حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی چھڑی
(مطبوعہ رسالہ انصارالدین یوکے مارچ اپریل 2025ء)

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی چھڑی (واکنگ سٹک)
(جو بھیرہ کے ایک صحابی کو بطور تحفہ عطا ہوئی)
فہرست مضامین
show

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابی حضرت قریشی غلام حسین صاحبؓ (ولادت 1860ء بیعت 1896ء وفات 1927ء) ایک خدا رسیدہ صوفی بزرگ تھے اور حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے خاص صحابہ میں سے تھے۔ حضورؑ آپؓ کی بہت قدر کرتے تھے۔ ان کے صاحبزادے قریشی عبد الرحمٰن صاحب (1900-1974ء) کا بیان ہے کہ حضرت مسیح موعودؑ نے ایک دفعہ اپنا ایک عصا ( walking stick ) حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ کے ہاتھ آپ کے لیے بھیجا تھا جو آپ کے گھر میں موجود ہے۔
حضرت قریشی صاحبؓ ایک صاحبِ کشف بزرگ تھے۔حضرت میاں خدابخش صاحبؓ صحابی ایک دفعہ اُن سے ملاقات کے لیے اُن کے مکان پر عام راستہ کی بجائے ایک کام کی وجہ سے گلیوں سے گزر کر پہنچے۔ جب آپؓ نے دستک دی تو حضرت قریشی صاحب نے باہر دیکھے بغیر بےساختہ فرمایا:’’خدا بخش تو آج گلیوں میں سے گھوم کر آیا ہے۔‘‘
حضرت قریشی صاحبؓ کا مکان کشمیری دروازہ بھیرہ کے قریب ہے۔ آپؓ جمعہ کی نماز کے لیے مسجد نور میں تشریف لاتے تھے جو شہر کے درمیان میں واقع ہے اور عیدین کی نماز کے لیے مسجد فضل تشریف لے جاتے تھے جو شہر کے دوسرے سرے پر واقع ہے۔ مکرم میاں فضل الٰہی صاحب ولد اسلام احمد صاحب صحابی کا بیان ہے کہ حضرت قریشی صاحبؓ کو بازار میں سے گزر کر مسجدوں میں جانا پڑتا تھا۔ بازار میں ہندوؤں وغیرہ کی دکانیں تھیں۔ آپؓ اکثر منہ ڈھانک کر جلدی جلدی گزر جاتے تھے۔ جب آپؓ سے ایسا کرنے کی وجہ پوچھی گئی تو کافی تامّل کے بعد فرمایا کہ بعض غیرمسلم مجھے مختلف جانوروں کی شکل میں نظر آتے ہیں۔ لہٰذا بوجہ کراہت، نظر بچا کر جلدی جلدی گزر جاتا ہوں۔ حضرت قریشی صاحبؓ کو کئی لوگ نذرانہ پیش کرتے تھے مگر آپ رشوت خور افسروں اور سود خور مہاجنوں سے نذرانہ قبول نہ کرتے تھے۔ جلسہ سالانہ قادیان میں شرکت کے لیے بھی تشریف لے جایا کرتے تھے۔
میرے والد مکرم میاں عبد الرحمٰن صاحب کو آپ سے بڑی عقیدت تھی۔ روزانہ فرصت نکال کر آپؓ کے پاس جاتے تھے اور تحفہ کھانڈ یا مصری لے جاتے تھے جو قریشی صاحب کو بہت مرغوب تھی۔ والد صاحب جماعت کے محصل بھی مقرر تھے۔ والد صاحب کی وفات (1924ء) کے بعد برادرم عطاء الرحمٰن صاحب سیکرٹری مال بنے۔ قریشی صاحب نے ان کو تاکید کر رکھی تھی کہ ماہ بماہ آکر چندہ لے جایا کریں۔ بھائی صاحب کا بیان ہے کہ کئی دفعہ ایسا ہوا کہ مَیں چندہ لینے گیا تو آپؓ کے پاس پیسے نہ ہوتے تھے۔ مجھے فرماتے کہ بیٹھ جاؤ ابھی دیتے ہیں۔ چنانچہ جلد ہی کوئی نہ کوئی شخص نذرانہ لے کر آتا تو اس میں سے چندہ ادا کردیتے۔ محترم قریشی عبد الرحمٰن صاحب کا بیان ہے کہ ان کے والد حضرت قریشی غلام حسین صاحب کو بوقت ضرورت ہمیشہ کسی نہ کسی طرف سے رقم آجاتی تھی اور آپؓ کی ضرورت کبھی نہ رکتی تھی۔
محترم ملک صاحب خان نون صاحب ریٹائرڈ ڈپٹی کمشنر حضرت قریشی صاحب کے بڑے معتقد تھے۔ بعد میں وہ احمدی ہو گئے۔
حضرت قریشی غلام حسین صاحبؓ کے فرزند مکرم قریشی عبد الرحمٰن صاحب (1898-1974ء)تھے۔ وہ بھی چندہ کی ادائیگی اکثر پیشگی کرتے تھے۔ اُن کے لڑکےمکرم قریشی احمد حسن صاحب (1931-2003ء) سرگودھا میں ملازمت کرتے رہے ہیں اور بہت مخلص احمدی تھے۔ (ماخوذ از ’’بھیرہ کی تاریخ احمدیت‘‘ مؤلفہ مکرم فضل الرحمٰن بسمل غفاری بی اے بی ٹی، سابق امیر جماعت احمدیہ بھیرہ۔ صفحہ 68 تا 70 و 134)

حضرت اقدس علیہ السلام کی واکنگ سٹک کی کہانی
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مقدس چھڑی یعنی walking stick اس خاندان میں محفوظ ہے اور نسلاً بعد نسل حضرت قریشی صاحب کے بیٹے اور پوتے کو ٹرانسفر ہوتی رہی ہے۔ بالآخر یہ walking stick قر یشی احمد حسن صاحب کے گھر پر سرگودھا میں تھی جب ان کے چھوٹے بیٹے قریشی متین شہزاد صاحب سے میرا رابطہ ہوا۔ جب قریشی احمد حسن صاحب ایک علی پور ضلع مظفر گڑھ کی سنوری فیملی میں اپنے ایک بیٹے کے نکاح کے سلسلہ میں تشریف لائے تو مَیں مظفرگڑھ کا امیرضلع تھا۔ جو عقیدت میرے آباؤ اجداد کو حضرت قریشی صاحب سے تھی اس کا ردّ عمل تھا کہ قریشی احمد حسن صاحب مجھے بڑی ہی محبت سے ملے اور یہ معلوم کر کے کہ اُن کا ایک ہم وطن امیر ضلع ہے، مجھے وفورِ محبت میں چوما۔
قریشی متین شہزاد صاحب جب سٹینڈرڈ چارٹرڈ بینک میں بطور بنک مینیجر ربوہ تعینات ہوئے تو میرے پوچھنے پر انہوں نے بتایا کہ حضرت مسیح موعودؑ کی چھڑی اُن کے گھر سرگودھا میں محفوظ ہے اور ان کے والد محترم قریشی احمد حسن صاحب کی وفات کے بعد ان کی والدہ محترمہ شمیم اختر صاحبہ بنت مکرم ملک عبد اللہ صاحب مرحوم سابق امیر جماعت بھیرہ نے ایک صندوق میں سنبھالی ہوئی ہے۔ بعدازاں ربوہ سے سٹینڈرڈ چارٹرڈ بنک کی برانچ بند ہوگئی اور متین شہزاد صاحب امریکہ چلے گئے۔ انہی دنوں خاکسار ریسرچ سیل ربوہ میں مکرم میر سید محمود احمد ناصر صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا تو بر سبیل تذکرہ ان سے حضرت مسیح موعودؑ کی اس چھڑی کا ذکر کیا۔ انہوں نے اسے دیکھنے کی شدید خواہش ظاہر کی۔
یہاں ضمناً یہ بھی ذکر کردوں کہ حضور علیہ السلام نے اپنی واکنگ سٹک حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ کے ہاتھ حضرت قریشی غلام حسین صاحبؓ کو تحفہ کے طور پر بھجوائی تھی۔ حضرت مفتی صاحبؓ کو بھی حضرت قریشی صاحب کے ساتھ للّٰہی محبت تھی۔ آپؓ بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بڑے مقرب صحابی تھے۔ آپؓ کی ابتدائی تربیت حضرت حکیم الامت مولوی نور الدین صاحبؓ نے فرمائی تھی۔ آپؓ اُن کی اہلیہ حضرت فاطمہ بی بی صاحبہؓ کے بھانجے تھے۔ چنانچہ آپؓ کی والدہ نے آپ کو بچپن میں ہی حضرت مولوی نور الدین صاحبؓ کے سپرد کر دیا تھا۔ حضرت مفتی صاحب کو حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے بطور مبلغ پہلے لندن اور پھر امریکہ بھجوایا تھا۔ آپؓ امریکہ کے بانی مبلغ شمار ہوتے ہیں۔ جب آپؓ لندن میں تھے تو آپؓ نے ایک خط بغرض دعا حضرت قریشی غلام حسین صاحبؓ کی خدمت میں لکھا تھا جو حضرت قریشی صاحبؓ کے خاندان میں محفوظ ہے۔ اس تاریخی خط کی عبارت درج ذیل ہے :
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ و نصلی و نسلم علی رسولہ الکریم
نمبر 40 اسٹار سٹریٹ
ڈبلیو نمبر 2 لنڈن
26 نومبر 1918 ء
مخدومی مکرمی حضرت میاں غلام حسین صاحب
السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ
چند روز ہوئے ایک عریضہ ارسال خدمت کیا تھا کہ ایک ابتلا درپیش ہے۔ اور دعا کے واسطے عرض کی تھی۔ ہنوز وہ پورے طور سے دور نہیں ہوا۔ مگر آپ کی دعاؤں سے امید ہے کہ ان شاء اللہ جلد کامیابی ہوگی۔ کل شام میں نے آنمخدوم کو خواب میں دیکھا۔ چہرہ پر رونق ہے۔ گلے لگ کر ملے اور رقت طاری ہوئی۔ پھر آپ نے کھانے کے واسطے اصرار فرمایا۔ میں نے عرض کی کہ کہیں جارہا ہوں۔ واپسی پر آپ کے ہاں کھانا کھاؤں گا۔ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے اس رؤیا کو مبارک کرے۔ آمین
بخدمت صاحبزادگان و اہل بیت سب کو سلام و دعا عرض ہے۔ جمیع احباب احمدیہ کی خدمت میں السلام علیکم عرض۔ بالخصوص میاں احمد دین صاحب مستری۔
والسلام
عاجز محمد صادق، عفااللہ عنہ
بابرکت چھڑی کی زیارت


خاکسار نے حضور علیہ السلام کی بابرکت چھڑی دیکھنے کی خواہش ظاہر کی ہوئی تھی۔ چنانچہ ایک روز محترمہ شمیم صاحبہ اپنے دو بچوں کے ہمراہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی چھڑی لے کر ربوہ میں ہمارے غریب خا نہ پر تشریف لے آئیں۔ اتفاق سے اس وقت گھر میں میرے داماد عبیداللہ خان، محترم کمال یوسف صاحب، میرے سمدھی پروفیسر رفیق احمد ثاقب صاحب اور ان کا بیٹا ناصر بھی چائے پر مدعو تھے۔ کافی کوشش کے باوجود بھی فون پر مکرم محترم میر محمود احمد ناصر صاحب سے رابطہ نہ ہوسکا تو ہم سب میر صاحب کی خدمت میں اُن کے گھر ’’بیت الصفہ‘‘ پہنچ گئے اور بابرکت چھڑی اُن کو دکھائی جس سے انہوں نے نہایت محبت سے برکت حاصل کی۔ ہم سب نے اس چھڑی کے ساتھ تصاویر بھی بنوائیں۔
یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی چھڑیاں (Hand Sticks) بھیرہ سے حضرت مولا بخش صاحبؓ صحابی بنا کر بھجوایا کرتے تھے جن کے والد حضرت فضل احمد صاحب کی بھیرہ محلہ احمدیہ میں ورکشاپ تھی جہاں تلواریں، کرپانیں اور ہینڈ سٹکس وغیرہ بنتی تھیں۔ حضرت مولا بخش صاحبؓ حضرت مصلح موعودؓ کے ہم عمر تھے اور لڑکپن میں وہ اپنے بزرگوں کے ساتھ قادیان جاتے رہے ہیں۔ ان کی بعض ایمان افروز روایات رجسٹر روایات (نمبر 13 صفحہ 4) میں درج ہیں۔ اُن کی شادی مکرم پروفیسر میاں عطاءا لرحمٰن صاحب وائس پرنسپل تعلیم الاسلام کالج ربوہ کی بڑی ہمشیرہ سے ہوئی تھی۔ مکرم پروفیسر میاں عطاءالرحمٰن صاحب کی اولاد اور بعض دوسرے احباب نے بھی confirm کیا ہے کہ حضور علیہ السلام کی ہینڈ سٹکس حضرت مولا بخش صاحبؓ کے والد صاحب کی ورکشاپ سے بن کر جایا کرتی تھیں۔ ذالک فضل اللہ یوتیہ من یشآء واللہ ذوالفضل العظیم
حضرت مولا بخش صاحب اور ان کے والد صاحب کا ذکر بھیرہ کی تاریخ احمدیت میں موجود ہے۔