حضرت مصلح موعودؓ
ماہنامہ ’’النور‘‘ امریکہ فروری 2005ء کے شمارہ میں سیدنا حضرت مصلح موعودؓ کے بارہ میں ایک مختصر مگر جامع مضمون (کتاب ’’سوانح فضل عمر‘‘ از حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحبؒ) سے منقول ہے۔
حضرت مصلح موعودؓ اتنی خوبیوں اور صفات سے بہرہ ور تھے کہ آپ ایک فرد کی بجائے اپنی ذات میں ایک انجمن تھے۔ آپ بہت متناسب الاعضاء میانہ قد تھے۔ جسم ہلکا پُھلکا اور چھریرا تھا جو آخری عمر میں بھرا بھرا لگنے لگا تھا تاہم موٹاپااور بھدّا پن کبھی بھی نہ آیا۔ آنکھیں غلافی پُرکشش جو عادتاً نیم وا رہتی تھی۔ نظر اُٹھا کر کم ہی دیکھتے تھے مگر جس چیز کو بھی دیکھتے تھے اسے پاتال تک دیکھ لیتے اور حقیقت کو بخوبی سمجھ لیتے۔
مسنون خوبصورت داڑھی جو نہ بہت لمبی تھی اور نہ ہی بہت چھوٹی۔ اسی طرح داڑھی کے بال نہ تو چھدرے اور بھدّے اور نہ ہی بہت زیادہ گھنے تھے۔ چہرے پر ایک بہت پیاری مسکراہٹ ہر وقت سجی رہتی تھی۔ کبھی کبھی قہقہہ لگا کر بھی ہنستے تھے مگر بہت کم۔
بالعموم دھیمی مگر ایسی قابلِ فہم آواز میں گفتگو کرتے کہ مخاطب کو سننے یا سمجھنے میں دقت نہ ہوتی اور دوبارہ پوچھنے کی ضرورت پیش نہ آتی۔ بعض مواقع پر، خاص طور پر عظمت ِ دین اور خدائی وعدوں پر یقین کا مضمون بیان فرماتے تو آواز میں غیر معمولی شوکت اور تاثیر پیدا ہوجاتی۔ آہستہ، ناقابلِ فہم اور مُبہم آواز میں بات کرنا آپ کو پسند نہیں تھا۔
گھر سے باہر آتے ہوئے ہاتھ میں چھڑی رکھنے کی سنت پر عمل پیرا ہونے کا اہتمام فرماتے۔ لباس بہت ہی سادہ ہوتا تھا اور اس کے متعلق کوئی خاص اہتمام نہ فرماتے سوائے اس کے کہ صاف ستھرا ہو۔
خوراک بہت تھوڑی اور سادہ تھی۔ کئی غریب، مخلص سادہ احمدی اخلاص و محبت سے مکئی کی روٹی، ساگ یا ایسی کوئی اور معمولی چیز یا موسمی پھل بطور تحفہ آپ کی خدمت میں بھجواتے تو آپ شوق و رغبت سے اسے استعمال کرتے اور بھیجنے والے کی دلجوئی اور حوصلہ افزائی فرماتے۔
آپ کے مصروف اوقات کا اکثر حصہ پڑھنے لکھنے میں صرف ہوتا۔ مطالعہ بہت تیزی سے فرماتے، مطلب کی بات فوری طور پر اخذ کرنے کا غیرمعمولی ملکہ تھا۔ آپ کی لائبریری کی سینکڑوں کتابوں پر آپ کے قلم کے نشانات اور نوٹ یہ بتانے کے لئے کافی ہیں کہ آپ کا مطالعہ بہت وسیع تھا۔ یہی وجہ ہے کہ کسی بھی علم کے ماہر سے قرآنی بصیرت کی روشنی میں بات کر کے اسے اسلام کی صداقت و عظمت کا قائل کرلیتے تھے۔ ابتدائی زمانہ میں زیرِ مطالعہ کتب کا ڈھیر چارپائی کے پاس لگ جاتا۔ کبھی یہ بھی ہوتا کہ آپ اپنی لائبریری سے کوئی کتاب منگواتے تو ساتھ ہی یہ بھی بتادیتے کہ یہ کتاب لائبریری کے کس خانہ میں کس جگہ رکھی ہوئی ہے۔ کبھی یہ بھی بتا دیتے کہ یہ حوالہ کتاب کے کس حصہ میں صفحہ کی کس جگہ پر ملے گا۔
آپ بچپن میں کئی کھیلیں کھیلتے رہے مگر جن کھیلوں سے آپ کو ہمیشہ دلچسپی رہی وہ تیراکی، نشانہ بازی اور گھوڑسواری تھی۔ جوانی میں تو آپ مشاق تیراکوں سے مقابلہ کر کے بازی لے جایا کرتے تھے۔ آپ کا نشانہ بہترین تھا۔ پہلے غلیل پھر ہوائی بندوق اور شاٹ گن وغیرہ بھی زیرِ استعمال رہیں۔ ہوائی بندوق سے شکار کی رغبت اس لئے بھی زیادہ ہوگئی کہ حضرت مسیح موعود ؑ دماغی کام کرنے والے کے لئے پرندوں کی یخنی مفید سمجھتے تھے۔ نشانہ بازی کی مشق کیلئے درخت پر بیٹھی ہوئی بھڑوں کا ایک ایک کر کے نشانہ لیتے۔
آپ کے مشاغل میں عطر سازی کا ذکر بھی ملتا ہے۔ قو تِ شامہ بھی دوسری حسّوں کی طرح بہت تیز تھی بعض دفعہ آپ دودھ کا ایک گھونٹ پی کر یا سونگھ کر یہ بتادیا کرتے تھے کہ جس گائے کا یہ دودھ ہے اس نے کیا چارہ کھایا تھا۔ عطر سازی کو بطور مشغلہ اپنانے کی طرف توجہ اس وجہ سے بھی پیدا ہوئی کہ تیز خوشبو والے عام بازاری عطر آپ کو سخت ناپسند تھے۔عطر سازی کے متعلق آپ نے بہت مطالعہ کیا، تجربات کئے، اس فن کے ماہروں سے گفتگو فرمائی اور پھر اپنی طبعی نفاست کی وجہ سے عطر کی نہایت عمدہ قسمیں دریافت فرمائیں۔
آپ کسی کے سپرد کوئی کام کرتے تو اس کے متعلق واضح ہدایات دیتے، تفصیلی راہنمائی فرماتے اور فوری طور پر رپورٹ دینے کی تاکید فرماتے۔ آپ ایک وقت میں پوری توجہ سے کئی کام کر سکتے تھے۔
آپؓ کی یادداشت بھی غیر معمولی تھی۔ آپؓ کی آخری بیماری کے دوران لاہور ایک غیر از جماعت طبیب اپنے ایک دوست کے ہمراہ حضورؓ کی عیادت کے لئے حاضر ہوئے تو آپؓ نے انہیں دیکھتے ہی فرمایا کہ دیر کی بات ہے قادیان میں ایک دفعہ کسی مریض کو دیکھنے کے لئے آپ کو بلایا تھا۔ طبیب صاحب کو حافظہ پر زور دے کر یہ برسوں پرانی بات یاد آئی۔ ملاقات کے دوران بعض اوقات سیکرٹری وغیرہ کسی ملاقاتی کا تعارف کرواتے تو آپ ان کی تصحیح فرمادیتے۔ آپ نے کئی مواقع پر فرمایا کہ قادیان اور جماعت کے دوستوں کی نام بہ نام جتنی لمبی فہرست میں تیار کر سکتا ہوں اور کوئی نہیں کر سکتا اور کئی دفعہ حسبِ ضرورت اس کا تجربہ بھی ہوتا رہتا تھا۔
اپنے ہاتھ سے کام کرنے کو پسند فرماتے تھے ایک دفعہ آپ نے اپنے بچوں میں سے کسی کو دیکھا کہ وہ اپنا جوتا پہریدار کو پالش کرنے کو دے رہا ہے۔ آپ نے وہ جوتا پکڑ لیا کہ پہریدار کا یہ کام نہیں ہے وہ جماعتی ملازم ہے آپ کو اپنا کام خود کرنا چاہئے یا میں آپ کو پالش کر دیتا ہوں۔ آپ خود وقارعمل میں مٹی کھودتے، ٹوکریوں میں مٹی اٹھا کر لے جاتے اور بھرتی ڈالتے۔
سفر کے دوران ساتھیوں کی ضرورت کا خیال رکھتے۔ گرمیوں میں کارکنوں کو گھر سے برف بھجوانے کی ہدایت دیتے اور پھر قریباً ہر کھانے کے وقت تسلی کر لیتے کہ باہر برف بھجوادی گئی ہے۔ کھانے کے وقت یہ بھی دریافت فرماتے کہ سب کو کھانا مل گیا ہے۔ اگر کسی کارکن کو کام کے لئے بھجوایا ہوتا تو اس کا کھانا رکھنے کی تاکید فرماتے۔
آپؓ قادر الکلام شاعر تھے اور صرف اردو ہی نہیں عربی میں بھی اشعار کہتے تھے۔ ادبی حلقوں میں آپ احترام کی نظر سے دیکھے جاتے۔ تشحیذالاذہان اور اخبار الفضل کی ادارت کی وجہ سے آپ کو صحافت کا بھی خوب تجربہ تھا۔ نوجوانی میں ہی آپ کی تقاریر افادیت و تاثیر کے لحاظ سے بہت پسند کی جاتی تھیں۔ مگر منصب خلافت پر فائز ہونے کے بعد تو آپ کی یہ خوبی اتنی نمایاں ہوگئی کہ بلاخوفِ تردید کہا جاسکتا ہے کہ سنجیدہ علمی خطاب کرنے والوں میں آپ سب سے آگے تھے۔ مختصر نوٹوں کی مدد سے بڑے وقار و متانت کے ساتھ بغیر کسی مصنوعی گھن گرج یا ہاتھ لہرانے پھیلانے کے، گھنٹوں ایسے بولتے چلے جاتے کہ جیسے کوئی کتاب پڑھ رہے ہوں۔ موضوع پر پوری گرفت ہوتی، ہر فقرہ موزوں اور درست ہوتا۔
آپ کی مخالفت بہت زیادہ تھی جو حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کا موعود بیٹا ہونے کی وجہ سے آپکی پیدائش سے بھی پہلے شروع ہوگئی تھی۔ جماعت کے اندر بھی بعض کمزور ایمان والوں نے فتنے شروع کئے مگر اس ساری مخالفت کے باوجود آپ نے کبھی کسی سے نفرت نہ کی۔ جب موقع ملا تو مخالفوں سے بھی حسن سلوک فرمایا، قومی مفاد کے کاموں میں مخالفوں سے تعاون بھی کیا اور ان سے تعاون حاصل کرنے کی کوشش بھی فرمائی۔ اگر کسی مخالف کی کسی مشکل یا تکلیف کا علم ہوا تو اس کی ہر ممکن مدد فرمائی۔ مخالفت میں تمام حدود کو تجاوز کرجانے والے بھی جب آخری عمر میں بیمار اور محتاج ہوئے تو حضور کی ہدایت پر حضورؓ کے معالج خاص ان کا علاج کرتے رہے اور حضورؓ کی طرف سے ان کی ادویات بھی مہیا کی جاتیں۔
آپ دن رات مسلسل محنت پر یقین رکھتے تھے۔ آپ کے ساتھ کام کرنے والے آپ کی قوتِ عمل سے حیران رہ جاتے تھے۔ روزانہ ڈاک میں آپ کوسینکڑوں خطوط ملتے، افرادِ جماعت آپ کو اپنے وسیع کنبہ کا سربراہ سمجھتے ہوئے ہر بات آپ کے علم میں لانا موجب ِ برکت گردانتے۔ بچوں کا نام رکھوانے کے لئے، کاروبار شروع کرتے ہوئے بلکہ باہر سفر پر جاتے ہوئے آپ کی خدمت میں خط لکھ کر برکت حاصل کی جاتی۔ آپ کے خطوط میں جماعت پر اعتراضات بھی ہوتے، انتظامی امور بھی ہوتے، تعبیر طلب خوابیں بھی ہوتیں، جماعت کی ترقی کے لئے مشورے بھی ہوتے، غرض یہ ایک الگ عالَم تھا جس کا کوئی ایسا شخص جس نے یہ نظارہ خود نہ دیکھا ہو پوری طرح اندازہ و تصور بھی نہیں کر سکتا۔ یہ بتانے کی تو ضرورت نہیں کہ رات کا آخری حصہ دعاؤں اور عبادات کے لئے وقف ہوتا۔ آپ کو قریب سے دیکھنے والے تو آپ کی زندگی کو مسلسل عبادت سمجھتے تھے کیونکہ تلاوت بھی معمولاً بہت لمبی ہوتی تھی۔ نمازوں کی امامت کے لئے مسجد میں جانے کی وجہ سے یہ ایک مستقل مصروفیت تھی جو کافی وقت کا تقاضا کرتی تھی۔