حضرت مصلح موعودؓ کی قبولیت دعا
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 8؍جولائی 2002ء میں اخبار ’’الحکم‘‘ کی ایک پرانی اشاعت سے منقول حضرت سیٹھ عبداللہ بھائی اللہ دین صاحب کے مضمون میں حضرت مصلح موعودؓ کی قبولیت دعا کے ایسے واقعات بیان کئے گئے ہیں جن کا تعلق حضرت سیٹھ صاحب کی زندگی سے ہے۔
آپ بیان فرماتے ہیں کہ 1918ء میں میرے بیٹے علی محمد صاحب اور حضرت سیٹھ اللہ دین ابراہیم بھائی صاحب کے بیٹے فاضل بھائی تعلیم کے لئے قادیان گئے۔ 1920ء میں وہ میٹرک کرکے واپس آنے کی تیاری کررہے تھے کہ فاضل بھائی کو ٹائیفائیڈ ہوگیا جو بدپرہیزی سے ایسا بگڑا کہ زندگی کی کوئی امید نہ رہی۔ جب حضورؓ کو علم ہوا تو حضورؓ خود بورڈنگ ہاؤس تشریف لائے اور بہت دیر تک دعا کی۔ اس کے بعد طبیعت معجزانہ طور پر سدھرنے لگی اور گویا نئی زندگی عطا ہوئی۔
اسی طرح میری لڑکی ہاجرہ کے پیٹ میں د رد ہوگیا تو ڈاکٹر کو بلایا گیا۔ اُس نے کہا پیٹ میں پیپ ہے اور فوراً آپریشن ہونا چاہئے۔ یہ دسمبر کا مہینہ تھا اور مجھے جلسہ پر قادیان جانا تھا۔ چنانچہ ایک یورپین ڈاکٹر کو بلوایا۔ اُس نے کہا کہ نہ پیپ ہے اور نہ آپریشن کی ضرورت۔ جب پہلے ڈاکٹر کو پتہ چلا تو وہ کہنے لگا کہ اگر آپریشن کے بغیر یہ لڑکی بچ گئی تو ڈاکٹری چھوڑ دوں گا۔ بہرحال میں جلسہ پر چلا گیا۔ واپس آیا تو یکایک لڑکی کی ناف میں سوراخ ہوگیا اور پیپ نکلنے لگی۔ ہم نے اُسی ڈاکٹر کو بلوایا جو کہتا تھا پیپ ہے۔ لیکن اُس نے کہا کہ وقت گزر چکا ہے، اب آپریشن کا وقت نہیں رہا۔ تب ہم نے فوراً حضورؓ کی خدمت میں تار دیا۔ خدا تعالیٰ نے معجزانہ طور پر ایک معمولی دوائی سے شفا عطا فرمادی۔
حضورؓ کے ارشاد پر مَیں نے اپنے لڑکے علی محمد کو ICS کے لئے لندن روانہ کیا۔ پہلے انہوں نے ایم۔اے کرنا تھا جس کے چھ مضامین میں کامیابی حاصل کرلی لیکن ایک میں کئی بار فیل ہوگئے اور آخر مایوس ہوکر واپس آنا چاہا۔ مَیں نے حضورؓ سے اجازت چاہی تو فرمایا کہ مَیں نے خواب میں اُن کا نام پاس ہونے والوں کی فہرست میں دیکھا ہے اس لئے انشاء اللہ یہ یقینا پاس ہوکر آئیں گے۔ مَیں نے یہ حال اپنے بیٹے کو لکھ دیا۔ مگر وہ پھر بھی فیل ہوگئے۔ اُن کے ایک استاد کو پتہ چلا تو اُنہوں نے تحقیق کی کہ فیل ہونے کی کیا وجہ ہے۔ تب یونیورسٹی کی طرف سے اطلاع ملی کہ آپ کے فیل ہونے کی خبر غلط تھی، آپ پاس ہوگئے ہو۔
ہم چار رشتہ داروں نے بمبئی میں ایک بلڈنگ سوا لاکھ روپیہ میں خریدلی۔ خیال تھا کہ اس کو فروخت کرکے پندرہ بیس ہزار نفع ہوجائے گا۔ مَیں نے یہ شرط پیش کی کہ حضورؓ سے دعا کروائیں گے اور پانچواں حصہ قادیان روانہ کریں گے۔ میرے دو رشتہ داروں نے یہ شرط مان لی لیکن ایک بمبئی والے نے انکار کردیا۔ تاہم مَیں نے حقیقت حضورؓ کی خدمت میں لکھ دی۔ اس کے بعد غیرمعمولی طور پر جائیداد کی قیمت بڑھنے لگی۔ ہم نے بمبئی والے کو لکھا کہ اسے بیچ دو۔ لیکن اُس کا خیال تھا کہ ابھی قیمت اَور بڑھے گی۔ اُس نے کہا کہ اس وقت یہ قیمت ہے، اگر ہم چاہیں تو اُس سے موجودہ قیمت لے کر یہ عمارت اُس کو بیچ سکتے ہیں۔ ہم نے ایسا ہی کیا اور اس طرح ہمیں 80 ہزار روپے منافع ہوا جس میں سے 16 ہزار قادیان بھیج دیئے اور باقی آپس میں تقسیم کرلئے۔ اس کے بعد اس عمارت کی قیمت تیزی سے کم ہونے لگی حتی کہ اٹھارہ سال گزر جانے پر بھی وہ عمارت بغیر فروخت کے اُسی طرح پر پڑی ہوئی ہے۔
میرے بھائی خان بہادر سیٹھ احمد الہ دین صاحب نے حضورؓ سے دو اہم معاملات کے متعلق دعا کروائی تو انہیں دونوں امور میں عظیم الشان کامیابی ہوئی اور دو لاکھ روپیہ منافع ہوا اور انہوں نے خوشی میں حضورؓ کی خدمت میں 20ہزار روپے روانہ کئے۔
ہم چار بھائی ایک تجارتی فرم چلاتے تھے۔ مَیں احمدی ہوا تو حضورؓ کی دعاؤں کی تاثیر محسوس کرتا۔ ماہوار ایک سو روپیہ حضورؓ کی خدمت میں نذرانہ روانہ کرتا اور سالانہ اوسطاً فرم کو دس ہزار روپیہ منافع ہوتا تھا۔ میرے دو اہلحدیث بھائیوں کو یہ پسند نہ تھا۔ انہوں نے میری خوب مخالفت کی اور قادیان رقم بھجوانا بند کروادی۔ نتیجۃً منافع کی جگہ نقصان ہونے لگا۔ آخر فرم کی مشترکہ تجارت ختم ہوگئی اور مَیں نے یہ کاروبار اپنے ذمہ لے لیا اور ہر ماہ دو سو روپیہ حضورؓ کو بھجوانا شروع کیا تو سالانہ منافع پندرہ ہزار روپیہ مجھے ہونے لگا۔
ایک بار ایک معاہدہ مَیں نے کیا جس میں منافع کی امید تھی۔ لیکن چند روز میں نرخ بڑھ گیا اور منافع کی جگہ 48 ہزار روپیہ نقصان کا خدشہ پیدا ہوگیا۔ مَیں نے گھبرا کر حضورؓ کی خدمت میں سارا حال لکھا۔ خدا کے فضل سے آخر میں مجھے نقصان کے بجائے بیس ہزار روپیہ منافع ہوا۔
ہم چار بھائی دس سال تک ایک معاہدہ کے تحت فرم مشترکہ طور پر چلاتے رہے۔ پھر دو بھائیوں نے مشترکہ کاروبار کرنے سے انکار کرتے ہوئے ایک ایک لاکھ سے زائد رقم کا مجھ سے اور خان بہادر احمد بھائی سے مطالبہ کیا۔ اس معاملہ کو تین مشہور قانون دانوں کے ایک بورڈ کے سامنے رکھا گیا اور اُن کو ایک ایک ہزار روپیہ فیس دی گئی۔ مَیں نے حضورؓ کو ساری حقیقت لکھ دی تو جواب آیا کہ آپ بالکل بے فکر رہیں۔ آپ کو کوئی نقصان نہ ہوگا بلکہ آپ کے حق میں فائدہ ہوگا اور اگر بورڈ بھی آپ کو نقصان پہنچانا چاہے تو پھر بھی ہرگز وہ آپ کو نقصان نہ پہنچا سکیں گے۔
بورڈ نے ایک سال سے زیادہ عرصہ میں سارے حسابات کا جائزہ لیا اور آخرکار میرے خلاف جو ایک لاکھ چودہ ہزار روپیہ کا دعویٰ تھا وہ خارج کرکے سفر خرچ وغیرہ کے ضمن میں صرف 1309؍روپیہ کی ڈگری ہوگئی۔ اسی طرح دوسرے بھائیوں کے خلاف بھی اسی طرح کی ڈگریاں ہوئیں اور نتیجۃً مجھے 3414؍روپیہ کا منافع ہوا۔ کچھ عرصہ کے بعد مَیں بورڈ کے ایک رُکن کے پاس گیا اور پوچھا کہ کیا ہمارے مقدمہ کا فیصلہ آپ تینوں کے اتفاق رائے سے ہوا ہے؟ وہ کہنے لگے کہ صرف ایک معاملہ کے متعلق اختلاف تھا۔ جو سولہ ہزار روپیہ کی رقم مَیں نے بمبئی کی عمارت فروخت ہونے پر قادیان بھجوائی تھی، وہ رقم بورڈ کے دو ممبر میرے ذمہ ڈال رہے تھے۔ جبکہ ایک ممبر جو پارسی تھے اُن سے متفق نہیں تھے ۔ چنانچہ تین میٹنگز کے بعد وہ متفق ہوگئے کہ وہ رقم مشترکہ منافع سے ادا کی گئی تھی۔ یہ بات معلوم ہونے کے بعد مجھ پر حضورؓ کے خط کے ایک ایک لفظ کی صداقت عیاں ہوگئی ۔