت اور کیفیت سے آگاہی حاصل کریں تاکہ جواب دینے سے پہلے اعتراض کی حقیقت تو ہم پر کھل جائے۔ میں ان مولویوں کو غلطی پر جانتا ہوں جو علوم جدیدہ کی تعلیم کے مخالف ہیں وہ دراصل اپنی غلطی اور کمزوری کو چھپانے کے لئے ایسا کرتے ہیں۔ ان کے ذہن میں یہ بات سمائی ہوئی ہے کہ علوم جدیدہ کی تحقیقات اسلام سے بدظن اور گمراہ کردیتی ہے اور یہ قرار دئیے بیٹھے ہیں کہ گویا عقل اور سائنس اسلام سے بالکل متضاد چیزیں ہیں۔ چونکہ خود فلسفہ کی کمزوریوں کو ظاہر کرنے کی طاقت نہیں رکھتے اس لئے اپنی اس کمزوری کو چھپانے کے لئے یہ بات تراشتے ہیں کہ علوم جدیدہ کا پڑھنا ہی جائز نہیں۔ ان کی روح فلسفہ سے کانپتی ہے اور نئی تحقیقات کے سامنے سجدہ کرتی ہے۔ مگر وہ سچا فلسفہ ان کو نہیں ملا جو الہام الٰہی سے پیدا ہوتا ہے جو قرآن کریم میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے۔ وہ ان کو اور صرف انہیں کو دیا جاتا ہے جو نہایت تذلل اور نیستی سے اپنے تئیں خدا تعالیٰ کے دروازہ پر پھینک دیتے ہیں۔ … لیکن مجھے یہ تجربہ ہے جو بطور انتباہ میں بیان کر دینا چاہتا ہوںکہ جولوگ ان علوم ہی میں یک طرفہ پڑگئے اور ایسے محو اور منہمک ہوئے کہ کسی اہل دل اور اہل ذکر کے پاس بیٹھنے کا ان کو موقعہ نہ ملا اور خود اپنے اندر الٰہی نور نہ رکھتے تھے وہ عموماً ٹھوکر کھاگئے اور اسلام سے دور جاپڑے اور بجائے اس کے کہ ان علوم کو اسلام کے تابع کرتے الٹا اسلام کو علوم کے ماتحت کرنے کی بے سود کوشش کر کے اپنے زعم میں دینی اور قومی خدمات کے متکفل بن گئے۔ مگر یاد رکھو کہ یہ کام وہی کرسکتا ہے یعنی دینی خدمت بجالاسکتا ہے جو آسمانی روشنی اپنے اندر رکھتا ہو‘‘۔ (ملفوظات جلد اوّل صفحہ 43-44)
سر سید کے مقابلہ میں حضرت مسیح موعودؑ کے علم کلام کی برتری اور فوقیت اور ہمہ گیر اثر کا ذکر کرتے ہوئے جناب عبداللہ ملک رقمطراز ہیں: ’’اس علم الکلام نے سر سید کے پیروکاروں میں ایک گونہ تلخی پیدا کر دی تھی۔ کیونکہ ایک طرف وہ ان تعلیمات کو سچا بھی جانتے تھے، ان کی ضرورتوں کا بھی ان کو پورا پورا احساس تھا دوسری طرف وہ روایتی مذہب پر بھی غیرشعوری طور پر دل و جان سے فریفتہ تھے۔ چنانچہ سچ یہ ہے کہ اس دَور میں جن لوگوں کو سر سید نے متأثر کیا ساتھ ہی ان کو اپنی تعلیمات سے ایک گونہ آزردہ بھی کیا۔ان ہی آزردہ دلوں کو بہت حد تک مرزا غلام احمد نے اپنے طور طریقوں سے سمیٹا۔ سرسید نے عقل کی بنیاد پر قرآنی آیات اور مذہبی تعلیمات و عبادات کی جتنی توجیہات اور تاویلات کی تھیں مرزا غلام احمد نے ان کے پرخچے اڑا دئیے۔ سر سید نے رسول خدا کے معجزات کو رؤیا کا فعل بتا کر تاویل کرنے کی کوشش لیکن مرزا غلام احمد نے ان معجزات کو عقل اور دلائل کی بنیاد پر درست ثابت کیا۔ (اس کے بعد ’’آئینہ کمالات اسلام‘‘ سے وہ عبارت نقل کی گئی ہے جس میں آنحضرتﷺ کے کئی عظیم الشان معجزات کا ذکر کیا گیا ہے۔ پھر لکھا کہ 🙂 ان تمام سرگرمیوں نے مرزا غلام احمد کو اپنے متشدد پیروکاروں کا ایک مضبوط اور مؤثر حلقہ پیدا کرنے میں مدد دی۔ چنانچہ آریہ سماج کے خلاف مرزا غلام احمد نے جو تصنیف و تالیف کی، جو مناظرے اور مباحثے ترتیب دئیے ان سبھی اقدام نے پڑھے لکھے مسلمانوں کو متأثر کیا…۔ چنانچہ اس محاذ پر بھی مرزا غلام احمد نے ہی ان مسلمانوں کی تشفی کی‘‘۔
پروفیسر قاضی جاوید صاحب جماعت احمدیہ کے بلند نصب العین کے بارہ میں لکھتے ہیں: ’’اس جارحانہ اور نو آبادیاتی نظام دشمن عنصر کی موجودگی نے احمدی تحریک کو علی گڑھ تحریک سے زیادہ مثبت بنا دیا۔ علی گڑھ تحریک میں اسلام کا دفاع کرنے کا رویہ غالب ہے جبکہ احمدی تحریک میں اس رویے کے ساتھ اسلام کو دنیا کا غالب مذہب بنانے کا شدید جوش و ولولہ بھی موجود ہے احمدیہ تحریک کی تبلیغی سرگرمیاں بھی اس عنصر کی موجودگی پر دلالت کرتی ہیں‘‘۔
سید حبیب ایڈیٹر روزنامہ ’’سیاست‘‘ لاہور نے جماعت احمدیہ کے خلاف ضخیم کتاب بعنوان ’’تحریک قادیان‘‘ شائع کی لیکن حضور علیہ السلام کی سرسید کے مقابلہ میں برتری کو تسلیم کئے بغیر نہیں رہ سکے۔ چنانچہ لکھا: ’’مسلمانوں کے بہکانے کے لئے عیسائیوں نے دین حقہ اسلامیہ اور اس کے بانی صلعم پر بے پناہ حملے شروع کر دئیے جن کا جواب دینے والا کوئی نہ تھا۔ آخر زمانہ نے تین آدمی ان کے مقابلہ کے لئے پیدا کئے۔ ہندوؤں میں سوامی شری دیانند جی مہاراج نے جنم لے کر آریہ دھرم کی بنیاد ڈالی اور عیسائی حملہ آوروں کا مقابلہ شروع کیا۔ مسلمانوں میں سر سید علیہ الرحمۃ نے سپر سنبھالی اور ان کے بعد مرزا غلام احمد صاحب اس میدان میں اترے۔ مذہبی حملوں کے جواب دینے میں البتہ سر سید کامیاب نہیں ہوئے اس لئے انہوں نے ہر معجزہ سے انکار کیا اور ہر مسئلہ کو بزعم خود عقل انسانی کے مطابق ثابت کرنے کی کوشش کی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ہندوستان میں بچے کھچے جو علماء بھی موجود تھے ان میں اور سر سید میں ٹھن گئی۔ کفر کے فتوے شائع ہوئے اور بہت غلاظت اچھلی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ مسیحی پروپیگنڈا زور پکڑ گیا اور علی گڑھ مسلمانوں کی بجائے ایک قسم کے ملحد پیدا کرنے لگا۔ یہ لوگ محض اتفاقِ پیدائش کی وجہ سے مسلمان ہوتے تھے ورنہ انہیں اسلام پر کوئی اعتقاد نہ ہوتا تھا۔ اس وقت کے آریہ اور مسیحی مبلغ اسلام پر بے پناہ حملے کر رہے تھے۔ اِکے دُکے جو عالم دین بھی کہیں موجود تھے وہ ناموس شریعت حقہ کے تحفظ میں مصروف ہوگئے مگر کوئی کامیاب نہ ہوا۔ اس وقت مرزا غلام احمدصاحب میدان میں اترے اور انہوں نے مسیحی پادریوں اور آریہ پدیشکوں کے مقابلہ میں اسلام کی طرف سے سینہ سپر ہونے کا تہیہ کر لیا۔ مجھے یہ کہنے میں ذرا باک نہیں کہ مرزا صاحب نے اس فرض کو نہایت خوبی اور خوش اسلوبی سے ادا کیا۔ اور مخالفین اسلام کے دانت کھٹے کر دئیے۔ اسلام کے متعلق ان کے بعض مضامین لاجواب ہیں ‘‘۔
چند مزید آراء ان علماء کی پیش ہیں جو احمدی تو نہیں تھے مگر صداقت کے اظہار کی جرأت رکھتے تھے۔
٭ مولانا ابوالکلام آزاد نے لکھا: ’’اس مدافعت نے نہ صرف عیسائیت کے اس ابتدائی اثر کے پرخچے اڑائے جو سلطنت کے سایہ میں ہونے کی وجہ سے حقیقت میں اس کی جان تھا۔ اور ہزاروں لاکھوں مسلمان اس کے اس زیادہ خطرناک اور مستحق کامیابی حملہ کی زد سے بچ گئے بلکہ خود عیسائیت کا طلسم دھواں ہوکر اڑنے لگا۔ غرض مرزا صاحب کی یہ خدمت آنے والی نسلوں کو گرانبار احسان رکھے گی کہ انہوں نے قلمی جہاد کرنے والوں کی پہلی صف میں شامل ہو کر اسلام کی طرف سے فرض مدافعت ادا کیا اور ایسا لٹریچر یادگار چھوڑا جو اس وقت تک کہ مسلمانوں کی رگوں میں زندہ خون رہے گا اور حمایت اسلام کا جذبہ ان کے شعار قومی کا عنوان نظر آئے قائم رہے گا‘‘۔
٭ جناب مرزا حیرت دہلوی صاحب نے لکھا کہ: ’’مرحوم کی وہ اعلیٰ خدمات جو اس نے آریوں اور عیسائیوں کے مقابلہ میں اسلام کی کی ہیں وہ واقعی بہت ہی تعریف کے مستحق ہیں۔ اس نے مناظرے کا بالکل رنگ ہی بدل دیا اور ایک جدید لٹریچر کی بنیاد ہندوستان میں قائم کر دی۔ بحیثیت ایک مسلمان ہونے کے بلکہ بحیثیت ایک محقق ہونے کے ہم اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ کسی بڑے سے بڑے آریہ اور بڑے سے بڑے پادری کو یہ مجال نہ تھی کہ وہ مرحوم کے مقابلہ میں زبان کھول سکتا‘‘۔
٭ مولوی نور محمد نقشبندی نے لکھا: ’’اسی زمانہ میں پادری لیفرائے پادریوں کی ایک بہت بڑی جماعت لے کر اور حلف اٹھا کر ولایت سے چلا کہ تھوڑے عرصہ میں ہندوستان کو عیسائی بنالوں گا۔ ولایت کے انگریزوں سے روپیہ کی بہت بڑی مدد اور آئندہ کی مدد کے مسلسل وعدوں کا اقرار لے کر ہندوستان میں داخل ہو کر بڑا تلاطم برپا کیا۔ اسلام کی سیرت و احکام پر اس کا حملہ ہوا تو وہ ناکام ثابت ہوا کیونکہ احکام اسلام و سیرت رسول اور احکام انبیاء بنی اسرائیل اور ان کی سیرت جن پر اس کا ایمان تھا یکساں تھے پس الزامی و نقلی و عقلی جوابوں سے ہارگیا مگر حضرت عیسیٰ کے آسمان پر بجسم خاکی زندہ موجود ہونے اور دوسرے انبیاء کے زمین میں مدفون ہونے کا حملہ عوام کے لئے اس کے خیال میں کارگر ثابت ہوا تب مولوی غلام احمد قادیانی کھڑے ہوگئے اور لیفرائے اور اس کی جماعت سے کہا کہ عیسیٰ جس کا تم نام لیتے ہو دوسرے انسانوں کی طرح فوت ہو کر دفن ہوچکے ہیں اور جس عیسیٰ کے آنے کی خبر ہے وہ میں ہوں پس اگر تم سعادتمند ہو مجھ کو قبول کرلو اس ترکیب سے اس نے ہندوستان سے لے کر ولایت تک کے پادریوں کو شکست دے دی‘‘۔
٭ علامہ نیاز فتح پوری لکھتے ہیں: ’’مرزا غلام احمد صاحب نے اسلام کی مدافعت کی اور اس وقت جب کوئی بڑے سے بڑا عالم دین دشمنوں کے مقابلہ میں آنے کی جرأت نہ کر سکتا تھا‘‘۔
٭ سہ روزہ ’’ایشیا‘‘ کے مدیر جناب نصر اللہ خان عزیز صاحب نے اپنے ادارتی صفحہ میں بحث و نظر کے عنوان سے جماعت احمدیہ کے قیام اور فروغ کا تجزیہ ان الفاظ میں کیا: ’’… جب مسلمان چاروں طرف سے اس طرح گھرے ہوئے تھے تو ہر وہ شخص جس نے ان کے مذہب کی حفاظت و حمایت کا ادعا کیا مسلمانوں نے اس کو سر آنکھوں پر بٹھایا۔ چنانچہ سر سید احمد خاں مرحوم کو علمائے ہند کے مقابلہ میں تعلیم یافتہ مسلمانوں میں جو زیادہ محبوبیت حاصل ہوئی تو اس کی وجہ بھی یہ تھی کہ انہوں نے تشکیک کے ان کانٹوں کا ’’مداوا‘‘ مہیا کیا جو پادریوں اور پرچارکوں نے ان کے دلوں میں چبھودئیے تھے۔ ہر چند سر سید کا علم کلام اسلامی علوم کا بوجھ نہیں اٹھا سکتا تھا اور قرآن و سنت کی جو تعبیر وہ پیش کرتے تھے، وہ حقیقت سے بہت دور تھی لیکن چونکہ اس سے بعض لوگوں کے دلوں کے شکوک رفع ہوتے تھے اور اسلام کی حقانیت کے متعلق ان کے اضطراب کو سکون ملتا تھا۔ اس لئے وہ لوگ ان کے معتقد اور نیچری کہلانے پر فخر کرنے لگے۔ بالکل یہی کیفیت مرزا غلام احمد قادیانی کے معاملے میں پیش آئی۔ جب وہ اسلام کی حمایت کا علم لے کر اُٹھے اور انہوں نے اپنے مخصوص علم کلام سے غیر مسلموں کا مقابلہ کرنا شروع کیا تو مسلمانوں نے ان کو بھی ہاتھوں ہاتھ لیا۔ خصوصاً وہ جدید طبقہ جو مغربی علوم سے مرعوب ہو کر عیسائیت کی طرف راغب ہورہا تھا اور جسے سر سید کا علم کلام بھی بوجوہ مطمئن نہیں کر سکا تھا۔ اس نے جب یہ دیکھا کہ سر سید کی طرح اسلام کا کھلم کھلا انکار کرنے کی بجائے مرزا غلام احمد قادیانی قرآن ہی سے ان کے انکار کا مواد پیش کر رہے ہیں تو وہ ان کی طرف متوجہ ہوگیا۔ چنانچہ مرزا غلام احمد قادیانی کے زیادہ نمایاں ساتھیوں میں سے اکثر ایسے تھے کہ اگر وہ قادیان نہ جاتے تو عیسائی ہوجاتے۔ مولوی محمد علی ایم اے اور خواجہ کمال الدین اسی قسم کے لوگوں میں سے تھے‘‘۔
مزید لکھتے ہیں: ’’سرسید کے برعکس انہوں (مرزا غلام احمد) نے کسی چیز کا انکار نہیں کیا بلکہ اس کی اسلامی توجیہہ پیش کی۔ اس علم کلام کا نتیجہ یہ ہوا کہ مرزا صاحب کو مسلمانوں کی حمایت حاصل ہوگئی۔ مسلم علماء نے ان کی تردید اور مخالفت میں صرف بحث و مناظرہ کیا اور دلائل کا انبار لگایا۔ مگر یہ دلائل ان لوگوں کو کیا اپیل کرتے جو محسوس کرتے تھے کہ ان کے دلوں کی بہت سی بے اطمینانیوں سے ان کو نجات مل گئی تھی۔ … اور وہ علماء کی مخالفتوں کو اس وجہ سے نظرانداز کر گئے کہ علماء ان کے عقلی اور سیاسی اضطراب کو دور نہ کر سکتے تھے‘‘۔
٭ ڈاکٹر اسرار احمد نے ایک TVپروگرام میں حضرت مرزا غلام احمد قادیانی کی ہندوؤں آریوں اور عیسائیوں وغیرہ کے مقابل پر اسلام کے دفاع کی شاندار خدمات کا ذکر کرتے ہوئے کہا ’’مرزا صاحب تو اس وقت کے علماء کی آنکھ کا تارا بن گئے تھے‘‘۔
الغرض حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جو زبردست علم کلام پیدا فرمایا، اس کی برتری کا اعتراف اپنوں کو ہی نہیں بلکہ غیروں کو بھی ہے۔