حضرت مصلح موعودؓ کا کشمیر کمیٹی کی صدارت سے استعفیٰ
آل انڈیا کشمیر کمیٹی 1931ء میں قائم ہوئی جس کے پہلے صدر حضرت مصلح موعودؓ تھے۔ اس کمیٹی کی مساعی کے نتیجہ میں کشمیریوں کو حقوق ملنے کا آغاز ہوگیا اور کئی کشمیری رہا کردیئے گئے۔ کشمیر کمیٹی کی کامیابیوں کو دیکھ کر برصغیر کی بعض سیاسی اور مذہبی شخصیات نے اپنے خاص مقاصد حاصل کرنے کے لئے احمدیوں کی کشمیر کمیٹی کے لئے خدمات پر اعتراض کیا اور سازشیں شروع کردیں۔ نتیجۃً حضرت مصلح موعودؓ نے کمیٹی کی صدارت سے استعفیٰ دیدیا۔ بعد کے حالات نے ثابت کردیا کہ سازشیں کرنے والوں نے کشمیر کاز کو کس قدر نقصان پہنچایا۔ اس حوالہ سے مکرم پروفیسر راجہ نصراللہ خانصاحب کا ایک مضمون روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 5 ، 6 اور 10؍اگست 2002ء میں شامل اشاعت ہے۔
انگریزی اخبار ’’سول اینڈ ملٹری گزٹ‘‘ 4؍مئی 1933ء میں کشمیر کمیٹی کے بعض ممبران کے حوالہ سے یہ بیان شائع ہوا کہ آئندہ کمیٹی کا صدر غیرقادیانی ہوا کرے۔ نیز 13؍ارکان نے حضورؓ کے نام اپنے خط میں لکھا کہ عہدیداران کے انتخاب کے لئے کمیٹی کا اجلاس بلانا ضروری ہے۔ چنانچہ حضورؓ نے 7؍مئی 1933ء کو سیسل ہوٹل لاہور میں کمیٹی کا ایک ہنگامی اجلاس بلوایا اور مذکورہ خط کا حوالہ دے کر فرمایا کہ مَیں نے گزشتہ سال خود یہ خواہش ظاہر کی تھی کہ اب عہدہ داروں کا نیا انتخاب ہوجانا چاہئے۔ حضورؓ نے کمیٹی کے تمام ممبران کا اُن کے تعاون پر شکریہ بھی ادا کیا۔ پھر کمیٹی میں کئی قراردادیں پیش کی گئیں جن میں سے ایک میں انگریزی اخبار میں شائع ہونے والے بیان سے لاتعلّقی کا اظہار کرتے ہوئے حضورؓ کی خدمات کو سراہا گیا اور آپؓ کا دلی شکریہ ادا کیا گیا اور دلی افسوس کے ساتھ آپؓ کا استعفیٰ قبول کیا گیا۔
حضورؓ کے استعفیٰ کے بعد مظلومانِ کشمیر کا کوئی پُرسان حال نہ رہا۔ کئی کشمیریوں کو گرفتار کرلیا گیا۔ جس پر تین کشمیری راہنماؤں (بشمول شیخ عبداللہ صاحب) نے جیل سے حضورؓ کی خدمت میں ایک مکتوب تحریر کیا اور امداد کے طالب ہوئے۔ انہوں نے لکھا کہ ’’گو ہمیں اس امر کا ازحد صدمہ ہے کہ حضور نے اپنا دست شفقت بعض کم فہم احباب کی وجہ سے ہمارے سر پر سے اٹھالیا مگر آپ کی ذات سے ہمیں پوری امید ہے کہ حضور اس آڑے وقت میں ہماری راہنمائی فرماکر ہمیں ممنون و مشکور فرماویں گے اور ہمارے لئے ساتھ ہی دعا بھی فرماویں …‘‘۔
جب حالات بد سے بدتر ہوتے چلے گئے تو بعض دیگر کشمیری راہنماؤں (بشمول غلام عباس صاحب) نے حضورؓ کی خدمت میں ایک اَور عریضہ لکھا کہ ’’… آنجناب نے جو کچھ اس وقت تک مظلومانِ کشمیر کیلئے کیا ہے، وہ کسی سے پوشیدہ نہیں اور کسی تشریح کا محتاج نہیں۔ بندہ کو امید واثق ہے کہ آنجناب اپنے گزشتہ ایثار کے پیش نظر پھر مظلوم مسلمانان کشمیر کی حمایت کے لئے کمربستہ ہوجائیں گے کیونکہ حالات سخت نازک صورت اختیار کر رہے ہیں اور آنجناب کی مساعی جمیلہ کی ازحد ضرورت ہے…‘‘۔
مولانا غلام رسول مہر مدیر ’’انقلاب‘‘ نے اپنے اخبار میں لکھا کہ مرزا صاحب کا استعفیٰ منظور نہیں ہونا چاہئے، میری دیانتداری کے ساتھ یہ رائے ہے کہ اس سے کشمیر کمیٹی کے اختیارکردہ کام میں خلل پڑ جائے گا۔
ممتاز صحافی سید حبیب نے لکھا کہ مَیں جلسہ میں موجود نہ تھا، معلوم ہوا ہے کہ اس جلسہ میں مرزا صاحب کا استعفیٰ منظور کرلیا گیا ہے (اور ڈاکٹر اقبال کا تقرر عمل میں آیا ہے)۔ مَیں خوش ہوں کہ ایسا ہوا اس لئے کہ میری دانست میں اپنی اعلیٰ قابلیت کے باجود ڈاکٹر اقبال اور ملک برکت علی صاحب دونوں اس کام کو چلا نہیں سکیں گے اور یوں دنیا پر واضح ہوجائے گا کہ جس زمانہ میں کشمیر کی حالت نازک تھی، اس زمانہ میں جن لوگوں نے اختلافِ عقائد کے باوجود مرزا صاحب کو صدر منتخب کیا، انہوں نے کام کی کامیابی کو زیرنگاہ رکھ کر بہترین انتخاب کیا تھا۔ اگر مرزا صاحب کو منتخب نہ کیا جاتا تو تحریک بالکل ناکام رہتی ۔ میری رائے میں مرزا صاحب کی علیحدگی کمیٹی کی موت کے مترادف ہے۔
سید حبیب کا یہ تبصرہ سچ ثابت ہوا اور علامہ اقبال نے 20؍جون 1933ء کو کمیٹی کی صدارت سے استعفیٰ دے دیا۔ اس سے قبل انہوں نے ہندوستان کے مسلمانوں کے نام رقم کی فراہمی کے لئے ایک اپیل جاری کی جس میں حضورؓ کی ٹھوس عملی خدمات کا برملا اعتراف کیا۔
حضورؓ کے استعفیٰ کے لئے سازباز آل انڈیا مجلس احرار نے کی تھی جس کا متعدد کشمیری راہنماؤں نے بار بار ذکر کیا۔ دراصل احراریوں نے مہاراجہ کشمیر سے کافی رقم رشوت کے طور پر وصول کی اور حضورؓ کی مخالفت کی آگ بھڑکاکر حضورؓ کو کشمیر کمیٹی سے علیحدہ کرنے کیلئے سازشیں کیں۔ اس سلسلہ میں احراریوں کے کئی وفود کشمیر آئے اور سرکاری مہمان کے طور پر مہاراجہ کے پاس قیام کیا۔ سید حبیب ’’تحریک قادیان‘‘ میں لکھتے ہیں:
مظلومین کشمیر کی امداد کے لئے صرف دو جماعتیں پیدا ہوئیں۔ ایک کشمیر کمیٹی، دوسری احرار۔ اب دنیا تسلیم کرتی ہے کہ کشمیر کے یتامیٰ ، مظلومین اور بیواؤں کے نام سے روپیہ وصول کرکے احرار، شیرمادر کی طرح ہضم کرگئے۔ اُن میں سے ایک لیڈر بھی ایسا نہیں جو بالواسطہ یا بلاواسطہ اس جرم کا مرتکب نہ ہواہو۔ کشمیر کمیٹی نے انہیں دعوت اتحاد عملی دی مگر اس شرط پر کہ کثرت رائے سے کام ہو اور حساب باقاعدہ رکھا جائے۔ انہوں نے دونوں اصولوں کو ماننے سے انکار کردیا۔ مرزا محمود احمد صاحب صدر کشمیر کمیٹی نے تندہی، محنت، ہمت، جانفشانی اور بڑے جوش سے کام کیا اور اپنا روپیہ بھی خرچ کیا۔
حضورؓ کے دورِ صدارت میں کشمیریوں کو جو حقوق ملنے شروع ہوئے، وہ تھے: مذہبی آزادی مثلاً اذان شروع ہوگئی، مقدس مقامات کی واپسی جن کا انتظام مسلمانوں کے سپرد کردیا گیا، تعلیمی ترقی کے لئے عربی کے اساتذہ اور مسلمان انسپکٹرز کو ملازمتیں دی گئیں، ملازمتیں آبادی کے تناسب سے دینے کا وعدہ کیا گیا، مالکانہ کی وصولی ختم ہوگئی، عوام کو اُن کی زیرقبضہ زمینوں کے حقوق دیدئے گئے اور سات تحصیلوں میں کاہ چرائی ٹیکس معاف کردیا گیا۔
25؍مارچ 1934ء کو آل انڈیا کشمیر کمیٹی کے اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ اس کا نام کمیٹی کی جگہ ایسوسی ایشن رکھا جاتا ہے جس کا صدر سید حبیب کو مقرر کیا گیا۔ ایسوسی ایشن کی درخواست پر حضرت مصلح موعودؓ نے تمام مالی اخراجات، وکلاء اور کارکنان کا بندوبست اپنے ذمہ لینا منظور فرمایا۔
4؍اگست 1934ء کو حضورؓ کی ہدایت پر مسلمانانِ کشمیر کے مفادات کے تحفظ کیلئے سہ روزہ اخبار ’’اصلاح‘‘ جاری کیا گیا جو بعد میں ہفت روزہ ہوگیا۔ اس میں جس دلیری سے مسلمانوں کے حقوق کے لئے آواز اٹھائی گئی اس وجہ سے کئی بار حکومت کے عتاب کا شکار ہوا۔
1934ء میں جب کشمیر کی پہلی اسمبلی کے لئے انتخابات کا مرحلہ آیا تو کشمیریوں کی گرفتاریوں پر احتجاج کرتے ہوئے شیخ عبداللہ نے انتخابات کے بائیکاٹ کا فیصلہ کیا۔ اس پر حضورؓ نے ایک ٹریکٹ کے ذریعہ کشمیریوں کو توجہ دلائی کہ بائیکاٹ نہ کریں کیونکہ اس طرح غدار اسمبلی میں پہنچ جائیں گے۔ چنانچہ حضورؓ کی ہدایت پر مسلم کانفرنس نے اپنے نمائندے کھڑے کئے اور سوفیصد کامیابی حاصل کی۔
جون 1944ء میں جب چیف جسٹس کشمیر کی سربراہی میں ایک تحقیقاتی کمیشن قائم ہوا تاکہ ریاست کے نظام حکومت اور آئین کو بہتر شکل دی جائے تو اس کمیشن میں مسلمانوں کا مؤقف پیش کرنے کے لئے حضورؓ کی راہنمائی پر تین احمدیوں کی خدمات پیش کی گئیں یعنی خواجہ غلام نبی گلکار صاحب، خواجہ عبدالرحمن ڈار صاحب اور چودھری عبدالواحد صاحب مدیر اعلیٰ ’’اصلاح‘‘۔ نیز حضورؓ نے مولوی عبداللہ ناصرالدین صاحب کو بھی بھجوایا جنہوں نے وید کی تعلیمات کی رُو سے ایسے قوانین کو ردّ کردیا جن کے مطابق کشمیر میں کسی شخص کو گائے ذبح کرنے پر سات سال قید کی سزا دی جاتی تھی اور مذہب تبدیل کرنے پر اُس کو بیوی بچوں اور جائیداد سے محروم ہونا پڑتا تھا۔
تقسیم ہند کے بعد حضرت مصلح موعودؓ کی ہی کوششوں سے کشمیر میں سردار ہری سنگھ کو برطرف کرکے عارضی جمہوریہ حکومت کشمیر قائم کی گئی جس کے صدر خواجہ غلام نبی صاحب گلکار انور مقرر ہوئے اور سردار محمد ابراہیم خان وزیراعظم بنائے گئے۔ اگلے دو تین روز میں نئی حکومت کے تقرر کا اعلان مختلف اخبارات میں اور مظفرآباد میں ریڈیو سے کیا جاتا رہا۔
خواجہ غلام نبی صاحب گلکار انور 1909ء میں پیدا ہوئے۔ تحریک آزادی کشمیر کے ایک پُرجوش کارکن اور اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان تھے۔ جب حضرت مصلح موعودؓ 1929ء میں کشمیر تشریف لے گئے تو آپ کو حضورؓ کی مجالس سے خوب استفادہ کرنے کا موقع ملا اور 1930ء سے آپ نے اصلاحی پبلک تقاریر کا سلسلہ جاری کیا جس میں حضورؓ کی نصائح کے مطابق تعلیم اور اتحاد کا پرچار کیا۔ اُن ایام میں ریاست میں انجمن بنانا جرم تھا اس لئے آپ نے مسجدوں، دعوتوں، خانقاہوں اور میلوں وغیرہ کا سہارا لے کر لیکچرز دیئے۔ آپ تحریک آزادی کشمیر کے ہراول دستہ میں شامل تھے۔