حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سادگی و بے تکلّفی
حضرت مسیح موعود ؑ کی زندگی نہایت سادہ اور ہر قسم کے تکلّف سے پاک تھی۔ یاد الٰہی اور خدمت دین میں آپ کو اس قدر استغراق رہتا تھا کہ لباس یا خوراک یا رہائش میں سہولتوں اور آرائش کی طرف بالکل توجہ نہیں ہوتی تھی۔ روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 13ستمبر 2004ء میں حضرت مسیح موعودؑ کی سادگی اور بے تکلّفی کے ضمن میں ایک مضمون مکرم بشیر احمد رفیق صاحب کے قلم سے شامل اشاعت ہے۔
حضور علیہ السلام کا لباس سادہ مگر صاف ستھرا ہوتا۔ سردیوں میں دودو جوڑے پہن لیا کرتے تھے۔ کسی خاص لباس یا کپڑے کا شوق نہ تھا۔تاہم انگریزی لباس پسند نہ تھا کیونکہ اس کے استعمال میں تکلف کا پہلو نکلتا تھا۔ جوتی ہمیشہ دیسی استعمال فرماتے۔ تنگ جوتی پسند نہیں تھی۔ جس مکان میں آپ نے زندگی گزاری، نہایت سادہ اور بے تکلفی کا ماحول لئے ہوئے تھا۔ حضرت مولوی عبد الکریم صاحبؓ فرماتے ہیں: حضرت مکان اور لباس کی آرائش اور زینت سے بالکل غافل اور بے پرواہ ہیں۔ اپنے کام میں اس قدر استغراق ہے کہ ان مادی باتوں کی طرف بالکل پروا نہیں۔ جب مہمانوں کی ضرورت کے لئے مکان بنوانے کی ضرورت پیش آئی ہے، بار بار یہی تاکید فرمائی ہے کہ اینٹوں اور پتھروں پر پیسہ خرچ کرنا عبث ہے، اتنا ہی کام کرو جو چند روز بسر کرنے کی گنجائش ہوجائے۔ نجّار تیربندیاں اور تختے رندہ سے صاف کر رہا تھا روک دیا کہ یہ محض تکلف اور ناحق کی دیر لگانا ہے۔ فرمایا: اللہ جانتا ہے کہ ہمیں کسی مکان سے کوئی اُنس نہیں۔ ہم اپنے مکانوں کو اپنے پیارے اور اپنے دوستوں میں مشترک جانتے ہیں اور بڑی آرزو ہے کہ مل کر چند روز گزار لیں۔ اور فرمایا کہ میری بڑی آرزو ہے کہ ایسا مکان ہو کہ چاروں طرف ہمارے احباب کے گھر ہوں اور درمیان میں میرا گھر ہو۔ اور ہر ایک گھر میں میری ایک کھڑکی ہو کہ ہر ایک سے ہر ایک وقت واسطہ ورابطہ رہے۔
چنانچہ جب مکان مہمانوں سے بھرا ہوا ہو اور حضرت کو تھوڑی سی جگہ رہنے کو میسر آئے تو آپ اس میں یوں رہتے ہیں جیسے سرائے میں کوئی گزارہ کرتا ہے اور کبھی نہیں سوچتا کہ یہ میری کوٹھڑی ہے۔
حضرت مسیح موعود ؑ کی غذا میں کسی قسم کا کوئی تکلف نہیں ہوتا تھا۔ خوراک بہت کم کھاتے۔ نوجوانی میں آپ نے متواتر چھ ماہ کے روزے رکھے۔ ان دنوں میں آپؑ نے چند مساکین اور غرباء کو پوشیدہ طور پر حکم دے رکھا تھا کہ دونوں وقت کا کھانا آپؑ سے لے جایا کریں۔ گھر سے جو کھانا آپؑ کے لئے آتا تھا، اس میں سے چند نوالے لے کر بقیہ کھانا مساکین کو دیدیا کرتے تھے۔ جس قدر کھانے پر آپ کا گزارہ تھا، اس قدر کھانے سے کسی اور شخص کا زندہ رہنا بھی محال ہوتا۔
آپ کا طریق تھا کہ روٹی کا ایک ٹکڑا ہاتھوں سے ریزہ ریزہ کر کے کھاتے۔ کھانا بہت آہستگی سے تناول فرماتے۔ سالن بہت ہی کم کھاتے تھے۔ کبھی کسی خاص کھانے کی فرمائش نہیں کی۔ کبھی کھانے پر اظہار ناراضگی نہیں فرمایا۔ آپؑ کے کھانے کا وقت کوئی خاص مقرر نہیں تھا۔
حضورؑ نہ صرف خود ظاہری شان و شوکت اور تکلفات کو ناپسند فرماتے تھے بلکہ چاہتے تھے کہ آپؑ کے مریدوں میں بھی بیجا تکلف اور نام و نمود کی خواہش نہ ہو۔ حضرت منشی ظفر احمد صاحبؓ آپ کے بے تکلف دوست تھے۔ وہ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ منشی اروڑاصاحبؓ اور میں نے حضورؑ کی خدمت میں عرض کی کہ کبھی کپورتھلہ بھی تشریف لائیں۔ ان دنوں ابھی کپورتھلہ میں ریل نہیں آئی تھی۔ حضور نے وعدہ فرمالیا اور ایک دن بغیر اطلاع دئیے تشریف لے آئے اور یکّہ سے اتر کر مسجد فتح والی میں تشریف لے گئے۔ مسجد سے حضورؑ نے مُلاّ کو ہمیں اطلاع دینے بھیجا۔ مُلّا نے اطلاع دی کہ مرزا صاحب مسجد میں تشریف فرما ہیں تو منشی اروڑا صاحبؓ نے تعجب انگیز ناراضگی کے لہجہ میں پنجابی میں کہا: ’’دیکھو تاں تیری مسیت وِچ آکے میرزا صاحب نے ٹھہرنا سی‘‘۔ میں نے کہا چل کر دیکھنا تو چاہئے۔ جب مسجد میں جاکر دیکھا تو حضورؑ فرش پر لیٹے ہوئے تھے اور حافظ حامد علی صاحب پاؤں دبا رہے تھے اور پاس ایک پیالہ اور چمچہ رکھا تھا جس سے معلوم ہوا کہ شاید آپ نے دودھ ڈبل روٹی کھائی تھی۔ منشی صاحبؓ نے عرض کی کہ حضور ہمیں اطلاع فرماتے تو ہم کرتارپور اسٹیشن پر حاضر ہوتے۔ حضور نے فرمایا: ’’اطلاع دینے کی کیا ضرورت تھی، ہم نے اپنا وعدہ پورا کرنا تھا، سو کرلیا‘‘۔
حضرت منشی ظفر احمد صاحبؓ مزید فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ لدھیانہ میں حضورؑ سیر کو تشریف لے جا رہے تھے۔ پیر میں پیوند لگا جوتا تھا اور بدزیب معلوم ہوتا تھا۔ میں ایک دکان سے بہت سبک جوتا خرید کر لایا اور واپس مکان پر آکر پیش کیا۔ آپ نے جزاکم اللہ فرما کر جوتا رکھ لیا اور پہن کر بھی دیکھا تو بہت ٹھیک تھا۔ لیکن اگلے دن سیر پر حضورؑ وہی پرانا جوتا پہنے ہوئے تھے۔ میں نے عرض کیا تو فرمایا: ’’مجھے اس میں آرام معلوم ہوتا ہے اور اس سے پیر کو موافقت ہوگئی ہے‘‘۔
حضرت مسیح موعود ؑ اپنا کام خود کرتے تھے اور ایسا کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے تھے۔ حضرت منشی صاحبؓ ہی کا بیان ہے کہ ایک دفعہ حضور دہلی سے واپسی پر امرتسر اترے۔ حضرت اماں جانؓ بھی ساتھ تھیں۔ حضورؑ نے ایک صاحبزادہ کو گود میں اور ایک وزنی بیگ دوسری بغل میں لیا۔ میں نے دو تین بار عرض کیا حضور یہ بیگ مجھے دیدیں۔ فرمایا: نہیں۔ ہم چل پڑے۔ اتنے میں دو تین نوجوان انگریزوں نے، جو اسٹیشن پر تھے، حضورؑ کا فوٹو لینے کی خواہش ظاہر کی تو آپؑ کھڑے ہوگئے اور انہوں نے اسی حالت میں حضورؑ کا فوٹو لیا۔
حضرت مسیح موعود ؑ کی نشست وبرخواست کس قد ر سادہ اور دلکش تھی۔ اس پرروشنی پر ڈالتے ہوئے حضرت منشی صاحبؓ تحریر فرماتے ہیں: کرنل الطاف علی خانصاحب نے مجھ سے کہا کہ میں حضرت صاحب سے تخلیہ میں ملنا چاہتا ہوں۔ میں نے کہا: تم اندر چلے جاؤ، باہر سے ہم کسی کو اندر نہیں جانے دیں گے، پوچھنے کی کچھ ضرورت نہیں۔ چنانچہ کرنل صاحب اندر چلے گئے۔ اور آدھ گھنٹہ کے بعد جب باہر آئے تو چشم پُرآب تھے۔ میرے پوچھنے پر بتایا کہ جب میں اندر گیا تو حضرت صاحب اپنے خیال میں بورئیے پر بیٹھے تھے۔ لیکن بورئیے پر حضور کا صرف گھٹنا ہی تھا، باقی زمین پر بیٹھے تھے۔ میں نے کہا: حضور زمین پر بیٹھے ہیں۔ تو حضور نے سمجھا کہ غالباً میں (یعنی کرنل صاحب ) بورئیے پر بیٹھنا پسند نہیں کرتا۔ اس لئے حضور نے اپنا صافہ بورئیے پر بچھا دیا اور فرمایا آپ یہاں بیٹھیں۔ یہ حالت دیکھ کر میرے آنسو نکل پڑے اور میں نے عرض کی کہ اگرچہ میں ولایت میں بپتسمہ لے چکاہوں مگر اتنا بھی بے ایمان نہیں ہوں کہ حضور کے صافہ پر بیٹھ جاؤں۔ حضور فرمانے لگے کچھ مضائقہ نہیں آپ بلاتکلف بیٹھ جائیں۔ میں صافہ ہٹا کر بورئیے پر بیٹھ گیا اور اپنا حال سنانا شروع کیا کہ میں شراب پیتا ہوں اور دیگر گناہ بھی کرتا ہوں لیکن میں آپ کے سامنے اس وقت عیسائیت سے توبہ کرکے احمدی ہوتا ہوں مگر جو عیوب مجھے لگ گئے ہیں، ان کو چھوڑ نا مشکل معلوم ہوتا ہے۔ حضور نے فرمایا: ’’استغفار پڑھا کرو اور پنجگانہ نماز پڑ ھنے کی عادت ڈالو‘‘۔ جب تک میں حضور کے پاس بیٹھا رہا، میں روتا رہا اور اسی حالت میں اجازت لے کر آگیا۔