حضرت مصلح موعودؓ کی اذان سے محبت کے چند واقعات

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 6؍مئی 2006ء میں مکرم عبدالسمیع نون صاحب کے قلم سے حضرت مصلح موعودؓ کی اذان سے محبت کے چند واقعات شامل اشاعت ہیں۔
ایک شام مجلس عرفان کے بعد جب کسی نے اذان کہی تو حضورؓ نے فرمایا کہ اس اذان کی آواز تو میرے ساتھ کے گھر میں بھی نہیں گئی۔ اس پر ایک اَور شخص نے کوشش کی تو حضورؓ کو وہ بھی پسند نہ آئی اور فرمایا کہ اذان میں صرف بلند آواز ہی نہیں بلکہ نغمگی بھی ہونی چاہئے۔ بہرحال تین چار لوگوں کی اذان سننے کے بعد آپؓ نے ارشاد فرمایا کہ ہر محلہ میں اذان کہنے کے مقابلے کروائے جائیں۔ چنانچہ پھر جو طرز آپؓ کو پسند آئی، وہ لاہور سے ہوتی ہوئی حضورؓ کے ساتھ ہی ربوہ بھی پہنچی۔ آپؓ ہی نے ایک بار بیان فرمایا تھا کہ ایک پادری کی بیٹی کسی اذان دینے والے کی نغمگی سے متأثر ہوکر اسلام کی طرف مائل ہوگئی تو پادری نے اُس کی جگہ ایک ایسے شخص کو درپردہ اذان دینے پر رکھوایا جس کی آواز کرخت تھی۔ چنانچہ وہ لڑکی اَنْکَرالْاَصْوَات کی وجہ سے اسلام سے نفور ہوگئی۔
تقسیم ہند سے پہلے لاہور کے قریب کسی گاؤں میں سکھوں نے مسلمانوں کو اذان دینے سے روک دیا۔ حضرت مصلح موعودؓ کو علم ہوا تو بہت مضطرب ہوئے اور محترم گیانی واحد حسین صاحب کو بھیجا۔ گیانی صاحب نے گاؤں میں پہنچتے ہی مسجد کی چھت پر چڑھ کر بلند آواز سے اذان کا گورمکھی ترجمہ نغمگی کے ساتھ پڑھنا شروع کردیا۔ سکھوں نے جب خوبصورت آواز سنی تو گیانی صاحب کو ہاتھوں ہاتھ لیا اور بہت عزت افزائی کی۔ تب آپ نے سکھوں کو بابا گورونانکؒ کے شبد سنائے کہ اذان اور نماز کے بارہ میں اُن کی یہ تعلیم تھی اور مَیں بھی اذان کا ترجمہ ہی پڑھ رہا تھا۔ اس پر سکھوں نے کہا کہ ہمیں اس توحید کے سبق کو دہرانے پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔ چنانچہ اذان دوبارہ شروع ہوگئی۔
قیام پاکستان کے بعد ابتدائی جلسہ سالانہ کے ایام آئے تو حضورؓ کے حکم پر چھوٹے سائز کی گھاس پھونس کی جھونپڑیاں بنائی گئیں جن میں حاضرین کا قیام و طعام ہوتا۔ حضورؓ کا ارشاد تھا کہ ہر نماز کے وقت ہر ایک جھونپڑی میں آدمی اذان دے۔ چنانچہ نماز کا وقت ہوتا تو ہزاروں اذانوں سے فضا معمور ہوجاتی۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں