حضرت مسیح موعود ؑ کی پاکیزہ نمازیں
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 17، 18 ، 20 اور 24 ؍مارچ 2004ء میں مکرم عبدالسمیع خان صاحب کا ایک مضمون شامل اشاعت ہے جس میں حضرت اقدس مسیح موعودؑ کی خشوع و خضوع سے بھرپور نمازوں کی تصویرکشی کی کوشش کی گئی ہے۔
حضرت میر محمد اسماعیل صاحبؓ بیان کرتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود ؑ ارکان دین میں سب سے زیادہ زور نماز پر دیتے کہ نمازیں سنوار کر پڑھا کرو۔
چنانچہ حضورؑ نے پہلے خود اس معیار کو عمدگی اور بلندی سے حاصل کیا۔ آپؑ کی ابتدائی زندگی پر نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کی دلچسپیوں کا واحد محور اور مرکز نماز تھا۔ مسجد سے آپؑ کو فطری لگاؤ تھا اور زندگی اُس حدیث کے مطابق تھی کہ قیامت کے دن سات آدمی سایۂ رحمت الٰہی کے نیچے ہوں گے ان میں سے ایک وہ ہوگا جس کا دل خانہ خدا سے اٹکا رہتا ہے۔ جب آپ کی عمر نہایت چھوٹی تھی تو اس وقت آپ اپنی ہم سن لڑکی سے ( جو بعد کو آپ سے بیاہی گئی) فرمایا کرتے تھے کہ دعا کر کہ خدا میرے نماز نصیب کرے۔
حضرت مسیح موعود ؑ ایک مقام پر فرماتے ہیں کہ اوائل ہی سے مسجد میرا مکان، صالحین میرے بھائی، یاد الٰہی میری دولت ہے اور مخلوق خدا میرا عیال اور خاندان ہے۔
جب کوئی بڑا افسر یا رئیس حضورؑ کے والد مرزا غلام مرتضیٰ صاحب سے ملنے کے لئے آتا تھا تو پوچھتا کہ آپ کے بڑے لڑکے کے ساتھ تو ملاقات ہوتی رہتی ہے۔ لیکن آپ کے چھوٹے بیٹے کو کبھی نہیں دیکھا۔ وہ جواب دیتے کہ میرا وہ بیٹا مسیتڑ ہے۔ نہ نوکری کرتا ہے نہ کماتا ہے۔ اور پھر وہ ہنس کر کہتے کہ چلو اسے کسی مسجد میں مقرر کروا دیتا ہوں، دس من دانے تو گھر کھانے کو آجایا کریں گے۔
1876ء کے زمانہ کے متعلق پنڈت دیوی رام کی شہادت ہے کہ آپؑ ہندو اور عیسائی مذاہب کی کتب اور اخبارات کا مطالعہ فرماتے رہتے تھے۔ مسجد کے حجرہ میں رہتے تھے۔
پچیس تیس سال کی عمر میں آپؑ پانچ وقت نماز اور روزہ کے عادی تھے۔ اس دَور میں حافظ معین الدین کے خرچ کے اس لئے متکفل ہو گئے کہ انہیں اپنے ساتھ رکھ کر نماز باجماعت ادا کر لیا کریں گے۔ حافظ صاحبؓ چودہ پندرہ برس کے تھے اور نہایت سقیم حالت میں تھے۔ حضرت مسیح موعود ؑ اُن کو اپنے ساتھ لے گئے، کھانا کھلایا اور پھر کہا کہ حافظ تو میرے پاس رہا کر۔ حافظ صاحب کے لئے یہ دعوت غیر متوقع تھی۔ وہ بڑی شکر گزاری سے آپؑ کی خدمت میں رہنے کیلئے آمادہ ہو گئے اور اس نے کہا کہ مرزا جی! مجھ سے کوئی کام تو ہو نہیں سکے گا۔ آپ ؑ نے فرمایا کہ حافظ ! کام تم نے کیا کرنا ہے۔ اکٹھے نماز پڑھ لیا کریں گے اور تُو قرآن شریف یاد کیا کر۔
حضورؑ کی سیرو تفریح بھی مسجد سے وابستہ تھی۔ عموماً مسجد میں ہی ٹہلتے رہتے۔
مرزا دین محمد صاحب آف لنگر وال کی چشمدید شہادت ہے کہ قریباً 1872ء میں مَیں حضرت مرزا غلام مرتضیٰ صاحب کے گھر بوجہ رشتہ داری آتا جاتا تھا۔ مگر آپؑ کی گوشہ نشینی کی وجہ سے میں یہی سمجھتا تھا کہ اُن کا ایک ہی لڑکا غلام قادر ہے۔ مگر مسجد میں مَیں حضورؑ کو بھی دیکھتا تھا۔ پھر مجھے آپ سے انس ہوگیا اور آپ کے پاس آنے لگا۔ آپ مسجد میں فرض نماز ادا کرتے، سنتیں اور نوافل مکان پر ہی ادا کرتے تھے عشاء کی نماز کے بعد سوجاتے اور نصف رات کے بعد تہجد نفل ادا کرتے۔اس کے بعد مٹی کا دیا جلاتے اور تلاوت فجر کی اذان تک کرتے۔ جس چھوٹے سے کمرہ میں آپؑ کی رہائش تھی اس میں ایک چارپائی اور ایک تخت پوش تھا۔ چارپائی تو آپ نے مجھے دی ہوئی تھی اور خود تخت پوش پر سوتے تھے۔ فجر کی اذان کے وقت پانی کے ہلکے ہلکے چھینٹوں سے مجھے جگاتے تھے۔ یہی رسول کریمﷺ کا طریق تھا۔ نمازفجر کے بعد آپ واپس آکر کچھ عرصہ سو جاتے تھے کیونکہ رات کا اکثر حصہ عبادت الٰہی میں گذرتا تھا۔
حضرت میر ناصر نواب صاحب اپنی اہلیہ کے علاج کی غرض سے 1876کے اوائل میں قادیان آئے اور حضرت اقدس ؑ کے والد سے علاج کراتے رہے۔ 1877ء میں حضرت میر صاحب کی حضرت مسیح موعود ؑ سے پہلی ملاقات ہوئی تھی جب آپؑ ’’براہین احمدیہ ‘‘ لکھ رہے تھے۔ابتدائی ملاقات ہی سے دل پر حضرت مسیح موعود ؑ کی تقویٰ شعاری ، عبادت، ریاضت اور گوشہ گزینی نقش ہو گئی جس کا گھر میں کبھی کبھی اظہار کرتے ہوئے کہا کرتے تھے کہ ’’مرزا غلام قادر کا چھوٹا بھائی بہت نیک اور متقی ہے‘‘۔ حضرت میرصاحب کو آپؑ کے ساتھ اکثر نماز پڑھنے کا موقع ملتا اور وہ نماز کے بعد حضور ؑ سے علمی اور فقہی مسائل پر بھی مذاکرہ کیا کرتے تھے۔
نماز کا بڑا گہرا تعلق ظاہری و باطنی پاکیزگی سے ہے۔ چنانچہ حضرت مسیح موعود ؑ کے معمولات اور عادت میں یہ بات داخل تھی کہ آپ ہمیشہ حتیٰ کہ سفر میں بھی باوضو رہتے۔ ابتداء میں خود ہی اذان دیا کرتے اور خود ہی نماز میں امام ہوا کرتے تھے۔ نمازوں کے اوقات کی پابندی کا آپؑ پورا خیال رکھتے تھے۔ پانچوں وقت کی نماز کے واسطے مسجد میں تشریف لاتے تھے مگر وضو ہمیشہ گھر میں کر کے جاتے تھے۔ حضرت پیر سراج الحق صاحب نعمانی تحریر فرماتے ہیں: میں آپ کی خدمت میں تین مہینے تک رہا۔ اس زمانہ میں حضرت اقدس ؑ سخت بیمار تھے اور نماز باجماعت کا اس حالت اورضعف میں بھی نہایت التزام رکھتے تھے۔
حضرت مسیح موعود ؑ کو دعویٰ سے قبل اور بعد میں بھی بارہا مختلف مصالح کیلئے سفر کرنے پڑے مگر ان میں بھی آپ نماز کا بھر پور اہتمام کرتے۔ آپ ؑ کے ملازم غفار کا کام اتنا ہی تھا کہ جب آپ مقدمات کے لئے سفر کرتے تو وہ ساتھ ہوتااور لوٹا اور مصلّٰی اس کے پاس ہوتا۔ ان دنوں آپ کا معمول یہ تھا کہ رات کو بہت کم سوتے، اکثر حصہ جاگتے اور رات بھر نہایت رقت آمیز لہجہ میں گنگناتے رہتے۔
ایک دفعہ ایک مقدمہ میں جب کہ حضورؑ کمرہ عدالت میں بہ سبب سماعت تشریف فرما تھے تو نماز ظہر کا وقت گزر گیا اور نماز عصر کا وقت بھی تنگ ہوگیا۔ تب حضور نے عدالت سے نماز پڑھنے کی اجازت چاہی اور باہر بر آمدہ میں اکیلے ہی ہر دو نمازیں جمع کر کے پڑھیں۔
حضورؑ کو مقدمات کیلئے کئی سفر کرنے پڑے مگر مقدمات خواہ کتنے پیچیدہ، اہم اور آپؑ کی ذات یا خاندان کیلئے دُوررس نتائج کے حامل ہوتے آپ نماز کی ادائیگی کو ہر صورت میں مقدم رکھتے تھے۔ چنانچہ آپؑ نے ان مقدمات کے دوران میں کبھی کوئی نماز قضاء نہیں ہونے دی۔ بسااوقات آپ خدا تعالیٰ کے حضور کھڑے عجزونیاز کر رہے ہوتے اور مقدمہ میں طلبی ہو جاتی مگر آپ کے استغراق ، توکل علی اللہ اور حضور قلب کا یہ عالم تھا کہ جب تک مولائے حقیقی کے آستانہ پر جی بھر کر الحاح وزاری نہ کر لیتے اس کے دربار سے واپسی کا خیال تک نہ لاتے۔ چنانچہ خود فرماتے ہیں:
’’میں بٹالہ ایک مقدمہ کی پیروی کیلئے گیا۔ نماز کا وقت ہو گیا اور میں نماز پڑھنے لگا۔ چپڑاسی نے آواز دی مگر میںنماز میں تھا۔ فریق ثانی نے یک طرفہ کارروائی سے فائدہ اٹھانا چاہا مگر عدالت نے پرواہ نہ کی اور مقدمہ اس کے خلاف کر دیا۔ میں جب نماز سے فارغ ہوا تو مجھے خیال تھا کہ شاید حاکم نے قانونی طور پر میری غیرحاضری کو دیکھا ہو۔ مگر جب میں حاضر ہوا اور میں نے کہا کہ میں تو نماز پڑھ رہا تھا تو اس نے کہا میں تو آپ کو ڈگری دے چکا ہوں۔‘‘
سر جیمزولسن فنانشل کمشنر پنجاب ایک روزہ دورہ پر 21 مارچ 1908ء کو قادیان آئے۔ ان کے ہمراہ ڈپٹی کمشنر ضلع گورداسپور اور دیگر اعلیٰ افسران بھی تھے۔ اثنائے گفتگو میں فنانشل کمشنر صاحب نے حضرت مسیح موعود ؑ سے ملاقات کیلئے خواہش کا اظہار کیا تو حضورؑ اپنے بعض خدام کے ساتھ شام کو اُن سے ملنے تشریف لے گئے۔ فنانشل کمشنر صاحب نہایت اخلاق واکرام سے احتراماً آگے آئے اور اپنے خیمہ کے دروازہ پر حضور ؑ کا استقبال کیا۔ حضرت اقدس ؑ نے پونے تین گھنٹہ تک دین اسلام کی خوبیوں اور اپنے سلسلہ کے اغراض و مقاصد پر گفتگو فرمائی اور آخر میں فرمایا کہ آپ دنیاوی حاکم ہیں خدا نے ہمیں دین کیلئے روحانی حاکم بنایا ہے۔ جس طرح آپ کے وقت کاموں کے مقرر ہیں اسی طرح ہمارے بھی کام مقرر ہیں اب ہماری نماز کا وقت ہو گیا ہے۔ چنانچہ حضورؑ کھڑے ہو گئے تو فنانشل کمشنر بھی کھڑے ہو گئے اور خیمہ تک باہر آئے اور ٹوپی اتارکر سلام کیا۔
اکثر حضورؑ نے دوسروں کو نماز پڑھانے کا ارشاد فرمایا لیکن کبھی کبھار خود بھی نماز پڑھائی۔ حضورؑ کی آواز میں بہت درد ہوتا تھا کہ لوگوں کی چیخیں نکل جاتیں۔ جو نماز آپ لوگوں کے سامنے پڑھتے تھے اس کو چنداں لمبا نہ کرتے تھے۔ البتہ نماز جنازہ ہمیشہ خود پڑھاتے اور بہت لمبی کرتے۔
حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ بیان فرماتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود ؑ لوگوں پر اپنے جذبات کو کبھی ظاہر نہ ہونے دیتے تھے۔ میں نے کبھی نہیں دیکھا کہ آپ نماز باجماعت میں یا لوگوں کے سامنے کسی نماز میں اپنے خشوع وخضوع کو اس حد تک ظاہر کریں کہ آپ کے آنسو ٹپکنے لگیں یا آپ گریہ کی آواز سنائی دے۔ حضرت مسیح موعود ؑ نماز میں جلدی نہ کرتے تھے بلکہ سکون کے ساتھ آہستگی سے رکوع اور سجدے میں جاتے اور آہستگی کے ساتھ اٹھتے تھے۔ وفات سے دوتین سال قبل جب کہ حضور ؑ نماز مغرب وعشاء کے واسطے باہر مسجد میں تشریف نہ لاسکتے، گھر کے اندر عورتوں اور اولاد کو جمع کر کے نماز پڑھاتے اور مغرب وعشاء جمع کی جاتی۔
نماز تہجد کے واسطے آپؑ بہت پابندی سے اٹھا کرتے ۔ فرمایا کرتے کہ تہجد کے معنے ہیں: سوکر اٹھنا، جب ایک دفعہ آدمی سوجائے اور پھر نماز کے واسطے اٹھے تو وہی اس کا وقت تہجد ہے۔ عموماً آپ تہجد کے بعد سوتے نہ تھے۔ صبح کی نمازتک برابر جاگتے رہتے۔
کئی صحابہؓ کا بیان ہے کہ اگر ہم حضورؑ کے پاس بھی سو رہے ہوتے تو حضورؑ کے تہجد کے لئے اٹھنے کی خبر نہ پاتے بلکہ حضورؑ کی آواز جب نماز میں کبھی بلند ہوتی تو ہماری آنکھ کھلتی یا پھر حضورؑ ہمیں نماز کے لئے جگادیتے۔ حضرت اماں جان بیان فرماتی ہیں کہ حضرت مسیح موعود ؑ نماز پنجوقتہ کے سوا عام طور پر دو قسم کے نوافل پڑھا کرتے تھے۔ ایک نماز اشراق (دو یا چار رکعت) جو آپ کبھی کبھی پڑھتے تھے اور دوسرے نماز تہجد (آٹھ رکعت) جو آپ ہمیشہ پڑھتے تھے سوائے اس کے کہ زیادہ بیمار ہوں۔
حضورؑ نے گرہن لگنے پر نماز کسوف و خسوف اور بارش کے لئے نماز استسقاء بھی ادا فرمائی۔ سفر سے پہلے آپ دو نفل پڑھ لیتے تھے۔
حضورؑ نماز تہجد کے علاوہ دن کے وقت بھی بیت الدعاء کو بند کر کے دو گھنٹہ کے قریب بالکل علیحدگی میں مصروف عبادت رہا کرتے تھے۔ ایام سفر میں بھی آپ کے واسطے کوئی چھوٹا سا کمرہ خلوت کے واسطے بالکل الگ کر دیا جاتا۔ ابتدائی زمانہ میں عموماً تلاش خلوت میں باہر جنگل میں چلے جایا کرتے اور علیحدگی میں بیٹھ کر عبادت الٰہی کرتے۔
سیالکوٹ میں قیام کے دوران کچہری سے واپس آکر دروازہ بند کرکے قرآن پڑھتے رہتے۔ بعض وقت سجدہ میں گر جاتے اور لمبے لمبے سجدے کرتے اور یہاں تک روتے کہ زمین تر ہوجاتی۔
حضرت مولانا غلام رسول صاحب راجیکیؓ فرماتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود ؑ کے زمانہ حیات میں جو بات بار بار میرے تجربہ میں آئی یہ تھی کہ دعا کرنے اور نماز پڑھنے کی سمجھ اور لذت ان نمازوں کے ذریعہ آئی جو حضوراقدس ؑ کی معیت میں پڑھی گئیں۔ علاوہ اس کے دعا کرنے پر جواب بھی فوراً مل جاتا۔
حضرت حافظ حامد علی صاحبؓ کا بیان ہے کہ ’’تہجد کے وقت گاہے گاہے جب آپ کی آواز خشوع و خضوع کے سبب سے بے اختیار بلند ہوتی مجھے خبر ہو جاتی … سجدہ کو بہت لمبا کرتے۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ اس گریہ وزاری میں آپ پگھل کر بہہ جائیں گے۔‘‘
حضرت مسیح موعود ؑآمین بالجہر نہ کرتے تھے، رفع یدین نہ کرتے تھے، بسم اللہ بالجہر نہ پڑھتے تھے لیکن ایسا کرنے والوں کو روکتے بھی نہ تھے۔ ہاتھ سینے پر باندھتے تھے لیکن نیچے باندھنے والوں کو نہ روکتے تھے۔ حضرت مولوی عبد الکریم صاحبؓ ہمیشہ بسم اللہ اور آمین بالجہر کرتے اور گاہے گاہے رفع یدین کرتے تھے۔ حضرت مسیح موعود ؑ کی مسجد میں ان امور کو موجب اختلاف نہ گردانا جاتا تھا۔ تاہم حضورؑ اس بات پر زور دیتے تھے کہ مقتدی کو امام کے پیچھے بھی سورۃ فاتحہ پڑھنی ضروری ہے لیکن میں یہ نہیں کہتا کہ جو شخص سورۃ فاتحہ نہیں پڑھتا اس کی نماز نہیں ہوتی کیونکہ بہت سے بزرگ اور اولیاء اللہ ایسے گزرے ہیں جو سورۃ فاتحہ کی تلاوت ضروری نہیں سمجھتے تھے اور میں ان کی نمازوں کو ضائع شدہ نہیں کہتا۔
آپؑ کی زندگی کا یہ دستور العمل بہت نمایاں ہے کہ دعا کیلئے الگ جگہ رکھتے تھے بلکہ آخر حصہ عمر میں تو آپ بعض اوقات فرماتے کہ ہر طرح اتمام حجت کیا۔ اب جی چاہتا ہے کہ میں صرف دعائیں کیا کروں۔ دعاؤں کے ساتھ آپ کو ایک خاص مناسبت تھی۔آپؑ کی روح ہر وقت دعا کی طرف متوجہ رہتی تھی۔ ہر مشکل کی کلید آپ دعا کو یقین کرتے تھے۔ چنانچہ 13 مارچ 1903ء کو جمعہ کے بعد بیت الفکر کے ساتھ ایک مقدس کمرہ کی بنیاد رکھی جس کا نام ’’بیت الدعا‘‘ تجویز فرمایا۔
نماز جنازہ عموماً حضور ؑ خود پڑھاتے تھے۔ حضرت پیر سراج الحق صاحب فرماتے ہیں کہ ایک نوجوان کو کسی گاؤں سے علاج کیلئے قادیان لایا گیا لیکن وہ چند روز بیمار رہ کر وفات پاگیا۔ صرف اس کی ضعیفہ والدہ ساتھ تھی۔ حضرت اقدس ؑ نے نماز جنازہ پڑھائی۔ بعض کو بوجہ لمبی لمبی دعاؤں کے نماز میں دیر لگنے کے چکر بھی آگیا اور بعض گھبرا اٹھے۔ بعد سلام کے فرمایا کہ اس کیلئے ہم نے دعاؤں میں بس نہیں کی جب تک اس کو بہشت میں داخل کراکر چلتا پھرتا نہ دیکھ لیا۔ رات کو اس کی والدہ ضعیفہ نے بھی خواب دیکھا کہ وہ بہشت میں بڑے آرام سے ٹہل رہا ہے اور اس نے کہا کہ حضرت کی دعا سے مجھے بخش دیا اور مجھ پر رحم فرمایا اور جنت میرا ٹھکانا کیا۔ گو کہ اس کی والدہ کو اس کی موت سے سخت صدمہ تھا لیکن اس مبشر خواب کے دیکھتے ہی وہ ضعیفہ خوش ہو گئی اور تمام صدمہ اور رنج غم بھول گئی اور یہ غم مبدل بہ راحت ہو گیا۔
آپؓ مزید فرماتے ہیں کہ میاں جان محمد صاحبؓ کی نماز جنازہ حضرت اقدس ؑ نے اتنی لمبی پڑھائی کہ مقتدیوں کے پیر دکھنے لگے اور ہاتھ باندھے باندھے درد کرنے لگے۔ جب نماز جنازہ سے فارغ ہوئے تو کسی نے عرض کیا کہ: حضور اتنی دیر نماز میں لگی کہ تھک گئے ہوں گے۔ آپؑ نے فرمایا: ہمیں تھکنے سے کیا تعلق، ہم تو اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے تھے اس سے مرحوم کے لئے مغفرت مانگتے تھے۔ مانگنے والا بھی کبھی تھکا کرتا ہے جو مانگنے سے تھک جاتا ہے وہ رہ جاتا ہے۔ جس سے ذرا سی بھی امید ہوتی ہے وہاں سائل ڈٹ جاتا ہے اور بارگاہ احدیت میں تو ساری امیدیں ہیں۔
حضورؑ کی جس روز وفات ہوئی اُس روز آپؑ کا آخری عمل بھی نماز فجر کی ادائیگی ہی تھا۔ جب ہوش آتا تو نماز شروع فرماتے لیکن ضعف اور بیہوشی کی وجہ سے پوری نہ کرپاتے۔ پھر ہوش آتا تو دوبارہ نماز ہی ادا فرمانے لگتے۔
حضرت میر محمد اسمٰعیل صاحبؓ فرماتے ہیں کہ حضورؑ کے زمانہ میں اس عاجز نے نمازوں میں اور خصوصاً سجدوں میں لوگوں کو بہت زیادہ روتے سنا ہے رونے کی آوازیں مسجد کے ہر گوشہ سے سنائی دیتی تھیں۔ اور حضرت صاحب نے اپنی جماعت کے اس رونے کا فخر کے ساتھ ذکر کیا ہے۔