حضرت مصلح موعودؓ کی زرّیں ہدایات
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 16؍فروری 2010ء میں مکرم مولوی عبدالرحمن صاحب انور کے قلم سے سیدنا حضرت مصلح موعودؓ کی چند زرّیں ہدایات ہدیۂ قارئین کی گئی ہیں جو ماہنامہ ’’خالد‘‘ ربوہ کی دو پرانی اشاعتوں (اپریل و مئی 1970ء) سے منقول ہیں۔ ان ہدایات سے حضورؓ کی عظیم الشان انتظامی صلاحیتوں کی ایک جھلک دیکھی جاسکتی ہے۔ محترم مولوی عبدالرحمن انور صاحب لکھتے ہیں:
محض قیاس پر بنیاد نہ ہو: حضورؓ نے دفتری کام کے متعلق ہدایات میں خاکسار کو اس امر کی طرف متعدد مرتبہ توجہ دلائی کہ کسی کام کے متعلق بعض امور پر قیاس کرکے آخری نتیجہ قائم نہیں کر لینا چاہئے۔ مثلاً یہ کہ چونکہ فلاں شخص فلاں جگہ روانہ ہو جانے کے لئے کہہ رہا تھا اس لئے وہ ضرور وہاں پہنچ گیا ہو گا بلکہ جب تک یقینی اطلاع نہ مل جائے اُس وقت تک اسے وہاں پہنچا ہوا قرار نہ دیا جائے۔ حضورؓ فرمایا کرتے تھے کہ محض قیاس پر بنیاد رکھ کر فیصلہ کرلینا شیطانی کام ہے۔
باقاعدہ ڈائری: حضورؓ کا تاکیدی ارشاد ہوا کرتا تھا کہ باقاعدہ ڈائری رکھنا بہت مفید ہوتا ہے جس میں اہم روزانہ کاموں کو درج کیا جاتا رہے تاکہ روزانہ اپنے اوقات کے صحیح طور پر صرف ہونے کا علم ہوتا رہے اور اپنے اعمال کا محاسبہ بھی ہوتا رہے۔ ڈائری کے متعلق ارشاد تھا کہ رات کو اس کی تکمیل کرکے سونا چاہئے۔
حفاظت کے متعلق تجاویز: ایک موقعہ پر حفاظت کے موضوع پر ہدایات دیتے ہوئے حضورؓ نے فرمایا کہ ایسے موقعہ پر حسن ظنی کرنا ادائیگی فرض نہیں ہوتا بلکہ فرض میں کوتاہی شمار ہوتا ہے۔ ایسے موقعہ پر ہر اُس ممکن صورت کو ذہن میں لانا ضروری ہوتا ہے جس کا ارتکاب کسی دھوکے باز دشمن کی طرف سے متوقع ہو سکتا ہے۔ کیونکہ حسن ظنی کا حکم تو باہمی دوستوں کے ساتھ معاملات میں ملحوظ رکھنے کے لئے ہے۔
دلجوئی: حضور فرمایا کرتے تھے کہ جس کام کو کوئی دوسرا آدمی سرانجام دے سکتا ہے اس کے متعلق یہ یقین رکھنا چاہئے کہ اُسے تم خود بھی سرانجام دے سکو گے۔ چنانچہ ایک دفعہ جبکہ مَیں تحریک جدید میں تھا کہ کچھ نوجوانوں کو فوری طور پر بیرونی ممالک میں بھجوانا تھا۔ خاکسار کو بیرونی ممالک کا کوئی تجربہ نہ تھا اس لئے حضور نے ایسے کاموں کے لئے حضرت مولوی عبدالرحیم نیّر صاحبؓ کو مقرر فرمایا ہوا تھا کہ اخراجات سفر کا اندازہ وہ بتلا دیا کریں۔ لیکن اتفاق ایسا ہواکہ نیّر صاحب اچانک بیمار ہو گئے اور اخراجات کا تخمینہ پیش کرنے میں دیر ہوگئی۔ حضورؓ نے وجہ دریافت فرمائی تو خاکسار نے اُن کی بیماری کا ذکر کیا۔ حضورؓ نے فرمایا: الٰہی کاموں کا انحصار کسی خاص شخص پر نہیں ہوا کرتا کہ اس کی وجہ سے کام رُکا رہے ۔ اس پر خاکسار نے محترم نیر صاحب سے ضروری لٹریچر کے متعلق معلومات حاصل کیں اور پھر مطالعہ کرکے اندازۂ خرچ حضورؓ کی خدمت میں پیش کر دیا۔ حضورؓ نے ازراہ کرم میرے پیش کردہ اندازہ کو ہی منظور فرما لیا اور خاکسار کی دلجو ئی فرمائی۔
اپنے ہاتھ سے کام: حضور کام کو حتی الوسع اپنے ہاتھوں سے ہی سرانجام دینے کی نصیحت فرمایا کرتے تھے۔ چنانچہ تحریک جدید کے ابتدائی تین چار ماہ میں سوائے روانگی ڈاک وغیرہ کے باقی سب کام خاکسار ہی سرانجام دیتا تھا اور خود حضور کا اپنا عمل بھی اپنی بیماری سے پہلے یہی تھا کہ ڈاکخانہ سے مقفل تھیلے میں آمدہ ڈاک کو خود کھولتے اور لفافوںپر اپنے قلم سے ہدایات تحریر فرماتے۔ احرار کے فتنہ کے ایام میں جب ایک مرتبہ قصر خلافت کے بڑے کمرہ میں سفیدی کی جانے والی تھی دیکھاکہ فرش پر دائرہ کی شکل میں مختلف قسم کی ڈاک کو حضور نے sort کرکے رکھا ہوا تھا۔ حضورؓ نے ہدایت فرمائی کہ یہ ڈاک جس طور پر رکھی ہوئی ہے اسے اسی طرح رہنے دیاجائے اور اوپر سے کسی کپڑے سے ڈھانپ دیا جائے اور پہرہ دار ہر وقت یہاں موجود رہے اور اگر یہ اہتمام نہ ہو سکے تو بیشک اس کمرہ کی سفیدی فی الحال نہ کی جائے۔
تفسیر کبیر کی پہلی جلد: جب تفسیر کبیر کی پہلی جلد شائع ہوئی تو حضورؓ کی ہدایت تھی کہ جس وقت پہلی کتاب مجلد تیار ہو، حضورؓ کی خدمت میں اسی وقت پیش کی جائے۔ چنانچہ رات کے تین بجے کے قریب پہلی جلد مکمل ہوئی تو خاکسار اسے لے کر حضور کی خدمت میں پیش کرنے کے لئے گیا۔ گول سیڑھیوں میں کھڑے ہو کر السلام علیکم کہا تو حضورؓ فوراً ہی خود تشریف لائے اور کتاب وصول فرمائی اور خوشی کا اظہار فرمایا۔
کام کی تکمیل: سندھ کی اسٹیٹس کے کام اور حسابات کی نگرانی کے لئے جب حضورؓ سندھ تشریف لے جاتے تو اکثر رات کے ایک دو بجے تک سب کارکنا ن میں تشریف فرما ہوکر سب حسابات خود چیک فرماتے اور یہ کام فرش پر بیٹھ کر ہی سرانجام دیتے۔ اپنے ساتھ کام کرنے والوں کی ٹریننگ میں بھی حضور کا یہی طریق تھا کہ زیادہ سے زیادہ وقت لگا کر وہ کام کو جلد از جلد مکمل کریں۔ چنانچہ ایک دفعہ جبکہ تحریک جدید کا کام بڑھ گیا تو بجائے عملہ میں اضافہ کرنے کے حضورؓ نے 12گھنٹے روزانہ کام کرنے کا ارشاد فرمایا کہ دفتر صبح 9بجے سے رات کے 9بجے تک ایک ماہ تک کھلا رہا کرے جس کی تعمیل ہوئی۔ ایک دفعہ تحریک جدید کے بجٹ کی تکمیل تک دفتر کو کھلا رکھنے کا ارشاد موصول ہوا تو دفتر ساری رات کھلا رکھا گیا اور اگلے دن صبح 8بجے بجٹ حضورؓ کی خدمت میں پیش کیا گیا۔
ایک مرتبہ حضور سندھ تشریف لے گئے تو محمد آباد اسٹیٹ کے عملہ کے متعلق حضورؓ کو احساس ہوا کہ کارکنان پوری توجہ نہیں دے رہے۔ حضورؓ نے اسسٹنٹ ایجنٹ کا تنزل کرکے مینجر کر دیا اور مینجر کو منشی کی اسامی سپرد کی اور جس منشی کا کام زیادہ خراب تھا اسے فارغ کر دیا اور خاکسار کو مرکزی دفتر کے کام سے فارغ کرکے بطور اسسٹنٹ ایجنٹ مقرر فرمایا اور ارشاد فرمایا کہ روزانہ ایک ماہ تک پانچ گھنٹے گھوڑے پر سوار ہو کر اسٹیٹ کے کام کی نگرانی کرو۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ایک ماہ میں ساڑھے سات ہزار ایکڑ اراضی جو لمبائی میں 7میل میں پھیلی ہوئی تھی اس کی ایک ایک چوکڑی کی پوری کیفیت اور مزارعان کے متعلق پوری معلومات حاصل ہو گئیں بلکہ ارد گرد کے زمینداروں سے متعارف ہونے اور تعلقات بڑھانے کے مواقع بھی میسر آئے۔
وقار کا خیال: 1954ء میں گورنر مغربی پاکستان کے حکم سے DSP جھنگ حضورؓ کے مکان کی تلاشی کا نوٹس لے کر ربوہ آئے۔ جن حالات کا علم ہوا تھا خطرہ اس سے کہیں زیادہ معلوم ہوتا تھا۔ یہ لوگ نیچے دفتر پرائیویٹ سیکرٹری میں تھے۔ حضورؓ نے خاکسار کو اوپر یاد فرمایا اور اندرونی برآمدہ کی جانب لے جاکر صرف یہ مختصر فقرہ فرمایا کہ ان لوگوں کے ارادے کچھ اچھے معلوم نہیں ہوتے۔ اس لئے میں صرف یہ کہنا کافی سمجھتا ہوں کہ ’’اس بات کا خیال رکھنا کہ تم میرے پرائیویٹ سیکرٹری ہو۔‘‘ حضور کی اس طور کی یاددہانی نے میرے اندر ایک عجیب خاص ذمہ دارانہ کیفیت پیدا کر دی۔ جو غالباً زیادہ لمبی نصائح سے بھی پیدا نہ ہوتی۔
دفاتر کا طریق کار: کسی شخص کے کسی کام کے مناسب معلوم ہونے کے بعد عام دنیوی دفاتر کے طریق کار کوملحوظ رکھنا حضور کے نزدیک ضروری نہ ہوتا تھا۔ کیونکہ حضورؓ خوب سمجھتے تھے کہ حضور کی تربیت کے نتیجہ میں کسی دقّت کے پیش آنے کا خطرہ نہیں۔ دفاتر کے عام طریق میں ایک ہی محکمہ میں باپ بیٹے۔ دو سگے بھائیوں وغیرہ کو اکٹھا نہیں رکھا جاتا۔ لیکن حضور کے بصیرت افروز فیصلہ کے ماتحت ایسے اوقات بھی آئے کہ خاکسار انچارج تحریک جدید اور والد بزرگوار مکرم مولوی محمد عبداللہ صاحب ایک ماتحت صیغہ بورڈنگ دارالصناعت کے سپرنٹنڈنٹ ہیں۔ اسی طرح ایسا موقعہ بھی آیا کہ میرے چھوٹے بھائی عزیزم حافظ قدرت اللہ صاحب کو بطورپرائیویٹ سیکرٹری مقرر کیا گیا اور خاکسار کو بطور اسسٹنٹ پرائیویٹ سیکرٹری ان کے ماتحت کام کرنے کا موقعہ ملا۔ اس سارے عرصہ میں باہمی کوئی دقت کسی کے لئے پیش نہیں آئی۔
پختہ عزم: تحریک جدید کے کام کے متعلق حضور کی اصولی ہدایت یہ ہوا کرتی تھی کہ جس کام کو کرنا ضروری ہو اور دل سے انسان اس کو کرنا چاہے اس کے لئے کوئی امر روک نہیں بن سکتا۔ اس امر کو ذہن میں رکھ کر پھر پوری توجہ دے کر کام کو اللہ تعالیٰ پر کامل بھروسہ رکھتے ہوئے شروع کر دیا جاوے تو اللہ تعالیٰ اس میں کامیابی عطا فرماتا ہے۔
حساب کتاب: ایک مرتبہ حضور نے ناصر آباد سندھ میں فرمایا کہ جو کوارٹر تعمیر ہوئے ہیں، حساب لگائو کہ ان کھڑکیوں، دروازوں اور ان کی چھتوں پر کتنی شہتیریاں خرچ ہوئی ہیں۔ خاکسار نے تین دن لگا کر موجودہ پیمائش کے مطابق حساب پیش کیا جو ٹھیکیدار کی بیان کردہ مقدار سے کافی کم تھا۔ حضور نے میرے اندازہ سے ٹھیکیدار کو اطلاع دی کہ وہ باقی لکڑی کا حساب دے۔ ادھر حضور مجھے ساتھ لے کر نصف گھنٹہ کے قریب ٹہلتے رہے اور دریافت فرماتے رہے کہ کیسے حساب کیا۔ مَیںنے موجودہ صورت کی پیمائش کا ذکر کیا تو فرمایا کہ سالم شہتیری کی پیمائش اَور ہوتی ہے اور اس میں سے کار آمد لکڑی کم نکلتی ہے۔ کچھ آری کے برادے کے طور پر ضائع ہوتی ہے۔ کچھ رندے کے ذریعہ سے اور کچھ زائد از ضرورت کو کاٹ کر پھینک دینے سے کم ہوتی ہے۔ کیا اس ضیاع کا بھی خیال رکھا؟ خاکسار نے عرض کیا کہ اس کا تو خیال نہیں رکھا۔ اس پر فرمایا کہ اس اصول کو ملحوظ رکھ کر پھر حساب تیار کرو۔ چنانچہ خاکسار نے پھر حساب کیا اس عرصہ میں ان شہتیریوں سے کچھ اور تیار شدہ سامان بھی معلوم ہوا۔ اس طرح سے حضور کو جب سب امور سے اطلاع ہوئی تو حضور کو اطمینان ہوگیا کہ آمدہ شہتیریوںکا حساب درست ہو گیا ہے۔
نمائندہ کو اختیارات: ایک موقعہ پر جب حضور نے اکیلے مجھ کو سندھ میں اپنی ذاتی اسٹیٹس اور تحریک جدید کی اسٹیٹس کے لئے بطور کمیشن مقرر فرمایا اور ضروری ہدایات دیں۔ جب مَیں اٹھنے لگا تو حضور نے فرمایا کہ تحریک جدید کی اسٹیٹوں میں تو آپ چیکنگ کرسکیں گے کہ اختیار ہے لیکن میری اسٹیٹوں کے لئے کیا اختیار ہے؟ عرض کیا کہ حضور کے ارشاد سے اطلاع دے دوں گا۔ اس پر فرمایا: صرف یہ امر کافی نہیں کاغذ لائو تم کو اختیار دوں۔ چنانچہ حضور نے کاغذ پر تحریر فرمایا کہ میں ان کو سندھ کی سب اسٹیٹوں میں بطور کمیشن بھیج رہا ہوں۔ ان کو مینیجروں اور اکاؤنٹنٹوں کو معطل کرنے کا اختیاربھی ہوگا اور ہدایت فرمائی کہ پہلے یہ حکم ان کو دکھا دینا پھر اپنا کام کرنا۔ چنانچہ اس طرح عمل کرنے سے کوئی دقّت پیش نہ آئی۔
حضور کی دُور اندیشی: اسی طرح جب حضورؓ نے بشیر آباد اسٹیٹ سندھ کی زمین خریدنے کا ارادہ فرمایا تو حضرت مولوی قدرت اللہ صاحب سنوریؓ کے ہمراہ خاکسار کو بھی بھیجا اور 18/19 سوالات قائم کئے کہ ان کے مطابق معلومات حاصل کرکے رپورٹ کریں ان میں سے چند یہ تھے: اس جگہ سے ریلوے سٹیشن، پختہ سڑک اور بڑا شہر کتنے فاصلہ پر ہے، لوگوں کی صحتیں کیسی ہیں، اس زمین میں کون کونسے درخت پیدا ہوتے ہیں، پرندے اور جانور کون کونسے ہوتے ہیں، پانی کی حالت کیسی ہے، زمین کس قسم کی ہے، کس قسم کا گھاس پیدا ہوتا ہے، کیا ارد گرد کے لوگوں سے زمین مزید خریدی جا سکے گی۔ وغیرہ وغیرہ
ان سوالات سے حضورؓ کی دُور اندیشی کا کچھ اندازہ ہوتا ہے۔