حضرت مصلح موعودؓ کی محبت الٰہی اور عبادات

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 15فروری 2005ء میں مکرم عبد الباسط شاہد صاحب کے قلم سے ایک مضمون میں حضرت مصلح موعودؓ کی محبت الٰہی اور عبادات کے بعض واقعات شامل اشاعت ہیں۔
* حضرت شیخ غلام احمد صاحب واعظؓ کا بیان ہے: ’’مرزا محمود احمد صاحب کو باقاعدہ تہجد پڑھتے ہوئے دیکھا اور یہ بھی دیکھا کہ وہ بڑے لمبے لمبے سجدے کرتے ہیں۔‘‘
* حضرت شیخ فضل احمد صاحب بٹالویؓ نے بھی آپ کو تہجد کی نماز میں لمبے لمبے سجدے اور خشوع و خضوع سے دعائیں کرتے ہوئے دیکھا تو ان کے دل میں ایک عجیب سوال پیدا ہوا۔ مکرم شیخ صاحب بیان کرتے ہیں کہ: ’’آپ کے اس جوانی کے عالم میں جب کہ ہر طرح کی سہولت اپنے گھر میں حاصل ہے، زمینداری بھی ہے اور ایک شاہانہ قسم کی زندگی بطور صاحبزادہ، شہزادہ بسر کر رہے ہیں تو میرے دل میں سوال پیدا ہوا کہ آپ کو کس ضرورت نے مجبور کیا ہے کہ وہ تہجد میں آکر لمبی لمبی دعائیں کریں۔ یہ بات میرے دل میں باربار یہ سوال پیدا کرتی تھی لیکن حضرت ممدوح سے پوچھنے کی جرأت نہ پاتا تھا لیکن ایک دن میں نے جرأت کر کے آپ سے جب کہ وہ حضرت خلیفہ اول کی صحبت سے اٹھ کر اپنے گھر کو جارہے تھے راستے میں السلام علیکم کر کے روک لیا اور اپنی طرف متوجہ کر لیا اور نہایت عاجزی سے حضرت میاں صاحب کی خدمت میں معافی مانگ کر پوچھا کہ وہ مقصد جس کے لئے آپ تہجد میں لمبی لمبی دعائیں کرتے ہیں وہ کیا ہے؟ اورنیز عرض کیا کہ میں بھی اس غرض کو حاصل کرنے کے لئے دعا کروں گا تا کہ وہ غرض آپ کو حاصل ہوجائے۔ اس کے جواب میں حضرت ممدوح نے مسکرا کر فرمایا کہ وہ اللہ تعالیٰ سے اس بات کی دعا کرتے ہیں کہ خدا کے راستہ میں انہوں نے جو کام کرنا ہے اس کے لئے انہیں مخلص دوست اور مدد گار میسر آجائیں‘‘۔
* حضورؓ اپنی نوجوانی کے ایام میں حج بیت اللہ کا فریضہ ادا کرنے کے لئے گئے تو خدا تعالیٰ کے گھر کو دیکھ کر آپؓ پر جو محویت طاری ہوئی اس کے متعلق بیان فرماتے ہیں: ’’میں جب حج کے لئے گیا تو میں نے بھی یہی دعا مانگی تھی مگر یہ خیال حضرت خلیفہ اول ہی کی ایجاد سے تھا اور کہتے ہیں اَلْفَضْلُ لِلْمُتَقَدِّمِ … بے شک جب میں نے یہ دعا کی تو یہ بھی نقل تھی مگر حقیقت یہ ہے کہ اس وقت مجھے یہ واقعہ یاد نہیں تھا بلکہ اتنا بھی خیال نہیں تھا کہ میں زندہ بھی ہوں۔ میں تو سمجھتا تھا کہ میں مر چکا ہوں اور اسرافیل صُور پھونک رہا ہے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے ارشاد ہے کہ میری طرف چلے آؤ‘‘۔
مزید فرماتے ہیں: ’’جب حج کے لئے گیا تو میں نے سات قربانیاں کی تھیں۔ ایک رسول کریم ﷺ کی طرف سے، ایک حضرت مسیح موعود ؑ کی طرف سے، ایک والدہ صاحبہ کی طرف سے، ایک حضرت حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ کی طرف سے، ایک اپنی طرف سے، ایک اپنی بیوی کی طرف سے اور ایک جماعت کے دوستوں کی طرف سے‘‘۔
* حضرت مصلح موعودؓ اپنی ایک سیر کا حال یوں بیان فرماتے ہیں: ’’ایک دفعہ میں دہلی گیا ہوا تھا۔ میری مرحومہ بیوی سارہ بیگم اور میری لڑکی عزیزہ ناصرہ بیگم نے امتحان پاس کیا تھا اور میں نے ان سے وعدہ کیا تھا کہ امتحان پاس کرنے کے بعد میں تمہیں آگرہ اور دہلی وغیرہ کی سیر کراؤں گا۔ میں انہیں دہلی کا قلعہ دکھانے لے گیا۔ جب سیر کرتے کرتے ہم قلعہ کی مسجد کے پاس پہنچے تو میں نے اپنی بیوی اور بچی سے کہا کہ اب تو یہ قلعہ فوج کے قبضہ میں ہے۔ نہ معلوم یہاں خدا تعالیٰ کا ذکر کبھی کسی نے کیا ہے یا نہیں۔ آؤ ہم یہاں نماز پڑھ لیں۔ چنانچہ ہم نے وہاں پانی منگوایا وضو کیا اور نماز پڑھی… میں بہت دیر تک نماز میں مشغول رہا اور دعائیں کرتا رہا۔‘‘
* ایک نماز کے رہ جانے کے خیال سے جو حالت ہوئی اس کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ایک دفعہ دفتر سے اٹھا تو مغرب کے قریب جبکہ سورج زرد ہوچکا تھا۔ مجھے یہ وہم ہوگیا کہ آج کام میں مصروف رہنے کی وجہ سے عصر کی نماز پڑھنی یاد نہیں رہی۔ جب یہ خیال میرے دل میں آیا تو یکدم میرا سر چکرایا اور قریب تھا کہ اس شدت غم کی وجہ سے میں اس وقت گر کر مر جاتا کہ معاً اللہ تعالیٰ کے فضل سے مجھے یاد آگیا کہ فلاں شخص نے مجھے نماز کے وقت آکر آواز دی تھی۔ اس وقت میں نماز پڑھ رہا تھا۔ پس میں نماز پڑھ چکا ہوں لیکن اگر مجھے یہ بات یاد نہ آتی تو اس وقت مجھ پر اس غم کی وجہ سے جو کیفیت ایک سیکنڈ میں ہی طاری ہوگئی تھی وہ ایسی تھی کہ میں سمجھتا تھا اب اس صدمہ کی وجہ سے میری جان نکل جائے گی۔ میرا سر یکدم چکرا گیا اور قریب تھا کہ میں زمین پر گر کر ہلاک ہوجاتا۔‘‘
* کم خورانی بھی صوفیاء کے نزدیک قرب الٰہی کے حصول کا ذریعہ ہے۔ آپؓ فرماتے ہیں:’’آجکل رمضان ہے اور روزہ کی وجہ سے زیادہ تقریر نہیں کی جاسکتی۔ دوسرے نیر ّ صاحب نے رات کو میجک لینٹرن کے ذریعہ سفر یورپ اور افریقہ کے حالات دکھائے ہیں۔ گو اس سے بہت فائدہ ہوا ہے مگر سحری کو اس وقت آنکھ نہ کھلی جس وقت کھلنی چاہئے تھی اور میں دعا ہی کر رہا تھا کہ اذان ہوگئی اس لئے کھانا نہ کھا سکا۔ میں آجکل شام کو کھانا نہیں کھایا کرتا بلکہ سحری کو کھاتا ہوں لیکن آج سحری کو بھی نہ کھا سکا۔ اس وجہ سے لمبی تقریر کرنا مشکل ہے تا ہم میں کوشش کروں گا کہ جس قدر ہوسکے بیان کروں کیونکہ احباب دور دور سے آئے ہیں۔‘‘
* حضرت خلیفہ اولؓ نے آپؓ کی نیکی اور تقویٰ کی وجہ سے آپ کی نو عمری کے باوجود آپ کو امام الصلوٰۃ اور خطیب مقرر کیا ہوا تھا۔ ایک دفعہ جب حضورؓ سے کسی نے اس امر کے متعلق دریافت فرمایا تو فرمایا: ’’قرآن کریم نے تو ہمیں یہ بتایا کہ اِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَاللہِ اَتْقٰکُمْ، مجھ کو جماعت میں میاں صاحب جیسا کوئی متقی بتا دیں۔‘‘
* حضرت مصلح موعودؓ نے شروع سے ہی اپنے آپ کو دین کے لئے دقف کر دیا تھا اور کسی دنیوی کام اور دھندے کی طرف رغبت نہ رکھی تھی۔ آپؓ بیان فرماتے ہیں: ’’حضرت مسیح موعود کی وفات کے بعد ایک دن ہمارے نانا جان والدہ صاحبہ کے پاس آئے اور انہوں نے غصہ میں رجسٹر زمین پر پھینک دئیے اور کہا کہ میں کب تک بڈھا ہو کر بھی تمہاری خدمت کرتا رہوں اب تمہاری اولاد جوان ہے اس سے کام لو اور زمینوں کی نگرانی ان کے سپرد کرو۔ والدہ نے مجھے بلایا اور رجسٹر مجھے دیدئیے اور کہا کہ تم کام کرو تمہارے نانا یہ رجسٹر پھینک کر چلے گئے ہیں۔ میں ان دنوں قرآن اور حدیث کے مطالعہ میں ایسا مشغول تھا کہ جب زمینوں کا کام مجھے کرنے کے لئے کہا گیا تو مجھے ایسا محسوس ہوا جیسے کسی نے مجھے قتل کر دیا ہے۔ مجھے یہ بھی پتہ نہیں تھا کہ جائیداد ہے کہ بلا۔ اور وہ کس سمت میں ہے مغرب میں ہے یامشرق میں شمال میں ہے یا جنوب میں۔‘‘
* حضورؓ کی عبادت میں انہماک کے متعلق حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ خاں صاحبؓ لکھتے ہیں: ہم دھرم سالہ پہنچے مگر وہاں بارش کی زیادتی کی وجہ سے آب وہوا ناموافق ثابت ہوئی اس لئے ڈلہوزی میں مکان تلاش کرا کر وہاں پہنچ گئے۔ یہاں کی آب وہوا موافق رہی۔ ایک روز حضورؓ نے بعض ساتھیوں کو ہمراہ لے کر دو تین میل کے فاصلے پر جنگل میں دعا کی۔ اس غرض کے لئے دو رکعت نماز باجماعت ادا کی۔ باوجودیکہ حضور کو انفلوئنزا کے گزشتہ حملہ کی وجہ سے کمزوری لاحق تھی اور قریب ہی میں بخار کا حملہ بھی ہوچکا تھا مگر دعا کے لئے اس قدر لمبے سجدے حضور نے کئے کہ مقتدی تھک تھک گئے مگر حضور نے دعا کو جاری رکھا اور ڈیڑھ گھنٹہ سے زائد وقت میں دو رکعت نماز ادا کی۔
* مکرم مولانا عبد الرحمٰن صاحب انور اپنے طویل مشاہدے کا خلاصہ بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں: ’’یہ ایک حقیقت ہے کہ حضور اگرچہ عام انسان تھے لیکن حضور کے کاموں کو دیکھنے کے بعد ہر شخص یہ تسلیم کرنے کے لئے مجبور ہوجاتا ہے کہ اس خاص انسان کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا بہت ہی خاص تعلق ہے اور اس کی خاص تائید اس کے شامل حال ہے چنانچہ بارہا دیکھا گیا ہے کہ حضور کو کسی ایسی چیز کی ضرورت محسوس ہوئی ہے جو عام حالات میںقریباً ناممکن الحصول ہوتی تھی تو پھر اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے اس کے حصول کے سامان ہوجایا کرتے تھے گویا اللہ تعالیٰ کے فرشتے حضور کے منشاء کی تکمیل میں لگ جایا کرتے تھے۔‘‘
چنانچہ حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں: چند سال ہوئے مجھے ایک مکان کی تعمیر کے لئے روپیہ کی ضرورت پیش آئی۔ میں نے اندازہ کرایا تو مکان کے لئے اور اس وقت کی بعض ضروریات کے لئے دس ہزار روپیہ درکار تھا۔ میں نے خیال کیا کہ جائیداد کا کوئی حصہ بیچ دوں یا کسی سے قرض لوں۔ اتنے میں ایک دوست کی چٹھی آئی کہ میں چھ ہزار روپیہ بھیجتا ہوں۔ پھر ایک تحصیلدار دوست نے لکھا کہ میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ حضرت مسیح موعودؑ تشریف لائے ہیں اور فرماتے ہیں کہ ہمیں دس ہزار روپیہ کی ضرورت تھی اس میں سے چھ ہزار تو مہیا ہوگیا ہے باقی چار ہزار تم بھیج دو۔ مجھے تو اس کا کوئی مطلب سمجھ نہیں آیا۔ اگر آپ کو کوئی ذاتی ضرورت یا سلسلہ کے لئے درپیش ہو تو میرے پاس چار ہزار روپیہ جمع ہے وہ بھیج دوں۔ میں نے انہیں لکھا کہ واقعی صورت تو ایسی ہی ہے۔ بعینہٖ اسی طرح ہوا ہے۔
* ایک بار فرمایا: ’’ میں اسی قادروتوانا خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں جس کی جھوٹی قسم کھانا لعنتیوں کا کام ہے کہ میرا یہ عقیدہ ہے کہ باوجود ایک سخت کمزور انسان ہونے کے مجھے خدا تعالیٰ نے ہی خلیفہ بنایا ہے اور میں اسی کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ اس نے آج سے بائیس تئیس سال پہلے مجھے رؤیا کے ذریعہ یہ بتا دیا تھا کہ تیرے سامنے ایسی مشکلات پیش آئیں گی کہ بعض دفعہ تیرے دل میں بھی یہ خیال پیدا ہوگا کہ اگر یہ بوجھ علیحدہ ہو سکتا ہو تو اسے علیحدہ کر دیا جائے مگر تُو اس بوجھ کو ہٹا نہیں سکے گا اور یہ کام بہر حال نباہنا پڑے گا۔ اگر میں اس بیان میں جھوٹا ہوں تو اللہ تعالیٰ کی مجھ پر لعنت ہو۔‘‘
* خدا تعالیٰ پر توکل کا اندازہ آپؓ کے اِس پُرشوکت انداز سے کیا جاسکتا ہے۔ فرماتے ہیں: ’’میں بے شک انسان ہوں خدا نہیں ہوں مگر میں یہ کہنے سے نہیں رہ سکتا کہ میری اطاعت اور فرمانبرداری میں خدا تعالیٰ کی اطاعت اور فرمانبرداری ہے۔ مجھے جو بات کہنے کا خدا تعالیٰ نے حکم دیا ہے میں اسے چھپا نہیں سکتا۔ مجھے اپنی بڑائی بیان کرنے میں شرم محسوس ہوتی ہے اور میں اِس وقت تک اس شرم کی وجہ سے رُکا رہا ہوں لیکن آخر خدا تعالیٰ کے حکم کو بیان کرنا ہی پڑتا ہے۔ میں انسانوں سے کام لینے کا عادی نہیں ہوں۔ تم بائیس سال سے مجھے دیکھ رہے ہو اور تم میں سے ہر ایک اس امر کی گواہی دے گا کہ ذاتی طور پر کسی سے کام لینے کا میں عادی نہیں ہوں حالانکہ اگر میں ذاتی طور پر بھی کام لیتا تو میرا حق تھا مگر میں ہمیشہ اس کوشش میں رہتا ہوں کہ خود دوسروں کو فائدہ پہنچاؤں مگر خود کسی کا ممنون احسان نہ ہوں۔ خلفاء کا تعلق ماں باپ سے بھی زیادہ ہوتا ہے۔ تم میں سے کوئی ایسا نہیں جس سے اس کے ماں باپ نے خدمات نہ لی ہوں گی مگر کوئی نہیں کہہ سکتا کہ کسی سے ذاتی فائدہ اٹھانے یا خدمات لینے کی میں نے کوشش کی ہو۔ میرے پاس بعض لوگ آتے ہیں کہ ہم تحفہ پیش کرنا چاہتے ہیں، آپ اپنی پسند کی چیز بتادیں مگر میں خاموش ہوجاتا ہوں۔ آج تک ہزاروں نے مجھ سے یہ سوال کیا ہوگا مگر ایک بھی نہیں کہہ سکتا کہ میں نے اس کا جواب دیا ہو۔ میرا تعلق خدا تعالیٰ سے ایسا ہے کہ وہ خود میری دستگیری کرتا ہے اور میرے تمام کام خود کرتا ہے۔‘‘
نیز فرمایا: ’’میرے ساتھ اللہ تعالیٰ کا معاملہ بالکل سید عبد القادر جیلانی ؒ والا ہے۔ وہ میرے لئے اپنی قدرتیں دکھاتا ہے مگر نادان نہیں سمجھتا ہے۔ یہ زمانہ چونکہ بہت شہبات کا ہے، اس لئے میں تو اس قدر احتیاط کرتا ہوں کوشش کرتا ہوں دوسروں سے زیادہ ہی قربانی کروں۔
پس یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰ کی تائید ونصرت کو دیکھتے ہوئے میں انسانوںپر انحصار نہیں کر سکتا اور تم بھی یہ نصرت اس طرح حاصل کر سکتے ہو کہ اطاعت کا اعلیٰ نمونہ دکھاؤ اور ایسا کرنے میں صرف خلیفہ کی اطاعت کی اطاعت کا ثواب نہیں بلکہ موعود خلیفہ کی اطاعت کا ثواب تمہیں ملے گا۔ اور اگر تم کامل طور پر اطاعت کرو تو مشکلات کے بادل اڑجائیں گے تمہارے دشمن زیر ہوجائیں گے اور فرشتے آسمان سے تمہارے لئے ترقی والی نئی زمین اور تمہاری عظمت و سطوت والا نیا آسمان پیدا کریں گے۔ لیکن شرط یہی ہے کہ کامل فرمانبرداری کرو۔ جب تم سے مشورہ مانگا جائے مشورہ دو ورنہ چپ رہو۔ ادب کا مقام یہی ہے۔ لیکن اگر تم مشورہ دینے کے لئے بیتاب ہو تو بغیر پوچھے بھی دیدو مگر عمل وہی کرو جس کی تم کو ہدایت دی جائے۔ ہاں صحیح اطلاعات دینا ہرمومن کا فرض ہے اور اس کے لئے پوچھنے کا انتظار نہیں کرنا چاہئے۔ باقی رہا عمل اس کے بارہ میں تمہارا فرض صرف یہی ہے کہ خلیفہ کے ہاتھ اور اس کے ہتھیار بن جاؤ تب ہی برکت حاصل کر سکو گے اور تب ہی کامیابی نصیب ہوگی۔‘‘

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں