حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دو پیشگوئیاں
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 12 ؍مارچ 2004ء میں مکرم عبد السمیع خان صاحب کا مضمون شامل اشاعت ہے جس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ایک پیشگوئی کا ایمان افروز تذکرہ کیا گیا ہے۔
6 مارچ 1897ء کو لیکھرام کے عبرتناک انجام کے بعد آریوں نے بڑی شدت سے الزام لگایا کہ لیکھرام حضرت مسیح موعود ؑ کی سازش کے نتیجہ میں قتل کیا گیا ہے اور اس قتل کا بدلہ لینے کے لئے خفیہ اور اعلانیہ کارروائیاں شروع کردیں۔
اس پر حکومت کی مشینری حرکت میں آگئی اور حضرت اقدس ؑ کی خانہ تلاشی بھی ہوئی۔ 8؍ اپریل 1897 ء کو پولیس کا جو وفد تلاشی لینے کے لئے آیا، ان میں ایک میاں محمد بخش ڈپٹی انسپکٹر بٹالہ بھی شامل تھا۔ یہ گوجرانوالہ کا باشندہ تھا۔ دوران تلاشی اس کی ایک زیادتی پر حضورؑ نے فرمایا: آپ تو اس طرح مخالفت کرتے ہیں مگر آپ کی اولاد میرے حلقہ بگوشوں میں داخل ہو جائے گی۔
میاں محمد بخش کا ذکر مقدمہ مارٹن کلارک کے سلسلہ میں بھی ملتا ہے۔ غالباً اسی کی تحریک پر حضور کے خلاف مقدمہ حفظ امن قائم ہوا۔ جب اس نے یکم دسمبر1898ء کو ڈپٹی گورداسپور جی ایم ڈوئی کو رپورٹ بھیجی کہ حضورؑ کے اشتہارات اور پیشگوئیوں سے نقص امن حفظ کا خطرہ ہے اس لئے فریقین کی ضمانت اور مچلکہ حفظ امن کا انتظام فرمایا جائے۔ چنانچہ اس کی رپورٹ اور مولوی محمد حسین بٹالوی کی درخواست پر مقدمہ درج ہوا۔ 11؍ جنوری 1899ء کو گورداسپور کی عدالت میں حضورؑ اور میاں محمد بخش کے بیانات ہوئے۔ مگر عدالت نے 24 ؍فروری1899ء کو مقدمہ خارج کر دیا۔
حضرت امام الدین صاحبؓ پٹواری فرماتے ہیں کہ اس مقدمہ کے موقعہ پر میں نے حضرت مسیح موعود ؑ سے عرض کیا کہ محمد بخش تھانیدار کہتا ہے کہ آگے تو مرزا مقدمات سے بچ کر نکل جاتا رہا ہے۔ اب میرا ہاتھ دیکھے گا۔ حضرت صاحب نے فرمایا: ’’میاں امام الدین! اس کا ہاتھ کاٹا جائے گا۔‘‘ اس کے بعد میں نے دیکھا کہ اس کے ہاتھ کی ہتھیلی میں سخت درد شروع ہو گئی۔ اور وہ اس درد سے تڑپتا تھا۔ اور آخر اسی نامعلوم بیماری میں وہ دنیا سے گزر گیا۔
چنانچہ میاں محمد بخش کے متعلق پیشگوئی کے دراصل دو حصے تھے۔ اول اس کا ہاتھ کاٹا جائے گا۔ اور دوم اس کی اولاد حضرت مسیح موعود ؑ کے غلاموں میں شامل ہو جائے گی۔یہ دونوں پیشگوئیاں حضرت مسیح موعودؑ کی زندگی میں ہی پوری ہو گئیں۔
چنانچہ اس کے بیٹے حضرت شیخ نیاز محمد صاحبؓ کے مطابق 1901ء کے آخر میں ان کے والد کو ہاتھ میں کاربنکل کا پھوڑا نکلا جو مہلک ثابت ہوا۔ بیماری کے ایام میں انہوں نے کہا کہ تندرست ہونے کے بعد وہ حضرت اقدسؑ کی بیعت میں داخل ہوجائیں گے۔ مگر زندگی نے وفا نہ کی اور وہ 3؍ مارچ 1902ء کو فوت ہو گئے۔
حضرت مسیح موعود ؑ نے حقیقۃ الوحی میں میاں محمد بخش کے طاعون سے مرنے کا ذکر فرمایا۔
پیشگوئی کا دوسرا حصہ یوں پورا ہوا کہ والد کی وفات کے بعد شیخ نیاز محمد صاحب بٹالہ سے اپنی زمین واقع تحصیل حافظ آباد میں چلے آئے ۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ حسن اتفاق سے حضرت مولوی حکیم محمد دین صاحبؓ 1907ء میں ہمارے ایک مکان میں بحیثیت کرایہ دار رہنے لگے اور اس بزرگ کی پاک صحبت کے اثر سے یہ عاجز ان کے ہمراہ قادیان آیا۔ اور چونکہ ان ایام میں مجھے دینی واقفیت اچھی طرح نہ تھی اس لئے حضرت مولوی نورالدین صاحبؓ سے دو تین روز کے بعد ذکر کیا کہ حضرت صاحب کو مسیح اور مہدی مان لینا کوئی آسان کام نہیں۔ پہلے میں اہلسنت والجماعت کی کتب پڑھوں گا اور پھر حضرت اقدس ؑ کی کتب کا مطالعہ کر کے کوئی فیصلہ کروں گا۔ حضرت مولوی صاحبؓ نے فرمایا کہ زندگی کا کیا اعتبار ہے۔ میں آپ کو ایک آسان گر بتاتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے حضور دعا کریں، اگر حضور سچے ہوئے تو آپ پر حقیقت کھل جائے گی۔ چنانچہ میں نے نمازوں میں دعائیں کرنی شروع کر دیں۔ خدا تعالیٰ کے فضل سے دوسرے یا تیسرے روز مجھ پر ایک مبشر خواب کے ذریعہ سے حقیقت کھل گئی اور معاً مجھے اپنے والد صاحب کی آخری نصیحت بھی یاد آگئی تو میں نے حضرت مولوی صاحبؓ کی خدمت میں اپنی رؤیا اور والد صاحب کی آخری نصیحت کا ذکر کیا اور عرض کی کہ میں بیعت کرنے کے لئے آمادہ ہوں۔ اس وقت تقریباً 10-9بجے صبح کا وقت تھا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ نے بہت خوشی کا اظہار فرمایا اوراسی وقت مجھے حضرت اقدس ؑ کے دولت خانہ پر لے گئے اور اندر اطلاع کروائی۔ اس پر حضورؑ نے کمال شفقت سے بیت االدّعا کے ساتھ آنے والے دالان میں بلوا کر اس عاجز کی بیعت لی۔ میں نے بیعت کرنے سے پہلے حضور ؑ کی خدمت میں آبدیدہ ہو کر عرض کی کہ لَلہ میرے والد صاحب کو معاف فرمادیں۔ حضور ؑ نے فرمایا اچھا ہم نے معاف کر دیا۔ پھر میں نے عرض کی کہ لَلہ ان کیلئے دردِ دل سے دعا فرماویں۔ فرمایا بہت اچھا۔ حضرت اقدس ؑ چارپائی پر تشریف رکھتے تھے۔ میں نیچے بیٹھ گیا مگر آپؑ نے میرا ہاتھ کھینچ کر اوپر بٹھا لیا اور بیعت لینے کے بعد لمبی دعا فرمائی۔ اس کے بعد واپسی پر ہمیں راستہ میں خواجہ کمال الدین ملے تو حضرت مولوی صاحبؓ نے اُن کو کہا: اس لڑکے نے آج وہ کام کیا ہے کہ مجھے بھی اس پر رشک آرہا ہے اور میں چاہتا ہوں کہ کاش میری اولاد بھی میرے بعد میرے لئے اسی طرح نیک نامی کا باعث ہو۔ خواجہ صاحب کے پوچھنے پر فرمایا کہ اس نے اپنے والد صاحب کو حضور سے معاف کروایا ہے اور ان کیلئے دعا کروائی ہے۔
جب مَیں دوسری یا تیسری مرتبہ قادیان آیا تو حضرت سیدہ اماں جانؓ کے لئے ایک کپڑا لایا۔ حضورؑ نے کمال شفقت سے قبول فرمایا اور بہت خوشی خوشی اندر تشریف لے جاکر حضرت اماں جان ؓ کو ہنستے ہوئے وہ کپڑا دے کر فرمایا کہ یہ کپڑا محمد بخش تھانیدار جس نے لیکھرام کے قتل کے موقع پر تلاشی کے وقت تمہارے ٹرنک کھولے تھے، اس کے لڑکے نے دیا ہے۔
حضرت شیخ نیاز محمد صاحب بھی انسپکٹر پولیس تھے۔ آپ پولیس کی ملازمت سے ریٹائر ہوکر 1941ء میں مستقل طور پر قادیان آگئے اور کچھ عرصہ تک افسر حفاظت کے فرائض بھی سر انجام دئیے۔ 1947ء میں اپنے وطن گوجرانوالہ میں رہائش پذیر ہو گئے۔ وفات سے 2ماہ قبل آپ حضرت مصلح موعودؓ کے ارشاد پر ربوہ تشریف لائے اور 24 جولائی1954ء کو وفات پائی۔ آپ کی ایک بیٹی مکرمہ فرخندہ اختر صاحبہ حضرت سید محمود اللہ شاہ صاحب کے عقد میں آئیں۔