حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا پہلا فوٹو
جماعت احمدیہ امریکہ کے اردو ماہنامہ ’’النور‘‘ مئی 2010ء میں مکرم بشیر احمد ملک صاحب کا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پہلے فوٹو کے بارہ میں ایک تحقیقی مضمون شائع ہوا ہے۔
حضرت مسیح موعودؑ نے یورپ میں اشاعت کے لئے ایک کتاب تصنیف کرنے کا اراد ہ فرمایا جس کا انگریزی ترجمہ مولوی محمد علی صاحب کو کرنا تھا۔ تجویز ہوئی کہ یورپ میں چونکہ قیافہ شناسی کا علم اتنا ترقی کر چکا ہے کہ لوگ محض تصویر کے خدّوخال دیکھ کر صاحبِ تصویر کے اخلاق کا پتہ چلا لیتے ہیں لہٰذا اس کتاب کے ساتھ مصنّف اور مترجم کی تصاویر بھی لگادی جائیں۔ محض یہ تبلیغی اور دینی ضرورت تھی جس کی بناء پر حضور نے اپنا فوٹو اتروایا۔ خود فرماتے ہیں: ’’ میں اس بات کا سخت مخالف ہوں کہ کوئی میری تصویر کھینچے۔ اپنے پاس رکھے یا شائع کرے۔ میں نے ہرگز ایسا حکم نہیں دیا کہ کوئی ایسا کرے۔ اور مجھ سے زیادہ بت پرستی اور تصویر پرستی کا کوئی دشمن نہیں ہوگا لیکن میںنے دیکھا ہے کہ آجکل یورپ کے لوگ جس شخص کی تالیف کو دیکھنا چاہیں اول خواہشمند ہوتے ہیں کہ اس کی تصویر کو دیکھیں کیونکہ یورپ کے ملک میں فراست کے علم کو بہت ترقی ہے اور اکثر ان کی محض تصویرکو دیکھ کر شناخت کر سکتے ہیں کہ ایسا مدعی صادق ہے یا کاذب۔‘‘
چنانچہ میاں معراج دین صاحب عمر لاہور سے ایک فوٹو گرافر لائے(محمد کاظم فوٹو گرافر۔انار کلی لاہور) جس نے حضور کے تین فوٹو کھینچے۔ دو صحابہ کے گروپ میں اور ایک پورے قد کا علیحدہ۔ دوسرے گروپ میں معمولی تبدیلی کے ساتھ پہلے گروپ کے صحابہ ہی بیٹھے ہوئے تھے۔ حضرت اقدس ؑکی عادت غضِّ بصر کی تھی ۔ فوٹو گرافر باربار عرض کرتا تھا کہ حضور آنکھیں ذرا کھول کر دیکھیں ورنہ فوٹو اچھی نہیں آئے گی۔ اس کے اصرار پر حضور نے ایک مرتبہ تکلیف کے ساتھ کچھ زیادہ کھولا مگر وہ پھر نیم بند ہوگئیں۔ فوٹو گرافر نے حضور سے لباس اور نشست کے متعلق بھی معروضات کیں مگر حضور نے نہایت سادگی اور بے تکلفی سے فوٹو کھنچوایا اور یہی رنگ تصویر میں بھی جلوہ گر ہے۔
بعد ازاں میاں معراج دین صاحب عمر نے ان فوٹوؤں کی طباعت کا انتظام کرکے 10اگست 1899ء کو بذریعہ الحکم ان کی اشاعت کا باقاعدہ اعلان شائع کردیا۔ یہ فوٹو جو زمانۂ ماموریت کا پہلا پورے قد کا فوٹو ہے حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ کی کتاب ذکرِ حبیب میں بھی شائع شدہ ہے۔
زمانہ ماموریت کی قید اس لئے لگا ئی ہے کہ حال ہی میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے قیام سیالکوٹ1868-1864 ء کے دَور کا ایک فوٹو بھی دریافت ہوا ہے۔ اس فوٹو کو دیکھنے والے احمدی دوست محمد فریدون خان ولد رحمت اﷲخان ساکن شیخ البانڈی تحصیل ایبٹ آباد ہیڈ کلرک محکمہ امداد باہمی کا حلفیہ بیان ہے کہ 1959-58 ء کا ذکر ہے کہ میں خان محمد اصغر خان صاحب قریشی اسسٹنٹ رجسٹرار کوآپریٹو سوسائیٹیز ہزارہ کے ہمراہ بحیثیت کیمپ کلرک دورہ پر موضع نگری ٹوٹیاں تحصیل ایبٹ آباد برائے معائنہ انجمن امداد باہمی گیا۔ دوران گفتگو ہمارے میزبان سردار عنایت الرحمن صاحب کو معلوم ہوا کہ میں جماعت احمدیہ کے ساتھ تعلق رکھتا ہوں تو انہوں نے فرمایا کہ میرے پاس مرزا صاحب کا ایک فوٹو ہے جو ان کے زمانۂ ملازمت سیالکوٹ کا ہے۔ وہ میں آپ کو دکھاتا ہوں۔ چنانچہ بموجودگی خان محمد اصغر خان صاحب سردار صاحب مذکور ایک گروپ فوٹو لے آئے جو فریم میں نہیں تھابلکہ ایک گتے پر چسپاں تھا میں نے ان کے بتائے بغیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی شبیہ مبارک پہچان لی۔ حضرت اقدس کھڑے تھے اور دائیں طرف سے تیسرے چوتھے نمبر پر تھے۔اس فوٹو کا سائز فُل سکیپ کے قریباً دوتہائی کے برابر تھا۔یہ ایک گروپ فوٹو تھا۔ آگے کرسیوں پر کئی اصحاب بیٹھے تھے جن میں ایک انگریز بھی تھا۔ فوٹو کا رنگ پیازی تھا اور نقوش نہایت واضح تھے۔ میں نے سردار صاحب مذکور سے درخواست کی کہ یہ فوٹو چند دن کے لئے مجھے عنایت فرمادیں تاکہ میں اس کی نقول کروا کر اصل کاپی آپ کو واپس کردوں۔ مگر سردار صاحب نے مجھے ٹال دیا۔ اس کے بعد مجھے وہ کئی دفعہ ملے اور میں اس کے لئے ان سے کہتا رہا چنانچہ ایبٹ آباد میں انہوں نے مجھ سے وعدہ فرمایا کہ میں فوٹو دے دوں گا۔ مولانا دوست محمد صاحب شاہد مرحوم مورخ تاریخ احمدیت کا بیان ہے کہ ’’25 جنوری1961 کو محمد فریدون خان صاحب اور خاکسار دونوں نے سردار صاحب سے ان کی رہائش گاہ واقع مری روڈ، راولپنڈی پر ملاقات کی جس پر انہوں نے مئی 1961 ء میں فوٹو دکھانے کا وعدہ کیامگر جب میں دوبارہ ان کے پاس پہنچا تو انہوں نے بعض نامعلوم وجوہ کی بنا پر دکھانے سے معذرت کرلی۔ اﷲتعالیٰ سے دعاہے کہ وہ اس اہم تاریخی یادگار کے برآمد ہونے کی کوئی غیبی صورت پیدا کردے۔‘‘
ابتدائی فوٹوؤں کے بعد حضرت اقدس کے اور بھی متعدد فوٹو لئے گئے جن کی معیّن تعدادکا بتانا مشکل ہے البتہ سلسلہ کے لٹریچر سے معلوم ہوتا ہے کہ اگلے ہی سال ’’خطبہ الہامیہ‘‘کے موقع پر 11اپریل1900 کو بوقتِ عصر مسجد اقصیٰ میں ایک فوٹو لیا گیا۔ یہ فوٹو ڈاکٹر نور محمد صاحب لاہوری نے لیا تھا۔
17نومبر1900 ء کو ایک یورپین سیاح ٹی ڈکسن (T. Dixen) نے حضورؑ کے 3 فوٹو لئے جس میں سے دو تو خدام کے ساتھ تھے اور ایک فوٹو صرف حضورؑ کا تھا۔ 1902 ء میں حضورؑ کا ایک پورے قد کا فوٹو ریویوآف ریلیجنزانگریزی کے صفحہ423 پر شائع ہوا۔ حضورؑ کا ایک فوٹو سیالکوٹ کے اصحاب کے ساتھ 1904 میں کھینچا گیا۔ایک اور گروپ فوٹو بھی لیا گیا جس میں ایک طرف ڈاکٹر محمد اسمٰعیل صاحب گوڑیانوی اور دوسری طرف ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب تھے۔ ان کے علاوہ ایک فوٹو ایسا بھی ملتا ہے جس میں حضورؑ کے ساتھ صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ کھڑے ہیں۔ قادیان میں حضرت اقدسؑ کے فوٹو اکثروبیشتر مسجد اقصیٰ میں لئے گئے ہیں۔ مگر بعض مدرسہ تعلیم الاسلام یا نواب محمد علی خان صاحب کے مکان اندرون شہر میں بھی کھینچے گئے ہیں۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے فوٹو کی ’’ریویوآف ریلیجنز‘‘ انگریزی 1902 ء تا1905 ء کے ذریعہ سے جب مغربی ممالک میں اشاعت ہوئی تو حضورؑ کی خدمت میں کئی لوگوں کی چٹھیاں آئیں کہ ہم نے آپ کی فوٹو غور سے دیکھی ہے۔ علم فراست کی رُو سے ہمیں یہ تسلیم کئے بغیر چارہ نہیں کہ جس کی یہ فوٹو ہے وہ ہرگز کاذب نہیں۔ایک امریکی خاتون نے کہا کہ میرا دل چاہتا ہے یہ فوٹو دیکھتی رہوں۔ یہ تو بالکل یسوع مسیح کی طرح معلوم ہوتی ہے۔ ایک اور قیافہ شناس لیڈی نے کہا کہ ’’ یہ نبیوں کی سی صورت ہے‘‘ بعض بڑے بڑے لوگوں نے اسے دیکھ کر کہا He is a great thinker. یعنی یہ ایک عظیم مفکر ہے۔ علم قیافہ کے ایک اور انگریز ماہر کے سامنے جب حضور کی فوٹو رکھی گئی تو وہ بڑے غوروفکر کے بعد اس نتیجہ پر پہنچا کہ ’’کسی اسرائیلی پیغمبر کی فوٹو ہے‘‘۔ ایک دوسرے انگریز نجومی نے بھی یہی کہا کہ ’’یہ تو خدا کے کسی نبی کی ہے‘‘۔