حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر ایمان لانا کیوں ضروری ہے؟

(مطبوعہ رسالہ انصارالدین مئی جون 2024ء)
سالانہ مقابلہ مضمون نویسی 2023ء میں دوم آنے والا مضمون
حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام

مضمون نگار: شہزادہ قمرالدین مبشر

’’مبارک وہ جو اَب ایمان لایا‘‘

اللہ تعالیٰ نے بنی نوع انسان کی ہدایت و راہنمائی کے لیے انبیاء علیہم السلام کا سلسلہ جاری فرمایا جس کے تحت بعض روایات کے مطابق ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر مبعوث ہوئے۔ بالآخر یہ سلسلہ ہمارے پیارے نبی حضرت خاتم الانبیاء محمد مصطفیٰ ﷺ کے بابرکت وجود پر اپنے کمال کو پہنچا۔ آپؐ سے پہلے تمام انبیاء کا دائرہ کار زمانی و مکانی اور قومی لحاظ سے محدود تھا۔ مگر آنحضرت ﷺ کو یہ منفرد اعزاز حاصل ہے کہ آپ تمام انسانوں کی طرف مبعوث ہوئے اور جو شریعت قرآن کریم کی شکل میں آپ کو عطا کی گئی اس میں قیامت تک کے پیدا ہونے والے تمام مسائل کا حل موجود ہے۔
اب یہاں پر ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ آنحضرت ﷺ کے خاتم النبیین ہونے اور قرآن کریم کے قیامت تک قابل عمل رہنے کے باوجود کسی مسیح یا مہدی کے ظہور کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ اس سوال کا جواب درج ذیل احادیث کی روشنی میں بآسانی سمجھا جا سکتا ہے:
حضرت علی ؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا: عنقریب ایسا زمانہ آئے گا کہ نام کے سوا اسلام کا کچھ باقی نہیں رہے گا۔ الفاظ کے سوا قرآن کا کچھ باقی نہیں رہے گا۔ اس زمانہ کی مسجدیں بظاہر آباد تو نظر آئیں گی لیکن ہدایت سے خالی ہوں گی۔ ان کے علماء آسمان کے نیچے بدترین مخلوق ہوں گے۔ ان میں سے ہی فتنے اٹھیں گے اور ان میں ہی لَوٹ جائیں گے۔ یعنی تمام خرابیوں کا وہی سرچشمہ ہوں گے۔ (مشکوٰۃ کتاب العلم الفصل الثالث ص ۳۸ ٗ کنزالعمال صفحہ ۶؍۴۳)
مندرجہ بالا حدیث کے مطالعہ سے یہ بات بخوبی سمجھ میں آ سکتی ہے کہ امت محمدیہ پر ایک ایسے دَور کا آنا مقدر تھا جسے روحانی لحاظ سے دور خزاں کا نام دیا جا سکتا ہے۔ ایسے حالات کے پیش نظر ضرور تھا کہ ایک مصلح کا ظہور بھی ہوتا جس کی بعثت قرآن و حدیث اور بزرگان سلف کے اقوال سے بھی ثابت ہے۔
پس جب وہ تمام حالات و واقعات رونما ہوئے جن کے نتیجہ میں اس موعود کا ظہور مقدر تھا تو ایسے حالات کے پیش نظر اللہ تعالیٰ نے ہندوستان کی ایک گمنام بستی قادیان سے حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی بانی سلسلہ احمدیہ کو مبعوث فرمایا۔ آپ نے جس جماعت کی بنیاد رکھی یہ وہی موعود جماعت ہے جس کی طرف آیت وَاٰخَرِیْنَ مِنْھُمْ لَمَّا یَلْحَقُوْبِھِمْ (سورۃ جمعہ) میں اشارہ کیا گیا ہے۔ چنانچہ آپؑ نے فرمایا ؎

مسیح وقت اب دنیا میں آیا
خدا نے عہد کا دن ہے دکھایا
مبارک وہ جو اب ایمان لایا
صحابہؓ سے ملا جب مجھ کو پایا
وہی مَے اُن کو ساقی نے پلا دی
فَسُبْحَانَ الَّذِیْ اَخْزَی الْاَعَادِی

حضرت مسیح موعودؑ پر ایمان لانا از روئے قرآن مجید

۱۔ وَاٰخَرِیْنَ مِنْھُمْ لَمَّا یَلْحَقُوْا بِھِمْ وَھُوَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْم۔ (سورۃ الجمعۃ:4)

ترجمہ: اور ان کے سوا ایک دوسری قوم میں بھی (وہ اسے بھیجے گا) جو ابھی تک ان سے ملی نہیں اور وہ غالب اور حکمت والا ہے۔
حضرت ابوہریرۃؓ بیان کرتے ہیں کہ ہم آنحضرت ﷺ کی خدمت میں بیٹھے ہوئے تھے کہ آپ پر سورت جمعہ نازل ہوئی۔ جب آپؐ نے اس کی آیت وَاٰخَرِیْنَ مِنْھُمْ لَمَّا یَلْحَقُوْا بِھِمْ پڑھی۔ جس کے معنی یہ ہیں کہ کچھ بعد میں آنے والے لوگ بھی ان صحابہ میں شامل ہوں گے جو ابھی ان کے ساتھ نہیں ملے۔ توایک آدمی نے پوچھا: یا رسول اللہ! یہ کون لوگ ہیں جو درجہ تو صحابہ کا رکھتے ہیں لیکن ابھی ان میں شامل نہیں ہوئے۔ حضورؐ نے اس سوال کا کوئی جواب نہیں دیا۔ اس آدمی نے دویا تین دفعہ یہی سوال دہرایا۔ راوی کہتے ہیں کہ حضرت سلمانؓ ہم میں بیٹھے تھے۔ آنحضرت ﷺ نے اپنا ہاتھ ان کے کندھے پر رکھا اور فرمایا: اگر ایمان ثریا کے پاس بھی پہنچ گیا یعنی زمین سے اٹھ گیا تو ان لوگوں میں سے کچھ لوگ اس کو واپس لے آئیں گے۔ (یعنی آخرین سے مراد ابنائے فارس ہیں جن میں سے مسیح موعود ہوں گے اور ان پر ایمان لانے والے صحابہ کا درجہ پائیں گے۔) (بخاری کتاب التفسیر سورت جمعۃ)
۲۔ ھُوَالَّذِیْ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْھُدیٰ وَ دِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْھِرَہٗ عَلٰی الدِّیْن کُلِّہٖ۔
ترجمہ: وہی خدا ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا ہے تاکہ وہ اس (دین) کو تمام ادیان پر غالب کر دے۔ (الصف۱۰:)
اس آیت کی تفسیر میں لکھا ہے: ادیان باطلہ پر دین حق کا کامل غلبہ مسیح موعود کے وقت میں ہو گا۔ جب صرف ایک ہی دین باقی رہ جائے گا۔
(ابن جریرجلد ۲۸ صفحہ۵۳)
اہل تشیع کی معروف حدیث کی کتاب ’’بحارالانوار‘‘ میں اس آیت کے متعلق لکھا ہےکہ یہ آیت آل محمد کے القائم یعنی امام مہدی کے بارہ میں نازل ہوئی ہے۔ (بحارالانوار جلد۱۳ ص ۲۵۶ باب پنجم)
شیعہ کی معتبر کتاب ’’غایۃ المقصود‘‘ میں اسی آیت سے متعلق لکھا ہے: اس آیت میں جو رسول موعود ہے اس سے مراد امام مہدی ہے۔ (جلد۲ صفحہ۱۲۳)
حضرت مولانا محمد اسمٰعیل شہیدؒ فرماتے ہیں: یہ بات ظاہرہے کہ دین کے غلبہ کی ابتدا حضرت نبی کریم ﷺ کے وقت میں شروع ہوئی اور اس کی تکمیل حضرت مہدی کے ہاتھ سے ہوگی۔ (منصب امامت صفحہ ۵۶)

مسجد نبوی مدینہ منورہ

حضرت مسیح موعودؑ پر ایمان لانا از روئےحدیث

۱۔ حضرت حذیفہ بن یمانؓ سے روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ ۱۲۴۰ سال کے بعد اللہ تعالیٰ مہدی کو مبعوث کرے گا۔ (النجم الثاقب جلد۲ صفحہ ۲۰۹)
۲۔ اُمّت پر ایک ایسا دَور آئے گا کہ دین میں بگاڑ آجائے گا جسے مہدی کے سوا کوئی اَور دُور نہ کر سکے گا۔ (ینا بیع المودۃ جز ۲صفحہ ۸۳)
۳۔ مہدی لوگوں کو میرے دین اور میری شریعت پر قائم کرے گا۔
(بحار الانوار جلد۱۳ صفحہ۱۷)
۴۔ امام مہدی آخری ز مانہ میں دین کو اس طرح قائم کرے گا جس طرح میں ابتدائی زمانہ میں اسے قائم کر رہا ہوں۔ (ینا بیع المودۃجزثالث صفحہ ۱۶۵)

امام مہدی کو ماننا ضروری ہے

اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو بھی مامور اور امام آیا کرتے ہیں ان کو قبول کرنا اور ایمان لانا ضروری ہوتا ہے کیونکہ تمام برکتیں ان سے وابستہ کردی جاتی ہیں۔ اور ان کے بغیر ہر طرف تاریکی اور جہالت ہوتی ہے جیسا کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا:
جو شخص (خدا کے مقرر کردہ) امام کو قبول کیے بغیر مر گیا اس کی موت جاہلیت کی موت ہے۔ (مسند احمد بن حنبل جلد ۴، صفحہ ۹۶)

رسول اللہ ﷺ کی تاکیدی وصیت

٭ جب تم اسے دیکھو تو اس کی ضرور بیعت کرنا خواہ تمہیں برف کے تودوں پر گھٹنوں کے بل بھی جانا پڑے۔ کیونکہ وہ خدا کا خلیفہ مہدی ہوگا۔ (مستدرک حاکم کتاب الفتن و الملاحم باب خروج المہدی)
٭ آپؐ نے امام مہدی کی بیعت اور اطاعت کرنے کے متعلق تعلیم دیتے ہوئے فرمایا:جس نے امام مہدی کی اطاعت کی اس نے میری اطاعت کی اور جس نے اس کی نافرمانی کی اس نے میری نافرمانی کی۔ (بحارالانوار جلد ۱۳ صفحہ ۱۷)
٭ پھر فرمایا:جس نے مہدی کو جھٹلایا اس نے کفر کیا ۔
(حجج الکرامہ صفحہ ۳۵۱) نیز (لوائح الانوارالبھیمہ جلد ۲ صفحہ ۸۰)
٭ حضور ﷺ نے اپنی امت کو ارشاد فرمایا کہ مسیح موعود کو میرا سلام پہنچانا۔ حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا: تم میں سے جو کوئی عیسیٰ بن مریم کو پائے اسے میری طرف سے سلام پہنچائے۔ (الدار المنثورجلد ۲ صفحہ ۲۴۵)
اس بار ہ میں حضور ﷺ کی خواہش اور تمنا غیر معمولی تھی۔ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ حضورﷺ نے فرمایا: میں امید رکھتا ہوں کہ اگر میری عمر لمبی ہوئی تو میں عیسیٰ بن مریم سے خود ملوں گا اور اگر مجھے موت آگئی تو تم میں سے جو شخص بھی اس کو پائے اسے میری طرف سے سلام پہنچائے۔ (مسند احمد بن حنبل جلد ۲ صفحہ۲۹۸)
٭ ان تمام ارشادات سے نتیجہ نکالتے ہوئے علامہ اسفرائنی فرماتے ہیں: ’’ظہور مہدی پر ایمان واجب ہے جیسا کہ یہ امر علماء دین کے ہاں تسلیم شدہ ہے اور اہل سنۃ و الجماعت کی کتب عقائد میں درج ہے۔‘‘ (لوائح الانوارالبھیمہ جلد ۲ صفحہ ۸۰)

وقت تھا وقتِ مسیحا نہ کسی اَور کا وقت

عصر حاضر میں انسانیت کے گم کردہ راہ قافلے نے جس طرح اللہ تعالیٰ کے برگزیدوں اور فرستادوں کی تعلیم کو فراموش کر دیا اس کی نظیر بہت کم ملتی ہے۔ عوام سے لے کر علماء تک کے سبھی طبقے خواہ ان کا تعلق کسی بھی مکتب فکر سے ہو بلاتفریق اُمّتِ مرحومہ کے مرثیہ خواں نظر آتے تھے اور بزرگان حال و قال کہہ رہے تھے کہ جو تاریکی چھٹی صدی عیسوی میں جہالت نے پھیلائی تھی جبکہ اسلام کا ظہور ہوا تھا ویسی ہی روحانی تاریکی اور ظلمت آج پھر پوری شدت سے عود کر آئی ہے۔ اخلاق و تمدن، معیشت واقتصاد اور عقائد روحانیت کا کوئی ایسا خوفناک مرض نہیں جو انسانیت کو لاحق نہ ہو۔ خاص طور پر احادیث مذکورہ میں جو نقشہ آنحضرت ﷺ نے امت محمدیہ کا کھینچا ہے وہ من و عن پورا ہو گیا۔ اس صورتحال کانقشہ ایک  معروف عالم دین جناب نورالحسن خان صاحب ان الفاظ میں کھینچتے ہیں:
’’اب اسلام کا صرف نام ، قرآن کا فقط نقش باقی رہ گیا ہے ۔ مسجدیں ظاہر میں تو آباد ہیں لیکن ہدایت سے بالکل ویران ہیں ۔ علماء اس امت کے بدتر ان سے ہیں انہیں سے فتنے نکلتے ہیں اور انہیں کے اندر پھر کے جاتے ہیں۔‘‘ (اقتراب الساعۃ ، صفحہ ۹۶)
اس حقیقت کا اعتراف رسالہ ’’اہلحدیث‘‘ میں بھی کیا گیا ہے ’’افسوس ہے ان مولویوں پر جن کو ہم ہادی، رہبر، وَرَثۃُ الْأنْبیاء سمجھتے ہیں۔ ان میں یہ نفسانیت اور شیطنت بھری پڑی ہے تو پھر شیطان کو کس لیے برا بھلا کہنا چاہیے۔‘‘ (رسالہ اہلحدیث ۱۷ نومبر۱۹۱۱ء)
پھر اسی رسالہ اہلحدیث ( ۷ جنوری ۱۹۱۲ء) میں امت محمدیہ میں پیدا ہونے والے انتشار کا ذمہ دار بھی علماء کو ٹھہرایا گیا ہے:

ھَلْ اَفْسَدَ النَّاسَ اِلَّا الْمُلُوْکُٔ
وَ عُلَمَاءُ سُوْءٌ وَ رُھْبانُھَا

یعنی کیا بادشاہوں، علماء سوء اور رہبان کے سوا کسی اور چیز نے لوگوں کوخراب کیا ہے۔
حضرت شاہ ولی اللہ صاحب محدَّث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
’’اگر نمونہ یہود خوا ہی کہ بینی علماء سوء کہ طالب دنیا باشد۔‘‘ (الفوز الکبیر ص ۱۰)
یعنی اگر یہود کا نمونہ دیکھنا ہو تو علماء سوء کو دیکھ لو جو دنیا کے پیچھے پڑ چکے ہیں۔
شاعر مشرق علامہ سر محمد اقبال امت محمدیہ کی حالتِ زار کا نقشہ ان الفاظ میں کھینچتے ہیں:

شور ہے ہو گئے دنیا سے مسلماں نابود
ہم یہ کہتے ہیں کہ تھے بھی کہیں مسلم موجود
وضع میں تم ہو نصاریٰ تو تمدّن میں ہنود
یہ مسلماں ہیں جنہیں دیکھ کے شرمائیں یہود
یُوں تو سیّد بھی ہو مرزا بھی ہو افغان بھی ہو
تم سبھی کچھ ہو بتاؤ تو مسلماں بھی ہو

نیز مسجدوں کی حالت زار بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں ؎

مسجدیں مرثیہ خواں ہیں کہ نمازی نہ رہے
یعنی وہ صاحبِ اوصافِ حجازی نہ رہے

پھر یہاں تک فرمایا:

مسجد تو بنا لی شب بھر میں ایماں کی حرارت والوں نے
من اپنا پُرانا پاپی ہے برسوں میں نمازی بن نہ سکا

مولانا ابوالاعلیٰ مودودی صاحب

سید ابوالاعلی مودودی صاحب امیر جماعت اسلامی پاکستان نے مسلمانوں کے بارے میں لکھا:
’’یہ انبوہِ عظیم جس کو مسلمان قو م کہا جاتا ہے اس کا حال یہ ہے کہ اس کے ۹۹۹ فی ہزار افراد نہ اسلام کا علم رکھتے ہیں نہ حق و باطل کی تمیز سے آشنا ہیں۔ نہ ان کا اخلاقی نقطۂ نظر اور ذہنی رویہ اسلام کے مطابق تبدیل ہؤا ہے۔ باپ سے بیٹے اور بیٹے سے پوتے کو بس مسلمان کا نام ملتا چلا آرہا ہے۔‘‘
(سیاسی کشمکش حصہ سوم ص ۱۳۰)
مولوی سید ابوالحسن ندوی صاحب نے لکھا:
’’اسلام عیسائیت کی طرح چند اعتقادات اور چند رسوم کا مجموعہ بن کر رہ گیا ہے۔‘‘
(سیرت سید احمد شہید ص ۲۳ مطبوعہ ۱۹۴۱ء)
اس حقیقت کا صرف زبانی ہی اعتراف نہیں کیا گیا بلکہ اصلاح احوال کے لیے خداتعالیٰ کی طرف سے آنے والے کسی مصلح اور فرستادے کا بھی بڑی شدت سے انتظار ہو رہا تھا۔ جس طرح قحط سالی کے ایام میں نگاہیں آسمان کی طرف لگ جاتی ہیں اسی طرح ایک موعود اقوام عالم کا انتظار ہو رہا تھا اور عصر حاضر کے تمام مسلم اور غیر مسلم اکابرین، دانشور، سکالرز اور علماء کی کتب اور ارشادات و ملفوظات کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہی وہ وقت تھا جس میں ایک موعود اقوام عالم کی بعثت کی ضرورت تھی اور تمام بزرگ اور علماء اسی نتیجہ پر پہنچ چکے تھے کہ اب اس بگاڑ کی اصلاح سوائے مامور من اللہ کے اور کوئی بھی نہیں کر سکتا۔ چنانچہ جناب مولوی سید ابوالاعلیٰ مودودی صاحب بانی ٔجماعت اسلامی نے عام لوگوں کے شدت انتظار کا ذکر ان الفاظ میں کیا۔
’’لوگ امامت دین کی تحریک کے لیے کسی ایسے مرد کامل کو ڈھونڈتے ہیں جو ان میں سے ایک ایک کے تصورکمال کا مجسمہ ہو، دوسرے الفاظ میں یہ لوگ دراصل کسی نبی کے طالب ہیں اگرچہ زبان سے ختم نبوت کا اقرار کرتے ہیں۔‘‘
(اخبار ’’مسلمان‘‘ ۲۸ فروری۱۹۴۳ء)
امام الہند جناب مولانا ابوالکلام آزاد اپنے زمانہ میں امام مہدی کے لیے شدید انتظار کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’اگر ان میں سے کسی بزرگ کو چند لمحوں کے لیے قوم کی حالتِ زار پر بھی توجہ کبھی ہوتی تھی تو یہ کہہ کر خود اپنے معتقدین کے دلوں کو تسکین دے دیتے تھے کہ اب ہماری اور تمہاری کوششوں سے کیا ہو سکتا ہے ۔ اب تو قیامت قریب ہے اور مسلمانوں کی تباہی لازمی۔ سارے کاموں کو امام مہدی کے نکلنے کی انتظار میں ملتوی کر دینا چاہیے۔ اس وقت ساری دنیا خود بخود مسلمانوں کے لیے خالی ہوجائے گی۔‘‘ (تذکرہ طبع دوم صفحہ۱۰)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا دعویٰ اور ظہور

ان ثابت شدہ حقائق کی روشنی میںخدائی نوشتوں کے مطابق مقدّر تھا کہ تمام ملتوں کا موعود ایک ہی وجود کی صورت میں ظاہرہو جو حضرت خاتم النبییّن ﷺ کا امتی اور پیرو کار ہو اور جس کا مقصد بعثت تمام بنی نوع انسان کو اللہ تعالیٰ کے آخری دین اور مکمل ضابطۂ حیات اسلام کے جھنڈے تلے جمع کرنا تھا۔
اس تمام صورت حال کے پیش نظر اب ذہن میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ موعود اقوام عا لم کون ہے اور اس کے مشن کو آگے بڑھانے والی جماعت کونسی ہے؟ جبکہ زمانہ بزبان حال پکار پکار کر کہہ رہا تھا کہ ؎

ہم مریضوں کی ہے تمہی پہ نظر
تم مسیحا بنو خدا کے لیے

بالآخر زبانِ خلق نقارۂ خدا بن گئی اور رحمت خداوندی نے جوش مارا اور ایک ہادیٔ برحق کو اصلاحِ خلق کے لیے مامور کر دیا گیا اور ہندوستان کی ایک گمنام بستی سے یہ آواز بلند ہوئی ؎

مَیں وہ پانی ہوں کہ آیا آسماں سے وقت پر
مَیں وہ ہوں نُورِ خدا جس سے ہؤا دن آشکار

اور یہ بھی کہ ؎

کیوں عجب کرتے ہو گر مَیں آ گیا ہو کر مسیح
خود مسیحائی کا دم بھرتی ہے یہ بادِ بہار

پھر فرمایا ؎

وقت تھا وقتِ مسیحا نہ کسی اور کا وقت
مَیں نہ آتا تو کوئی اور ہی آیا ہوتا

یہ آواز خداتعالیٰ کے ایک برگزیدہ، عشق رسولؐ میں سرشاراور بنی نوعِ انسان کے ہمدرد حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ مرزا غلام احمد صاحب قادیانی علیہ السلام کی تھی۔ جن کو خداتعالیٰ نے اس عظیم مشن کے لیے مامور فرمایا۔ چنانچہ آپ نے اپنے مشن کا اعلان کرتے ہوئے فرمایا:
’’اگر تم ایماندار ہو تو شکر کے سجدات بجا لاؤ کہ وہ زمانہ جس کا انتظار کرتے کرتے تمہارے بزرگ آباء گزر گئے اور بے شمار روحیں اس شوق میں سفر کر گئیں وہ وقت تم نے پالیا۔ اب اس کی قدر کرنا یا نہ کرنا اور اس سے فائدہ اٹھانا یا نہ اٹھانا تمہارے ہاتھ میں ہے۔ میں اس کو بار بار بیان کروں گا کہ میں وہی ہوں جو وقت پر اصلاح خلق کے لیے بھیجا گیا تا دین کو تازہ طور پر دلوں میں قائم کر دیا جائے۔‘‘
اسی طرح فرمایا:
’’خداتعالیٰ نے اس زمانہ کو تاریک پاکر اور دنیا کو غفلت اور کفر اور شرک میں غرق دیکھ کر اور ایمان اور صدق اور تقویٰ اور راستبازی کو زائل ہوتے ہوئے مشاہدہ کرکے مجھے بھیجا ہے کہ تا وہ دوبارہ دنیا میں علمی اور عملی اور اخلاقی اور ایمانی سچائی کو قائم کرے اور تا اسلام کو ان لوگوں کے حملہ سے بچائے جو فلسفیت اور نیچریت اور اباحت اورشرک اور دہریت کے لباس میں اس الٰہی باغ کو کچھ نقصان پہنچانا چاہتے ہیں۔ سو اے حق کے طالبو! سوچ کر دیکھوکہ کیا یہ وقت وہی وقت نہیں ہے جس میں اسلام کے لیے آسمانی مدد کی ضرورت تھی۔ کیا ابھی تک تم پر یہ ثابت نہیں ہؤا کہ گزشتہ صدی میں جو تیرھویں صدی تھی کیا کیا صدمات اسلام پر پہنچ گئے اور ضلالت کے پھیلنے سے کیا ناقابل برداشت زخم ہمیں اٹھانے پڑے۔ کیا ابھی تک تم نے معلوم نہیں کیا کہ کن کن آفات نے اسلام کو گھیرا ہوا ہے۔ کیا اس وقت تم کو یہ خبر نہیں ملی کہ کس قدر لوگ اسلام سے نکل گئے، کس قدر عیسائیوں میں جاملے، کس قدر دہریہ اور طبعیہ ہو گئے اور کس قدر شرک اور بدعت نے توحید اور سنت کی جگہ لے لی اور کس قدر اسلام کے ردّ کے لیے کتابیں لکھی گئیں اور دنیا میں شائع کی گئیں۔ سو تم اب سوچ کر کہو کہ کیا اب ضرور نہ تھا کہ خداتعالیٰ کی طرف سے اس صدی پر کوئی ایسا شخص بھیجا جاتا جو بیرونی حملوں کا مقابلہ کرتا۔ اگر ضرور تھا تو تم دانستہ نعمت الٰہی کو ردّ مت کرو اور اس شخص سے منحرف مت ہو جائو جس کا آنا اس صدی پر اس صدی کے مناسب حال ضروری تھا اور جس کی ابتدا سے نبی کریمؐ نے خبر دی تھی اور اہل اللہ نے اپنے الہامات اور مکاشفات سے اس کی نسبت لکھا تھا۔ ذرا نظر اٹھا کر دیکھوکہ اسلام کو کس درجہ پر بلائوں نے مجبور کر لیا ہے اور کیسے چاروں طرف سے اسلام پر مخالفوں کے تیر چھوٹ رہے ہیں اور کیسے کروڑ ہا نفسوں پر اس زہر نے اثر کر دیا ہے۔ یہ عملی طوفان، یہ عقلی طوفان، یہ فلسفی طوفان، یہ مکر اور منصوبوں کا طوفان، یہ فسق و فجور کا طوفان، یہ لالچ اور طمع دینے کا طوفان، یہ اباحت اور دہریت کا طوفان یہ شرک و بدعت کا طوفان جو ہے ان سب طوفانوں کو ذرا آنکھیں کھول کر دیکھو اور اگر طاقت ہے تو ان مجموعۂ طوفانات کی کوئی پہلے زمانہ میں نظیر بیان کرو اور ایماناً کہو کہ حضرتِ آدم سے لے کر تا ایندم اس کی کوئی نظیر بھی ہے اور اگر نظیر نہیں تو خداتعالیٰ سے ڈرو اور حدیثوں کے وہ معنی کرو جو ہو سکتے ہیں… ‘‘ (آئینہ کمالات اسلام صفحہ ۲۵۱ تا ۲۵۴)
مزید فرمایا: ’’بذریعہ وحی الٰہی میرے پر تبصریح کھولا گیا کہ وہ مسیح جو اس امت کے لیے ابتدا سے موعود تھا اور وہ آخری مہدی جو تنزل اسلام کے وقت اور گمراہی کے پھیلنے کے زمانہ میں براہ راست خدا سے ہدایت پانے والا اور آسمانی مائدہ کو نئے سرے سے انسانوں کے آگے پیش کرنے والا تقدیر الٰہی میں مقرر کیا گیا تھا جس کی بشارت آج سے تیرہ سو برس پہلے رسول کریم ﷺ نے دی تھی وہ میں ہی ہوں۔‘‘ (تذکرۃ الشہادتین ص ۴۷۳)
حضور علیہ السلام فرماتے ہیں کہ
’’اخیر پر یہ بھی واضح ہو کہ میرا اس زمانہ میں خداتعالیٰ کی طرف سے آنا محض مسلمانوں کی اصلاح کے لیے ہی نہیں ہے بلکہ مسلمانوں اور ہندوؤں اور عیسائیوں تینوں قوموں کی اصلاح منظور ہے اور جیسا کہ خدا نے مجھے مسلمانوں اور عیسائیوں کے لیے مسیح موعود کرکے بھیجا ہے ایسا ہی میں ہندوؤں کے لیے بطور اوتار کے ہوں اور میں عرصہ بیس برس سے یا کچھ زیادہ برسوں سے اس بات کو شہرت دے رہا ہوں کہ میں ان گناہوں کے دور کرنے کے لیے جن سے زمین پُر ہو گئی ہے جیسا کہ مسیح ابن مریم کے رنگ میں ہوں ایسا ہی راجہ کرشن کے رنگ میں بھی ہوں جو ہندو مذہب کے تمام اوتاروں میں سے ایک بڑا اوتار تھا یا یوں کہنا چاہیے کہ روحانی حقیقت کے رو سے میں وہی ہوں۔ یہ میرے خیال اور قیاس سے نہیں ہے بلکہ وہ خدا جو زمین و آسمان کا خدا ہے اس نے یہ میرے پر ظاہرکیاہے اور نہ ایک دفعہ بلکہ کئی دفعہ مجھے بتلایا ہے کہ تو ہندوئوں کے لیے کرشن ہے اور مسلمانوں اور عیسائیوں کے لیے مسیح موعود ہے۔ میں جانتا ہوں کہ جاہل مسلمان اس کو سن کر فی الفور یہ کہیں گے کہ ایک کافر کا نام اپنے اوپر لے کر کفر کوصریح طور پر قبول کیا ہے لیکن یہ خدا کی وحی ہے جس کے اظہار کے بغیرمیں رہ نہیںسکتا اور آج یہ پہلا دن ہے کہ ایسے بڑے مجمع میں اس بات کو میں پیش کرتا ہوں کیونکہ جو لوگ خدا کی طرف سے ہوتے ہیں وہ کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہیں ڈرتے۔‘‘ (لیکچر سیالکوٹ صفحہ ۳۳)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر ایمان لانے اور بیعت کے نتیجہ میں پیدا ہونےوالا عظیم انقلاب

وَآخَرِیْنَ مِنْہُمْ لَمَّا یَلْحَقُوْا بِھِمْ۔ وَھُوَ الْعَزِیْزُالْحَکِیْمُ (سورۃ الجمعۃ آیت4)
اس آیت کا ترجمہ ہے
اور انہیں میں سے دوسروں کی طرف بھی مبعوث کیا ہے جو ابھی ایمان نہیں لائے۔ وہ کامل غلبے والا اور حکمت والاہے۔
یہ آیت جب نازل ہوئی تو ایک صحابی نے پوچھا کہ یا رسول اللہ! ﷺ وہ کون لوگ ہیں جو درجہ تو صحابہ کا رکھتے ہیں لیکن ابھی ان میں شامل نہیں ہوئے۔ حضور ﷺنے اس سوال کا کوئی جواب نہ دیا۔ اس شخص نے یہ سوال تین دفعہ دوہرایا۔ راوی کہتے ہیں کہ حضرت سلمان فارسیؓ ہم میں بیٹھے ہوئے تھے۔ آنحضرت ﷺ نے اپنا ہاتھ ان کے کندھے پر رکھا اور فرمایا کہ اگر ایمان ثریا پر بھی چلا گیا یعنی زمین سے ایمان بالکل ختم ہو گیا تو ان میں سے ایک شخص اس کو واپس لائے گا، دوسری جگہ رِجَالٌ کا لفظ بھی ہے یعنی اشخاص واپس لائیں گے۔
(بخاری کتاب التفسیرسورۃ الجمعۃ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حدیث نمبر4897)
اس حدیث سے صاف ثابت ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس نور سے فیض پا کر جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ نے آپؑ کو عطا فرمایا تھا، اپنے صحابہ میں، اپنے ماننے والوں میں، اپنے بیعت کرنے والوں میں کیا انقلاب عظیم پیدا کیا تھا۔ اس بارے میں میں سب سے پہلے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے الفاظ میں ہی بیان کرتا ہوں کہ آپؑ نے اپنے صحابہ کو کیسا پایا۔ آپؑ فرماتے ہیں کہ
’’ مَیں دیکھتا ہوں کہ میری بیعت کرنے والوں میں دن بدن صلاحیت اور تقویٰ ترقی پذیر ہے۔ اور ایام مباہلہ کے بعد گویا ہماری جماعت میں ایک اور عالم پیدا ہو گیاہے۔ مَیں اکثر کو دیکھتا ہوں کہ سجدہ میں روتے اور تہجد میں تضرع کرتے ہیں۔ ناپاک دل کے لوگ ان کو کافر کہتے ہیں اور وہ اسلام کا جگر اور دل ہیں ۔‘‘
(انجام آتھم۔ روحانی خزائن جلد 11 صفحہ 315)
حضور علیہ السلام کے اس دعوے کی صداقت کے طور پر ان پاک نمونوں کی محض چند مثالیں ذیل میں بیان کی جاتی ہیں۔

حضرت حافظ حامد علی صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ

حضرت حافظ حامد علی صاحبؓ زمانہ کے مسیح موعود علیہ السلام کو دیکھنے والے اور آپ پر ایمان لانے والوں میں سے ایک صحابی تھے۔اس ایمان کا کیا نتیجہ ظاہر ہوا اس بارےمیں ایک روایت درج ہے۔
راوی بیان کرتے ہیں کہ ’’ ہر شخص اپنی بعض کمزوریوں یا ہم عصری کی وجہ سے کم از کم اپنے علاقے اور نواح میں خاص عزت کی نظر سے نہیں دیکھا جاتا۔ حافظ صاحب ایک زمیندار خاندان کے فرد تھے اور دولت و مال کے لحاظ سے آپ کا مرتبہ بلند نہ تھا بلکہ وہ غریب تھے۔ مگر اس کے باوجود اپنی نیکی اور دینداری کی وجہ سے اپنے گاؤں اور نواح میں ہمیشہ عزت و محبت کی نظر سے دیکھے جاتے تھے۔ اور آج ہم جو فیض اللہ چک اور تھہ غلام نبی وغیرہ دیہات میں احمدیت کی رونق اور اثر کو دیکھتے ہیں اس میں حافظ صاحب کی عملی زندگی کا بہت بڑا دخل ہے۔ وہ ایک خاموش واعظ تھے اور مجسم تبلیغ تھے۔ انہیں دیکھ کر خواہ مخواہ حضور کی صداقت کا یقین ہوتا تھا اور اندر ہی اندر محبت کا جذبہ بڑھتا تھا۔ آپ نہایت ملنسار اور وفادار اور ہمدرد طبع تھے، دوسروں کی بھلائی چاہتے تھے۔ حضرت کی صحبت اور قرب نے آپ میں ایک خاص رنگ پیدا کر دیا تھا۔ آپ دعاؤں کی قوت کو جانتے اور دعائیں کرنے کے عادی اور آداب دعا سے واقف تھے۔ آپ کی زندگی ایک مخلص مومن اور خدا رسیدہ انسان کی زندگی تھی۔ حق کی اشاعت کے لیے آپ میں جوش اور غیرت تھی۔ دینی معاملے میں کبھی کسی سے نہ دبتے تھے۔ حق کہنے میں ہمیشہ دلیر تھے۔ اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر پر عامل تھے۔ غرض بہت سی خوبیوں کے مالک تھے۔ اور یہ جو کچھ تھا حضرت اقدس کی پاک صحبت کا اثر تھا۔ مرحوم اپنی زندگی کے بےشمار حالات و واقعات سے واقف تھے۔ مگر آپ کی عادت میں تھا کہ بہت کم روایت کرتے اور جب حضرت اقدس کے حالات کے متعلق کوئی سوال ہوتا تو چشم پُرآب ہو جاتے اور فرماتے کہ سراسر نور کی میں کیا حقیقت بیان کروں، کوئی ایک بات ہو توکہوں۔‘‘ (اصحاب احمد جلد نمبر13صفحہ72)

حضرت بھائی عبد الرحمٰن قادیانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ

پھر بھائی عبدالرحمٰن صاحب قادیانی ؓ ہندوؤں سے مسلمان ہوئے تھے۔ قادیان آئے مگر آپ کے والد صاحب حضرت مسیح موعودؑ سے واپس بھیجنے کا وعدہ کرکے بھائی جی کو ساتھ لے گئے۔ گھر جا کر آپ پر بہت سختیاں کی گئیں اور ادائیگی نماز سے بھی روکا گیا۔ چنانچہ آپ خود فرماتے ہیں:
ایک زمانے میں مجھے فرائض کی ادائیگی تک سے محروم کرنے کی کوششیں کی جاتیں۔ اس زمانے میں بعض اوقات کئی کئی نمازیں ملاکر یا اشاروں سے پڑھتا تھا۔ ایک روز علی الصبح مَیں گھرسے باہر قضائے حاجت کے بہانے سے گیا۔ گیہوں کہ کھیتوں کے اندر وضو کرکے نماز پڑھ رہا تھا کہ ایک شخص کدال لیے میرے سر پر کھڑا رہا۔ نماز کے اندر تو یہی خیال تھا کہ کوئی دشمن ہے جو جان لینے کے لیے آیا ہے لہٰذا مَیں نے نماز کو معمول سے لمبا کر دیا اور آخری نماز سمجھ کر دعاؤں میں لگا رہا۔ مگر سلام پھیرنے کے بعد معلوم ہؤا کہ وہ ایک مسلمان مزدور تھا کشمیری قوم کا۔ جو مجھے نماز پڑھتے دیکھ کر بہت خوش ہؤا۔ اور جب میں نماز سے فارغ ہؤا تو نہایت محبت اور خوشی کے جوش میں مجھ سے پوچھا منشی جی! کیا یہی بات پکی ہے کہ آپ مسلمان ہیں۔ مَیں نے کہا اللہ تعالیٰ کے فضل سے اسلام پر قائم ہوں اور اللہ تعالیٰ نے تمہیں میرے لیے گواہ بنا کر بھیجا ہے کہ کم از کم تم میرے اسلام کے شاہد رہو گے۔
(اصحاب احمد۔ جلد نمبر9صفحہ63)

حضرت مولوی حسن علی صاحب بھاگلپوری رضی اللہ تعالیٰ عنہ

مولوی حسن علی صاحب بھاگلپوری، مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کو مخاطب کرکے بیعت کے فوائد بیان کرتے ہیں۔ آپ فرماتے ہیں کہ ’’قرآن کریم کی جو عظمت اب میرے دل میں ہے، خود پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت جو میرے دل میں اب ہے پہلے نہ تھی۔ یہ سب حضرت مرزا صاحب کی بدولت ہے۔‘‘
(اصحاب احمد جلد نمبر14 صفحہ56)

حضرت مولانا محمد ابراہیم صاحب بقاپوری رضی اللہ تعالیٰ عنہ

حضرت مولانا محمد ابراہیم بقاپوریؓ

پھرمولانا محمد ابراہیم صاحبؓ بقاپوری کا نمونہ ہے۔ آپؓ نے اپنے قصبہ مرالی میں پہنچ کر اپنی بیعت کا اعلان کیا۔ … اس پر قصبے میں شور برپا ہو گیا اور شدید مخالفت کا آغاز ہوگیا۔ اہل حدیث مولویوں کی طرف سے مقاطعہ کرا دیا گیا۔ لوگ آپ کو کھلے بندوں گالی گلوچ دیتے تھے۔ ایسے کٹھن مرحلے پر مولانا صاحب آستانہ الٰہی پر جھکنے اور تہجد میں گریہ و زاری میں مصروف ہونے لگے اور خداتعالیٰ نے آپ پر رؤیا و کشوف کا دروازہ کھول دیا اور یہ امر آپ کے لیے بالکل نیا تھا۔ اس طرح آپ کے لیے تسلی کے سامان ہونے لگے۔ …سو اب آپ کے ایمان و عرفان میں ترقی ہونے لگی اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ساتھ عشق و وفا بھی بڑھنے لگا اور آپ دیوانہ وار تبلیغ میں لگ گئے۔ جس پر آپ کے ماموں نے جو خسر بھی تھے آپ کو گھر سے نکل جانے پر مجبور کیا اور پولیس سے اس بارے میں استمداد کی بھی دھمکی دی۔ اس لیے آپ موضع بقاپور چلے آئے جہاں آپ کی زمینداری کے باعث مقاطعہ تو نہ ہوا لیکن مخالفت پورے زور سے رہی۔ عوام کے علاوہ آپ کے والدین اور چھوٹا بھائی بھی زمرۂ مخالفین میں شامل تھے البتہ بڑے بھائی مخالف نہ ہوئے۔ ایک روز آپ کی والدہ نے آپ کے والد سے کہا کہ آپ میرے بیٹے کو کیونکر بُرا کہتے ہیں، وہ پہلے سے زیادہ نمازی ہے۔ والد صاحب نے کہا مرزا صاحب کو جن کا دعویٰ مہدی ہونے کا ہے مان لیا ہے۔ والدہ صاحبہ نے کہا امام مہدی کے معنی ہدایت یافتہ لوگوں کے امام کے ہیں۔ ان کے ماننے سے میرے بیٹے کو زیادہ ہدایت نصیب ہو گئی ہے جس کا ثبوت اس کے عمل سے ظاہر ہے اور مولوی صاحب کو اپنی بیعت کا خط لکھنے کو کہا۔ آپ تبلیغ میں مصروف رہے اور ایک سال کے اندر پھر والد صاحب اور چھوٹے بھائی اور دونوں بھابھیوں نے بھی بیعت کرلی اور بڑے بھائی صاحب نے خلافت احمدیہ اولیٰ میں بیعت کرلی۔ (اصحاب احمد۔ جلد نمبر10صفحہ 215)

حضرت مولانا برہان الدین صاحب جہلمی رضی اللہ تعالیٰ عنہ

حضرت مولانا برہان الدین صاحب جہلمیؓ کے بارے میں حضرت مولوی عبدالمغنی صاحب لکھتے ہیں کہ’’ نام اور نمود، ریا، ظاہرداری، علمی گھمنڈ، تکبر ہرگز نہیں تھا۔ دوران قیام قادیان میں جب بھی کوئی کہتا مولوی صاحب! فوراً روک دیتے کہ مجھے مولوی مت کہو، مَیں نے تو ابھی مرزا صاحب سے ابجد شروع کی ہے، الف ب شروع کی ہے۔‘‘ (ماہنامہ انصاراللہ ربوہ۔ ستمبر 1977صفحہ12)

مدعی موجود ہے

یہ وہ مبارک زمانہ ہے جس میں عین چودھویں صدی کے سر پر حضرت مرزاغلام احمد قادیانی بانی جماعت احمدیہ نے یہ دعویٰ فرمایا کہ میں ہی امام مہدی اور مسیح موعود ہوں۔ اور آپ کے حق میں خدا نے بڑے بڑے نشان دکھائے اور سابقہ کتب میں درج پیشگوئیاں پوری کیں۔ پس آپ کا دعویٰ ہر مسلمان کے لیے قابل توجہ ہے اگر آپ واقعۃً وہی امام مہدی ہیں جن کا تمام امت مسلمہ انتظار کررہی ہے تو آپ کو قبول کرنا اور ایمان لانا ضروری ہے ورنہ آپ خدا اور رسول اللہ ﷺ کے سامنے جواب دہ ہوں گے۔ پس سوچیں، غور کریں۔ اپنے خدا سے پوچھیں اور جب شرح صدر ہوجائے تو اس کو رسول اللہ ﷺ کا سلام پہنچا کر جماعت احمدیہ میں داخل ہوجائیں۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ’’میں درحقیقت وہی مسیح موعود ہوں جس کو آنحضرتﷺ نے اپنا ایک باز و قرار دیا ہے اورجس کو سلام بھیجا ہےاور جس کا نام حَکم اور عدل اور امام اورخلیفۃاللہ رکھا ہے…‘‘
(کتاب البریہ، روحانی خزائن جلد 13صفحہ 328)
نیز فرمایا:’’ وہ کام جس کے لیے خدا نے مجھے مامور فرمایا ہے وہ یہ ہے کہ خدا میں اور اس کی مخلوق کے رشتہ میں جوکدورت واقعہ ہوگئی ہے اُس کو دُور کر کے محبت اور اخلاص کے تعلق کو دوبارہ قائم کروں اور سچائی کے اظہار سے مذہبی جنگوں کا خاتمہ کر کے صلح کی بنیاد ڈالوں اور وہ دینی سچائیاں جو دنیا کی آنکھ سے مخفی ہوگئی ہیں اُن کو ظاہر کردوں اور وہ روحانیت جو نفسانی تاریکیوں کے نیچے دب گئی ہے اس کا نمونہ دکھاؤں اور خدا کی طاقتیں جو انسان کے اندر داخل ہو کر توجہ یا دُعا کے ذریعہ سے نمودار ہوتی ہیں حال کے ذریعہ سے نہ محض مقال سے ان کی کیفیت بیان کروں اور سب سے زیادہ یہ کہ وہ خالص اور چمکتی ہوئی توحید جو ہر ایک قسم کی شرک کی آمیزش سے خالی ہے جو اَب نابود ہوچکی ہے اس کا دوبارہ قوم میں دائمی پودا لگادوں۔ اور یہ سب کچھ میری قوت سے نہیں ہوگا بلکہ اس خدا کی طاقت سے ہوگا جو آسمان اور زمین کا خدا ہے۔ ‘‘
(لیکچر لاہور، روحانی خزائن جلد 20صفحہ 180)
اللہ تعالیٰ کے مسیح کا لگایا ہؤا یہ بیج اللہ تعالیٰ کے فضل سے حضرت مرزا مسرور احمد صاحب خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی بابرکت قیادت میں پھل پھول اور بڑھ رہا ہے۔ ہم نے اگر اس کی سبز شاخیں بننا ہے تو ہمارا کام ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ سے محبت، آنحضرتﷺ سے عشق اور اپنے اعمال اور نوع انسان سے ہمدردی اور محبت کو اس طرح بنائیں کہ ہمارے ہر عمل سے یہ نظر آئے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
’’پس آپ خوش قسمت ہیں کہ آپ نے امام وقت کو مانا اوراس کی بیعت میں شامل ہوئے۔ اب خالصۃً للہ آپ نے اس کی ہی اطاعت کرنی ہے، اس کے تمام حکموں کو بجا لاناہے ورنہ پھرخدا تعالیٰ کی اطاعت سے باہرنکلنے والے ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ ہر احمدی کواطاعت کے ا علیٰ معیار پرقائم فرمائے اوریہ ا علیٰ معیارکس طرح قائم کیے جائیں؟ یہ معیار حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تعلیم پر عمل کرکے ہی حاصل کیے جاسکتے ہیں۔ ‘‘
(خطبہ جمعہ فرمودہ 19؍ستمبر2003ءمطبوعہ الفضل انٹرنیشنل14؍نومبر2003ءصفحہ7)
اللہ تعالیٰ ہمیں حضرت مسیح مو عودؑ کی بعثت کے مقاصد کو پورا کرنے والا بنائے۔ آمین

اپنا تبصرہ بھیجیں