حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا انکسار
حضرت مرزا سلطان احمد صاحب کا بیان ہے:
’’والد صاحب نے اپنی عمر ایک مغل کے طور پر نہیں بلکہ ایک فقیر کے طور پر گزاری‘‘۔
قادیان کے کنہیا لعل صرّاف سے ایک بار حضورؑ نے بٹالہ جانے کے لئے یکّہ کروانے کو فرمایا۔ جب حضورؑ یکہ میں سوار ہوکر نہر پر پہنچے تو آپؑ کو کوئی چیز یاد آئی جو گھر میں رہ گئی تھی۔ چنانچہ آپؑ یکہ وہاں چھوڑ کر خود واپس تشریف لائے۔ جب واپس نہر پر پہنچے تو معلوم ہوا کہ یکّہ والے کو اَور سواریاں مل گئی تھیں اور وہ بٹالہ جاچکا تھا۔ چنانچہ آپؑ پیدل ہی بٹالہ تشریف لے گئے۔ جب کنہیا لعل کو اس کا علم ہوا تو اُس نے یکّہ والے کو بلاکر پیٹا اور کہا کہ اگر تجھے مرزا نظام الدین (حضورؑ کے ایک چچازاد) کی خاطر بیٹھنا پڑتا تو تین دن بیٹھا رہتا لیکن چونکہ یہ (یعنی حضورؑ) ایک نیک اور درویش طبع آدمی ہے اس لئے تُو چلا گیا۔ حضورؑ کو جب اس بات کا علم ہوا تو آپؑ نے کنہیا لعل کو بلاکر سمجھایا اور فرمایا: وہ میری خاطر کیوں بیٹھا رہتا، اُسے مزدوری مل گئی اور چلا گیا۔
امرتسر میں مباحثہ آتھم کے دوران جب حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحبؓ اور حضرت میاں الہ دین صاحبؓ حضورؑ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو دیکھا کہ آپؑ ایک معمولی سی چٹائی پر لیٹے ہیں جو اتنی چوڑی بھی نہیں تھی کہ سارا جسم اُس پر آسکتا۔ میاں الہ دین صاحبؓ نے عرض کیا کہ کوئی دری بچھوادی جائے تو حضورؑ نے فرمایا: نہیں، مَیں سونے کی غرض سے تو نہیں لیٹا تھا۔ کام میں، آرام سے حرج ہوتا ہے اور یہ آرام کے دن نہیں ہیں‘‘۔
حضرت مسیح موعودؑ جب 1895ء میں ڈیرہ بابا نانک تشریف لے گئے تو راستہ میں آپؑ کی سادگی سے بعض لوگوں کو دھوکا ہوا اور انہوں نے حضرت مولوی محمد احسن امروہوی صاحبؓ کو مسیح موعود سمجھ لیا ۔ حضورؑ کی مجلس میں آپؑ کے لئے کوئی مسند یا امتیازی جگہ نہیں ہوتی تھی۔
حضورؑ کے خادم مرزا اسماعیل بیگ صاحبؓ کی شہادت ہے کہ جب حضورؑ اپنے والد صاحب کے ارشاد کے ماتحت بعثت سے قبل مقدمات کی پیروی کے لئے جایا کرتے تھے تو سواری کے لئے گھوڑا بھی ساتھ ہوتا تھا اور مَیں بھی ہمرکاب ہوتا تھا لیکن آپ پیدل ہی چلتے اور مجھے گھوڑے پر سوار کرا دیتے۔ مَیں بار بار انکار کرتا اور عرض کرتا کہ حضور! مجھے شرم آتی ہے۔ تو آپؑ فرمایا کرتے کہ: ہم کو پیدل چلتے شرم نہیں آتی، تم کو سوار ہوتے کیوں شرم آتی ہے؟‘‘۔
حضرت مرزا دین محمد صاحبؓ آف لنگروال کا بیان ہے کہ اوّلاً مجھے حضورؑ کی خدمت میں جانے کی عادت نہ تھی اور آپؑ بھی گوشہ نشین تھے لیکن چونکہ صوم و صلوٰۃ کے پابند اور شریعت کے دلدادہ تھے اس لئے یہی شوق مجھے آپؑ کی طرف لے گیا اور مَیں آپؑ کی خدمت میں رہنے لگا۔ جب مقدمات کی پیروی کے لئے جاتے تو مجھے گھوڑ ے پر اپنے پیچھے سوار کرلیتے۔ بٹالہ میں اپنی حویلی میں گھوڑا باندھ دیتے۔ حویلی کی دیکھ بھال ایک غریب جولاہے کے سپرد تھی۔ آپؑ وہاں پہنچ کر دو پیسے کی روٹی منگواتے جس کی چوتھائی پانی کے ساتھ کھا لیتے، باقی روٹی اور دال وغیرہ جولاہے کو دے دیتے اور مجھے چار آنہ دیتے کہ کھانا کھاآؤ۔ خود بہت کم کھاتے اور کسی قسم کے چسکے کی عادت نہ تھی۔
حضرت شیخ نور احمد صاحبؓ مالک ریاض ہند پریس بیان کرتے ہیں کہ ’’جنگ مقدس‘‘ کے دوران بہت سے مہمانوں کی آمد کی وجہ سے میری بیوی حضورؑ کے لئے کھانا نکالنا بھول گئی یہاں تک کہ رات کا بڑا حصہ گزر گیا تو حضورؑ نے بڑے انتظار کے بعد استفسار فرمایا۔ اس پر سب کو فکر ہوئی، بازار بھی بند ہوچکا تھا۔ صورتحال جب عرض کی گئی تو فرمایا: ’’اس قدر گھبراہٹ اور تکلّف کی کیا ضرورت ہے، دسترخوان دیکھ لو، کچھ بچا ہوا ہوگا، وہی کافی ہے‘‘۔ دسترخوان میں روٹی کے بچے ہوئے چند ٹکڑے تھے، آپؑ نے فرمایا: یہی کافی ہے۔ اور ان میں سے ایک دو ٹکڑے لے کر کھالئے۔
حضرت مسیح موعودؑ کی منکسرالمزاجی کے چند واقعات مکرم طاہر احمد مختار صاحب کے قلم سے ماہنامہ ’’خالد‘‘ ربوہ جنوری 2003ء کی زینت ہیں۔