حضرت مصلح موعودؓ کے بیان فرمودہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایمان افروز واقعات
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 18 و 27؍اکتوبر 2003ء میں حضرت مصلح موعودؓ کے بیان فرمودہ سیدنا حضرت مسیح موعودؑ کے بعض ایمان افروز واقعات اور پُرمعارف ارشادات (مرتبہ مکرم حبیب الرحمن زیروی صاحب) شامل اشاعت ہیں۔
٭ حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ حضرت مسیح موعودؑ نے مجھے پہلا روزہ رکھنے کی اجازت بارہ یا تیرہ سال کی عمر میں دی تھی۔ بعض بے وقوف چھ سات سال کی عمر میں بچوں سے روزے رکھواتے ہیں جو ظلم ہے کیونکہ یہ عمر نشوونما کی ہوتی ہے۔ بارہ تیرہ سال کے بچوں کو روزوں کی عادت ڈالنے کے لئے چند روزے رکھوانے کی جرأت دلوانی چاہئے۔ روزہ فرض ہونے کی عمر قریباً اٹھارہ سال ہے۔ بعض مضبوط کچھ سال پہلے ہی روزہ رکھنے کے قابل ہوسکتے ہیں اور بعض کمزور شاید اکیس سال کی عمر میں روزہ رکھنے کے اہل ہوسکیں۔
٭ حضرت مسیح موعودؑ فرمایا کرتے تھے کہ ایمان العجائز ہی انسان کو ٹھوکروں سے بچاتا ہے ورنہ جو لوگ حیل و حجت سے کام لیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ فلاں حکم کیوں دیا گیا اور فلاں کیوں نہیں دیا گیا، وہ بسااوقات ٹھوکر کھا جاتے ہیں اور اُن کا رہا سہا ایمان بھی ضائع ہوجاتا ہے۔ کامل الایمان شخص اپنے ایمان کی بنیاد مشاہدہ پر رکھتا ہے۔ منشی اروڑے خان صاحبؓ کو بعض لوگوں نے کہا کہ اگر تم ایک دفعہ مولوی ثناء اللہ صاحب کی تقریر سن لو تب تمہیں پتہ لگے کہ مرزا صاحب سچے ہیں یا نہیں۔ وہ کہنے لگے کہ مَیں نے ایک دفعہ اُن کی تقریر سنی اور دوستوں کو بتایا کہ مَیں نے تو مرزا صاحب کا منہ دیکھا ہوا ہے۔ ان کا منہ دیکھنے کے بعد اگر مولوی ثناء اللہ صاحب دو سال بھی میرے سامنے تقریر کرتے رہیں تب بھی اُن کی تقریر کا مجھ پر کوئی اثر نہیں ہوسکتا اور مَیں نہیں کہہ سکتا کہ وہ جھوٹے کا منہ تھا خواہ مجھے ان کے اعتراضات کے جواب میں کوئی بات نہ آئے۔ پس کامل مومن کا ایمان عقل کی بنا پر نہیں بلکہ مشاہدہ پر مبنی ہوتا ہے۔
٭ حضرت مسیح موعودؑ اگر بیماری کی وجہ سے مسجد نہ جاسکتے تو گھر میں باجماعت نماز کا اہتمام فرماتے اور عشاء کی نماز میں قریباً بلاناغہ سورۃ یوسف کی آیات بل سولت لکم انفسکم…ارحم الراحمین کی تلاوت اتنے دردناک لہجہ میں فرماتے کہ دل بیتاب ہوجاتا۔
٭ جانور کو صرف حلال دیکھ کر نہیں کھانا چاہئے۔ مَیں بچپن میں ایک دفعہ طوطا شکار کرکے لایا تو حضرت مسیح موعودؑ نے فرمایا: محمود! اس کا گوشت حرام تو نہیں مگر اللہ تعالیٰ نے ہر جانور کھانے کے لئے ہی پیدا نہیں کیا، بعض خوبصورت جانور دیکھنے کے لئے ہیںکہ انہیں دیکھ کر آنکھیں راحت پائیں، بعض جانوروں کو عمدہ آواز دی ہے کہ ان کی آواز سن کر کان لذّت حاصل کریں۔ پس ہر حس کی نعمتیں چھین کر زبان ہی کو نہ دیدینی چاہئیں۔
٭ حضرت مسیح موعودؑ ایک دفعہ لدھیانہ تشریف لے گئے تو صوفی احمد جان صاحب نے آپؑ کے ہمراہ چلتے ہوئے عرض کیا کہ مَیں نے بارہ سال اپنے پیر (رتر چھتر والوں) کی خدمت کی ہے اور اُن کی صحبت کی برکت سے مجھ میں اتنی طاقت ہے کہ (ایک شخص کی طرف اشارہ کیا کہ) اُس شخص کی طرف آنکھ اٹھاکر دیکھوں تو وہ فوراً زمین پر گرپڑے اور تڑپنے لگ جائے۔ آپؑ یہ سنتے ہی کھڑے ہوگئے اور تھوڑی دیر خاموش رہے، پھر فرمایا: میاں صاحب! پھر اس کا آپ کو کیا فائدہ پہنچا اور اُس شخص کو کیا فائدہ پہنچے گا؟۔ وہ چونکہ اہل اللہ میں سے تھے اس لئے اتنے فقرہ سے ہی فوراً سمجھ گئے اور عرض کیا کہ حضور! مَیں آئندہ ایسا نہیں کروں گا، مَیں سمجھ گیا ہوں کہ یہ ایک بے فائدہ چیز ہے جس کا دین اور روحانیت کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔
٭ حضرت مسیح موعودؑ کی خدمت میں جب کوئی عرض کرتا کہ ہمارے ہاں بڑی مخالفت ہے تو آپؑ فرماتے یہ تمہاری ترقی کی علامت ہے۔ ایک دفعہ ایک دوست نے بیعت کرلی تو حضورؑ نے اُن سے پوچھا کہ آپ کو کس نے تبلیغ کی تھی۔ وہ بے ساختہ کہنے لگے کہ مولوی ثناء اللہ صاحب نے۔ مَیں اُن کا اخبار اور کتابیں پڑھتا تھا جن میں جماعت کی شدید مخالفت ہوتی تھی۔ ایک دن خیال آیا کہ اس سلسلہ کی کتابیں بھی دیکھوں۔ جب ان کتابوں کو پڑھنا شروع کیا تو میرا سینہ کھل گیا ۔
٭ ایک دفعہ بعض غیراحمدیوں نے حضرت مسیح موعودؑ سے سوال کیا کہ شادی بیاہ اور دوسرے معاملات میں آپ اپنی جماعت کے لوگوں کو کیوں اجازت نہیں دیتے کہ وہ ہمارے ساتھ تعلقات قائم کریں۔ آپؑ نے فرمایا کہ اگر ایک مٹکا دودھ کا بھرا ہوا ہو اور اس میں کھٹی لسی کے تین چار قطرے بھی ڈال دیئے جائیں تو سارا دودھ خراب ہوجاتا ہے۔ لوگ اس حکمت کو نہیں سمجھتے کہ قوم کی قوت عملیہ کو قائم رکھنے کیلئے ضروری ہوتا ہے کہ اسے دوسروں سے الگ رکھا جائے اور اُن کے بداثرات سے بچایا جائے۔
٭ حضرت مسیح موعودؑ نے یہ بات بارہا سنائی کہ ترکی کے سلطان عبدالحمید نے جب یونان سے جنگ کا سوال اٹھایا تو اُس کے وزراء نے کہا کہ سب ٹھیک ہے لیکن ایک بات ٹھیک نہیں (غالباً یہ کہ یورپ یونان کی مدد کرے گا)۔ اس پر سلطان نے کہا کہ کوئی خانہ تو خدا کے لئے بھی خالی چھوڑنا چاہئے۔ حضورؑ اُس کی اس بات سے بہت لطف اٹھاتے تھے۔ دراصل کوئی کبھی ایسے مقام پر نہیں پہنچتا جب یہ کہہ سکے کہ اب کوئی کمزوری کا رستہ باقی نہیں رہا اور یہ بھی حماقت ہے کہ انسان اسباب کو بالکل نظرانداز کردے۔ اس وقت یورپین قومیں پہلی حماقت میں مبتلا ہیں اور مسلمان دوسری حماقت میں۔
٭ حضرت مصلح موعودؓ بیان فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ جب ہم لکھنؤ گئے تو وہاں ایک مخالف مولوی عبدالکریم نے تقریر کی جس میں حضرت مسیح موعودؑ کا ایک واقعہ تحقیر کے طور پر بیان کیا۔ وہ واقعہ یہ تھا کہ ایک بار جب حضورؑ دلّی گئے تو ہمارے ایک رشتہ دار ماموں مرزا حیرت دہلوی نے شرارت سے ایک جعلی پولیس انسپکٹر بن کر آپؑ سے کہا کہ مجھے حکومت نے بھیجا ہے کہ آپؑ کو نوٹس دوں کہ فوراً چلے جائیں ورنہ آپؑ کو سخت نقصان ہوگا۔ حضورؑ نے تو اُس کی طرف توجہ نہ کی لیکن دوسرے لوگوں نے بات کی تو وہ وہاں سے بھاگ گئے۔ اس واقعہ کو مولوی عبدالکریم نے یوں بتایا کہ دیکھو وہ خدا کا نبی بنا پھرتا ہے مگر جب دلّی گیا تو مرزا حیرت انسپکٹر پولیس بن کر اُس کے پاس چلا گیا۔ وہ کوٹھے پر بیٹھا ہوا تھا۔ وہ ایسا گھبرایا کہ سیڑھیوں سے اترتے وقت اس کا پیر پھسلا اور وہ منہ کے بل زمین پر آگرا۔ لوگوں نے یہ تقریر سن کر بڑے قہقہے لگائے لیکن اُسی رات وہ مولوی جب اپنے مکان کی بغیر منڈیر کی چھت پر سو رہا تھا تو کسی کام سے اٹھا تو اُس کا پاؤں چھت سے باہر جاپڑا اور نیچے گرتے ہی مر گیا۔ اگر اُسے پتہ ہوتا کہ اُس کی گستاخی کی یہ سزا ملے گی تو وہ کبھی گستاخی نہ کرتا بلکہ ایمان لے آتا۔ لیکن ایسا ایمان کس کام کا۔ ایمان تو وہی کارآمد ہوسکتا ہے جو غیب کی حالت میں ہو۔ ثواب یا عذاب سامنے نظر آنے پر تو ہر کوئی ایمان لاسکتا ہے۔
٭ حضرت مسیح موعودؑ سے یہ ایک واقعہ مَیں نے سنا ہوا ہے کہ ہارون الرشید نے امام موسیٰ رضا کو کسی وجہ سے قید کردیا اور اُن کے ہاتھوں اور پاؤں میں رسیاں باندھ دی گئیں۔ رات کو ہارون الرشید اپنے محل میں نرم گدیلوں پر سویا ہوا تھا کہ اُس نے خواب میں رسول کریمﷺ کو دیکھا کہ آپؐ کے چہرہ پر غضب کے آثار ہیں۔ آپؐ نے فرمایا: ہارون الرشید! تم ہم سے محبت کا دعویٰ کرتے ہو مگر تمہیں شرم نہیں آتی کہ تم تو آرام دہ گدیلوں پر گہری نیند سو رہے ہو اور ہمارا بچہ شدت گرما میں ہاتھ پاؤں بندھے ہوئے قیدخانہ کے اندر پڑا ہے۔ یہ نظارہ دیکھ کر ہارون الرشید بیتاب ہوکر اٹھا اور اُسی وقت جیل خانہ جاکر اپنے ہاتھ سے اُن کے ہاتھوں اور پاؤں کی رسیاں کھولیں۔ پھر امام موسیٰ کے پوچھنے پر اپنا خواب سنایا اور معافی چاہی۔ پس دیکھو کہ حضرت علیؓ کی اولاد میں اتنی پشتیں گزر جانے کے باوجود بھی خدا تعالیٰ ایک بادشاہ کو خواب میں ڈراتا ہے اور اُن سے حسن سلوک کرنے کی تاکید کرتا ہے۔ اگر حضرت علیؓ کو اس اعزاز کا پتہ ہوتا اور وہ محض اس عزت افزائی کے لئے اسلام قبول کرتے تو ان کا ایمان صرف دوکانداری رہ جاتا، کسی انعام کا موجب نہ بنتا۔
٭ حضرت مسیح موعودؑ کے زمانہ میں کپورتھلہ میں احمدیوں اور غیراحمدیوں کا ایک مسجد کے متعلق مقدمہ ہوگیا۔ جج نے مخالفانہ رویہ اختیار کیا تو جماعت نے گھبرا کر حضورؑ کو دعا کے لئے خط لکھا۔ آپؑ نے جواب میں تحریر فرمایا کہ ’’اگر مَیں سچا ہوں تو مسجد تم کو مل جائے گی‘‘۔ مگر جج نے مخالفت بدستور جاری رکھی اور آخر احمدیوں کے خلاف فیصلہ لکھ دیا۔ لیکن اگلے روز جب فیصلہ سنانے کے لئے اُس نے عدالت جانا تھا تو بوٹ پہنتے ہوئے اس کا ہارٹ فیل ہوگیا۔ اُس کے مرنے کے بعد دوسرا جج مقرر ہوا جس نے پہلا فیصلہ بدل دیا اور جماعت کے حق میں فیصلہ کردیا۔ یہ دیکھ کر احمدیوں کے ایمان آسمان تک جاپہنچے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی سنت ہے کہ انبیاء کے ذریعہ متواتر غیب کی خبریں دیتا ہے جن کے پورا ہونے پر ایمان اَور بھی ترقی کرجاتے ہیں۔ یہ انہی کا اثر تھا کہ دوسرے لوگ تو موت کو دیکھ کر روتے تھے لیکن صحابہؓ کو خدا تعالیٰ کی راہ میں جان دینے کا موقعہ ملتا تو وہ خوشی سے کہتے: فزت و ربّ الکعبۃ کہ ربّ کعبہ کی قسم! مَیں کامیاب ہوگیا۔
٭ حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ مجھے ایک سکھ نے بتایا کہ ہم دو بھائی اپنے والد کے ساتھ حضرت مسیح موعودؑ کے والد کے پاس آیا کرتے تھے۔ ایک دفعہ انہوں نے میرے والد سے کہا کہ تمہارے لڑکے غلام احمد کے پاس آتے جاتے ہیں۔ تم ان سے کہو کہ اسے جاکر سمجھائیں کہ تمہارے والد کو اس خیال سے بہت دکھ ہوتا ہے کہ اس کا چھوٹا لڑکا اپنے بڑے بھائی کی روٹیوں پر پلے گا، مَیں کوشش کررہا ہوں کہ اسے کوئی اچھی نوکری مل جائے، مَیں مر گیا تو پھر سارے ذرائع بند ہوجائیں گے۔ تب وہ سکھ گیا اور حضورؑ سے ساری بات عرض کی تو آپؑ نے فرمایا کہ والد صاحب تو یونہی غم کرتے رہتے ہیں، انہیں میرے مستقبل کا کیوں فکر ہے؟ مَیں نے تو جس کی نوکری کرنی تھی، کرلی ہے۔ اس پر ہم واپس آگئے اور آپؑ کے والد صاحب سے آکر ساری بات کہہ دی۔ انہوں نے جواباً فرمایا کہ اگر اُس نے یہ بات کہی ہے تو ٹھیک کہا ہے، وہ جھوٹ نہیں بولا کرتا۔ چنانچہ بعد میں حضورؑ خود فرماتے ہیں کہ ’’ایک وہ زمانہ تھا جب بچے ہوئے ٹکڑے مجھے دیئے جاتے تھے اور آج میرا یہ حال ہے کہ مَیں سینکڑوں خاندانوں کو پال رہا ہوں‘‘۔ چنانچہ ایک وہ وقت تھا کہ جب کوئی ملاقاتی آتا اور آپ اپنی بھاوجہ کو کھانے کے لئے کہلا بھیجتے تو وہ آگے سے کہہ دیتیں کہ وہ یونہی کھا پی رہا ہے، کام کاج تو کوئی کرتا نہیں۔ اس پر آپؑ اپنا کھانا اُس ملاقاتی کو دیدیتے اور خود فاقہ کرلیتے یا چنے کھاکر گزارہ کرلیتے۔ خدا کی قدرت کہ وہی بھاوجہ جو اُس وقت آپؑ کو حقارت سے دیکھتی تھیں بعد میں میرے ہاتھ پر احمدیت میں داخل ہوئیں۔ غرض اللہ تعالیٰ کی طرف سے شروع کیے جانے والے کام کی ابتدا بڑی نظر نہیں آیا کرتی لیکن اس کی انتہا پر دنیا حیران ہوجاتی ہے۔
٭ حضرت مسیح موعودؑ کو سرخی کے چھینٹوں والا کشف دکھایا گیا تو سرخی کے چھینٹے آپؑ کے قمیص اور ایک قطرہ میاں عبداللہ صاحب سنوری کی ٹوپی پر بھی پایا گیا۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے اس نشان میں اُن کو بھی شریک کرلیا۔ اسی طرح ایک دفعہ مجھے بتایا گیا کہ آج رات حضورؑ پر یہ الہام نازل ہوا ہے: انّی مَعَ الْاَفواج اتیک بَغْتَۃً۔ صبح آپؑ نے اشاعت کے لئے اپنے الہامات لکھ کر دیئے تو اتفاقاً آپؑ کو یہ الہام لکھنا یاد نہ رہا۔ مَیں نے کہا کہ مجھے تو فرشتوں نے بتایا تھا کہ آج رات آپؑ کو یہ الہام بھی ہوا ہے۔ اس پر آپؑ اندر سے الہامات والی کاپی اٹھالائے جس میں یہ الہام درج تھا لیکن آپ کو لکھنا یاد نہیں رہا تھا چنانچہ پھر یہ الہام بھی اخبار میں شائع کروادیا گیا۔
٭ ایک غیراحمدی دوست شیخ رحمت اللہ صاحب وکیل ایک بار لاہور میں حضرت مسیح موعودؑ کی تقریر سن رہے تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ مَیں نے دیکھا کہ نور کا ایک ستون آپؑ کے سر سے آسمان کی طرف جا رہا ہے۔ مَیں نے ساتھ والے دوست کو کہا کہ دیکھو وہ کیا چیز ہے؟ انہوں نے کہا کہ یہ تو نور کا ستون ہے۔ یہ نظارہ دیکھ کر شیخ صاحب نے اُسی دن حضورؑ کی بیعت کرلی۔
٭ حضرت مسیح موعودؑ کسی بزرگ کا یہ مقولہ سنایا کرتے تھے کہ ’’دست درکار و دل بایار‘‘ یعنی ہاتھ کام میں مشغول ہوں لیکن دل اللہ کی طرف متوجہ رہے۔ اسی طرح ایک بزرگ سے کسی نے پوچھا کہ دن میں کتنی دفعہ اللہ کا ذکر کیا کروں؟ انہوں نے کہا کہ محبوب کا نام لینا ہے اور گن گن کر!۔ اس لئے اصل ذکر وہی ہے جو ان گنت ہو مگر ایک معین وقت مقرر کرنے میں یہ خوبی ہوتی ہے کہ انسان اس وقت اپنے محبوب کیلئے دوسرے کاموں سے بالکل الگ ہوجاتا ہے۔
٭ انسان کی فطرت میں یہ بات مرکوز کردی گئی ہے کہ وہ کسی کا ہورہے۔ حضرت مسیح موعودؑ سنایا کرتے تھے کہ یا تو تُو کسی کا ہوجا یا کوئی تیرا ہوجائے۔ بیشک جب تک انسان اصل چیز نہیں پالیتا وہ کبھی بیوی کا ہورہتا ہے، کبھی بہن بھائی کا، کبھی ماں باپ کا، کبھی دوستوں کا۔ مگر جب خدا تعالیٰ کے ملنے کا راستہ اس پر کھل جاتا ہے تو پھر وہ خدا تعالیٰ کا ہی ہوجاتا ہے۔
٭ حضرت مسیح موعودؑ سنایا کرتے تھے کہ مہاراجہ رنجیت سنگھ نے اپنے باورچی کو محض کھانے میں نمک زیادہ ہونے پر ایک سو کوڑے لگانے کی سزا دی تو مہاراجہ کے ایک مسلمان وزیر عزیزالدین بڑے نرم دل تھے، کہنے لگے یہ بادشاہ کی شان سے بعید ہے کہ کھانے میں ذرا سا نمک زیادہ ہوجائے تو اس پر چڑ کر ایک سوکوڑے لگانے کا حکم دے۔ مہاراجہ کہنے لگا کہ یہ نہ خیال کریں کہ مَیں اسے نمک کی زیادتی پر یہ سزا دے رہا ہوں۔ اس نے میرا ایک سو بکرا کھایا ہوا ہے اور ایک ایک بکرے پر ایک درّے کی سزا مَیں اسے دے رہا ہوں۔ کھانے میں نمک کی زیادتی محض ایک بہانہ ہے جس کے ذریعہ گزشتہ قصوروں کی سزا دینے کا موقع مل گیا ہے۔
٭ مَیں نے حضرت مسیح موعودؑ سے سنا کہ کسی نے ایک بزرگ سے پوچھا کہ کتنے روپوؤں پر زکوٰۃ فرض ہے۔ انہوں نے جواب دیا کہ تمہارے لئے یہ مسئلہ ہے کہ تم چالیس روپے میں سے ایک روپیہ زکوٰۃ دو۔ اس نے کہا: ’’تمہارے لئے‘‘ کا کیامطلب ہے؟ کیا زکوٰۃ کا مسئلہ بدلتا رہتا ہے؟۔ انہوں نے کہا: ہاں، کیونکہ اگر میرے پاس چالیس روپے ہوں تو مجھ پر اکتالیس روپے دینے لازمی ہیں کیونکہ میرا مقام ایسا ہے۔ تمہیں خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ تم کماؤ اور کھاؤ لیکن مجھے کہا ہے کہ میرے اخراجات کا وہ خود کفیل ہے اس لئے اگر بیوقوفی سے چالیس روپے جمع کرلوں تو وہ چالیس روپے بھی دوں گا اور ایک روپیہ جرمانہ بھی دوں گا۔
٭ حضرت مسیح موعودؑ جب سیالکوٹ تشریف لے گئے تو مولویوں نے فتویٰ دیا کہ جو کوئی آپؑ کی بات سننے جائے گا اُس کا نکاح ٹوٹ جائے گا…۔ حضورؑکی موجودگی میں چونکہ احمدی جمع تھے اس لئے مولویوں کو فساد کی جرأت نہیں ہوسکی لیکن آپؑ کی واپسی کے بعد انہوں نے گاڑی پر بھی پتھراؤ کی کوشش کی اور جب تھوڑے سے احمدی اسٹیشن پر رہ گئے تو اُن پر حملہ کردیا۔ اُن میں ایک مولوی برہان الدین صاحبؓ بھی تھے جنہیں پتھر مارے اور گرا کر اُن کے منہ میں گوبر ڈالا۔ اس پر مولوی صاحبؓ نے بجائے گالیاں دینے کے خوشی سے سبحان اللہ کہنا شروع کیا کہ یہ دن تو نبیوں کے آنے پر ہی نصیب ہوتے ہیں اور مجھ پر اللہ کا احسان ہے۔ چنانچہ جو حملہ کرنے والے تھے وہ تھوڑی ہی دیر میں شرمندگی اور ذلّت سے آپ کو چھوڑ گئے۔
٭ افسوس ہے کہ کئی نوجوان اچھا عہدہ ملنے پر اپنے والدین سے ملنے میں بھی شرم محسوس کرتے ہیں۔ حضرت مسیح موعودؑ سنایا کرتے تھے کہ کسی ہندو نے بڑی تکلیف برداشت کرکے اپنا لڑکا پڑھایا۔ جب وہ ڈپٹی ہوگیا تو ایک دفعہ باپ اپنے بیٹے کو ملنے آیا۔ بیٹا اس وقت مجلس میں بیٹھا تھا۔ کسی نے غلیظ دھوتی والے آدمی کی طرف اشارہ کرکے پوچھا کہ یہ کون ہے۔ ڈپٹی صاحب نے جھینپ کر جواب دیا کہ یہ ہمارے ٹہلیا ہیں (یعنی بچپن میں کھلانے والے)۔ اس پر باپ غصہ سے اٹھا اور کہنے لگا کہ مَیں ان کا نہیں ان کی ماں کا ٹہلیا ہوں۔ جب لوگوں کو معلوم ہوا کہ یہ ڈپٹی صاحب کے والد تھے تو انہوں نے ڈپٹی کو بہت لعن طعن کی۔ بہرحال ایسے نظارے دیکھنے کو ملتے ہیں کہ لوگ رشتہ داروں سے ملنے سے جی چراتے ہیں تاکہ اُن کی اعلیٰ پوزیشن میں کوئی کمی نہ ہوجائے۔
٭ حضرت مسیح موعودؑ ایک دفعہ لاہور یا امرتسر ریلوے سٹیشن پر تھے کہ پنڈت لیکھرام نے آکر آپؑ کو سلام کیا۔ چونکہ پنڈت لیکھرام کی آریہ سماج میں بہت بڑی حیثیت تھی اس لئے احمدی بڑے خوش ہوئے کہ لیکھرام آپؑ کو سلام کرنے آیا ہے۔ لیکن حضورؑ نے اُسکی طرف ذرا بھی توجہ نہ کی۔ لوگوں نے، یہ سمجھ کر کہ شاید حضورؑ نے دیکھا نہیں، عرض کیا کہ پنڈت لیکھرام صاحب سلام کر رہے ہیں۔ آپؑ نے بڑے جوش سے فرمایا: اسے شرم نہیں آتی کہ میرے آقا کو تو گالیاں دیتا ہے اور مجھے آکر سلام کرتا ہے۔