حضرت مصلح موعودؓ کی قبولیت دعا کا اعجاز
قیام پاکستان کے بعد حضرت نواب عبداللہ خان صاحبؓ بطور ناظراعلیٰ خدمات سرانجام دے رہے تھے۔ حالات انتہائی کٹھن تھے جب 1948ء کی ایک صبح آپؓ پر دل کا ایسا شدید حملہ ہوا کہ ڈاکٹر زندگی سے ناامید ہو گئے۔
حضرت مصلح موعودؓ اور حضرت اماں جانؓ بہت رقت اور درد سے اللہ کے حضور حضرت نواب صاحبؓ کی شفایابی کے لئے دعائیں کر رہے تھے۔ ڈاکٹر کہتے تھے کہ ایسا دورہ قلب ہم نے کتابوں میں تو پڑھا ہے لیکن اس کا مریض پہلی بار دیکھا ہے۔ حضرت نواب صاحبؓ کا دل ساقط ہو چکا تھا اور زندگی کے آثار تقریباً ختم ہوچکے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے دعائیں قبول فرمائیں اور زندگی کی رَو پھر سے چلنی شروع ہو گئی۔ اگرچہ اس دورہ کے بعد ایک لمبا عرصہ تک آپ کو خفیف حرکت کی اجازت بھی نہیں تھی اور کئی بار حالت خطرناک ہوئی لیکن ہر بار اللہ تعالیٰ نے دعاؤں سے نازک وقت ٹال دیا۔ حتی کہ کئی ماہ بعد آپؓ قدم اٹھانے کے قابل ہوئے اور پھر 13؍سال تک معجزانہ طور پر صحتمند زندگی گزاری۔ آپ کی بیگم حضرت سیدہ امۃالحفیظ بیگم صاحبہؓ کی بھرپور تیمارداری کے حوالہ سے محترمہ طاہرہ صدیقہ منیر صاحبہ کا ایک مضمون روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ یکم جنوری 1997ء میں شامل اشاعت ہے۔
– … ٭ … ٭ … ٭ … –
مصر کے ایک مخلص احمدی محترم عبد الحمید خورشید آفندی صاحب 1938ء میں چالیس روز کیلئے قادیان آئے اور حضرت مصلح موعودؓ کی خدمت میں عرض کیا کہ دس بارہ سال سے شادی شدہ ہونے کے باوجود اولاد سے محروم ہوں۔ حضورؓ نے دعا کرنے کا وعدہ فرمایا۔ کچھ دنوں بعد آپ حضورؓ کی خدمت میں دوبارہ حاضر ہوئے تو حضورؓ نے فرمایا ’’میں نے آپ کے لئے دعا کی ہے، اللہ تعالیٰ آپکو فرزند عطا کرے گا۔‘‘ چنانچہ آپ واپس مصر آگئے اور یہاں آپ کے ہاں ایک لڑکا پیدا ہوا جس کا نام بلاد عربیہ کے پہلے مربی کے نام پر جلال الدین رکھا گیا۔ پھر دوسرا لڑکا شمس الدین اور ایک لڑکی عائشہ پیدا ہوئی۔
عزیزم جلال الدین مجلس خدام الاحمدیہ قاہرہ کے سیکرٹری تھے جب صرف 22؍سال کی عمر میں وفات پا گئے ۔ اُن کی وفات چونکہ ایک قومی نقصان بھی تھا اس لئے مصر کے صدر جمال عبد الناصر نے بھی اس موقع پر تعزیتی پیغام بھجوایا۔
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 11؍اپریل 1996ء میں محترم مولانا محمد شریف صاحب کے حوالہ سے یہ مضمون ایک پرانی اشاعت سے منقول ہے۔
– … ٭ … ٭ … ٭ … –
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 14؍ اپریل 1996ء میں سیدنا حضرت مصلح موعودؓ کی قبولیت دعا کا یہ واقعہ درج ہے کہ قادیان کے قریب ایک گاؤں بھاگی ننگل میں ایک شخص لچھمن سنگھ رہتا تھا جس کے ہاں اولاد نہ ہوتی تھی۔ ایک روز اس نے ایک احمدی حضرت منشی امام الدین صاحب سے کہا کہ میرے لئے حضرت صاحبؓ سے دعا کروائیں کہ خدا مجھے لڑکا دیدے۔ اگر مرزا صاحبؑ سچے ہوں گے تو میرے ہاں اولاد ہوجائے گی۔ منشی صاحب نے قادیان آ کر حضرت مصلح موعودؓ کی خدمت میں دعا کی درخواست کی تو حضورؓ نے فرمایا ’’میں دعا کروں گا اور انشاء اللہ اس کے ہاں اولاد ہو گی۔‘‘ چنانچہ اُس کے ہاں ایک لڑکا پیدا ہوا جومیٹرک تک تعلیم حاصل کرنے والا اپنے گاؤں کا پہلا نوجوان تھا۔
یہ واقعہ حضرت منشی امام الدین صاحب کے فرزند محترم چوہدری ظہور احمد صاحب (سابق ناظر دیوان) نے بیان کیا ہے۔
– … ٭ … ٭ … ٭ … –
1944ء میں ہندوستان سے سیلون ٹیکسٹائل برآمد کرنے والے ایک مخلص احمدی محمدزین الدین صاحب جب اپنا مال لے کر جنوبی ہندوستان کی ایک بندرگاہ پہنچے تو انہیں یہ معلوم کرکے شدید صدمہ ہوا کہ مال بردار جہاز چونکہ جنگی مقاصد کے لئے طلب کرلئے گئے ہیںاس لئے سیلون کیلئے جہازرانی بند ہوگئی ہے۔اس اطلاع کا مطلب یہی تھا کہ آپ کا کاروبار ٹھپ ہوجاتا۔ آپ نے فوراً حضرت مصلح موعودؓ کی خدمت میں دعا کیلئے ٹیلیگرام ارسال کیا۔ اگلے ہی روز بذریعہ ٹیلیگرام جواب آیا کہ آپ کا سامان سیلون پہنچ چکا ہے۔ اس پر آپ بندرگاہ پہنچے اور متعلقہ افسر سے رابطہ کیا تو اُس نے کہا کہ ایک جہازجو سمندر میں تھا اور اس کا ہمیں علم نہیں تھا وہ جیسے ہی بندرگاہ سے لگا ہم نے سامان اس پر لاددیااور وہ جہاز اب سیلون پہنچ گیا ہے۔
یہ واقعہ محترم زین الدین صاحب نے خود مکرم عبدالمومن صاحب سے بیان کیا تھا جن کا ایک مضمون ’’حضرت مصلح موعودؓ کی یاد‘‘ کے عنوان سے روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 24؍نومبر 1996ء کی زینت ہے۔
مضمون نگار مزید لکھتے ہیں کہ میرے والدنے جب احمدیت قبول کی تو اُنہیں شدید مخالفت کا سامنا کرنا پڑا اور اُنہیں دینی مدرسہ سے اٹھوا کر گھر میں بند کردیا گیا۔ چنانچہ انہوں نے گھر کو خیر باد کہہ دیا اور بہت سی تکالیف اٹھاتے ہوئے کافی عرصہ کے بعد قادیان پہنچنے میں کامیاب ہوئے۔ قادیان پہنچ کر اُنہیں معلوم ہوا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام تو فوت ہو چکے ہیں۔ جب یہ قادیان سے واپس آئے تو خواب کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے انہیں تسلی دی کہ اگر تم حضرت مسیح موعودؑ کو نہیںدیکھ سکے تو حضرت مرزابشیرالدین محموداحمد صاحب کو تو دیکھ لیا ہے۔
مضمون نگاربیان کرتے ہیں کہ نومبر 1949ء میں مَیں پہلی بار حضرت مصلح موعودؓ کی خدمت میں حاضر ہوا تو عرض کیا کہ میں نیوی میں سیلر ہوں۔ پھر دعا کے لئے عرض کیا تو حضورؓ نے دریافت فرمایا کہ پروموشن کہاں تک ہوسکتی ہے ؟ عرض کیا: لیفٹیننٹ کمانڈر تک۔
ان دنوں نیوی کی وسعت کے لحاظ سے پروموشن بہت کم ملا کرتی تھی… لیکن میں حضورؓ کی دعا کے عین مطابق لیفٹیننٹ کمانڈر بن کر ریٹائرڈہوا۔
– … ٭ … ٭ … ٭ … –
محترم مرزا عبدالحق صاحب صوبائی امیر پنجاب سیدنا حضرت مصلح موعودؓ سے متعلق بعض یادیں روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 16؍اکتوبر 1996ء میں یوں بیان کرتے ہیں کہ میں ایک اہم مقدمہ کی پیروی کررہا تھا۔ ایک روز معاملہ کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے ہم چند دوست حضورؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور تجویز کیا کہ محترم چودھری محمد ظفراللہ خان صاحب کو تار دے کر بلا لیا جائے۔ اس پر حضورؓ نے فرمایا نہیں، اس کی کیا ضرورت ہے۔ پھر حضورؓ نے اپنی ایک قمیض مجھے دے کر کہا کہ پیروی کرتے وقت اسے اندر سے پہن لیا کریں۔ یہ اعتماد کی عجیب مثال ہے کیونکہ اس وقت میری پریکٹس صرف دو تین سال کی تھی۔
محترم مرزا صاحب مزید بیان کرتے ہیں کہ کئی دفعہ ایسا ہوا کہ حضورؓ رات کے دودو بجے تک کام کرتے۔ جن دنوں جماعت کیلئے خاص مشکلات ہوئیں ان دنوں تو کوئی حد ہی نہ رہتی اور محنت اور جفاکشی میں سب کو مات دیدیتے۔