حضرت مصلح موعود کے احترام کا بے مثل واقعہ
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 29؍جولائی 2004ء میں لیفٹیننٹ کرنل (ر) سردار محمد حیات قیصرانی صاحب ایک تاریخی واقعہ بیان کرتے ہیں جب 1922ء میں دہلی کا شاہی دربار نہایت شان سے منعقد ہوا تھا۔ وائسرائے ہند نے کھڑے ہوکر شاہی دربار پر فاتحانہ نگاہ ڈالی۔ ہندوستان کے والیان ریاست اور رؤسا ء ملک زرق برق لباسوں میں ملبوس اپنی اپنی جگہوں پر بیٹھے قیصر ہند ، تاجدار برطانیہ جارج پنجم کے ولی عہد شہزادے کا انتظار کر رہے تھے۔ وائسرائے ہند کو احساس ہوا کہ دربار میں بیٹھا ہوا ایک بلوچ سردار، سردار امام بخش خان تمندار قیصرانی کچھ ایسے انداز میں بیٹھا ہے کہ اس کی پشت ’’شہزادہ سلامت ‘‘ کی تخت گاہ کی طرف ہورہی ہے اور ایسا کرنا آداب شاہی کی خلاف ورزی ہے۔ وائسرائے ہند کی ہدایت پر گورنرپنجاب نے آکر سردار صاحب سے کہا کہ اس طرح بیٹھنا آداب شاہی کے خلاف ہے۔ سردار صاحب نے جواباً کہا کہ انہیں آداب شاہی کا بخوبی احساس ہے لیکن ان کے پیچھے بیٹھے ہوئے حضرت صاحبزادہ مرزا محمود احمد صاحب ہیں جو حضرت مرزا غلام احمد قادیانی کے فرزند ارجمند ہیں، اس لئے وہ احتراماً کچھ اس انداز سے بیٹھے کہ جس سے صاحبزادہ موصوف کی طرف ان کی پیٹھ نہ ہو۔
گورنر پنجاب، اس جواب سے برہم ہوئے اور کہا کہ دربار شاہی کے انعقاد کی اصل غرض ہی شہزادہ ویلز کو خراج عقیدت پیش کرنا تھی اور شہزادہ کی ذات ہی بلا شرکت غیر باعث صد تکریم تھی۔ اصولی طور پر سردار صاحب شہزادہ ویلز کے مقام عزوجاہ سے بخوبی واقف تھے لیکن اُن کا ذہن ایک عجیب کشمکش کا شکار ہورہا تھا۔ اُن کے گوشۂ ذہن میں ماضی کی یادیں ابھرنے لگیں۔ انہیں وہ دن یاد آئے جب وہ انگریز سرکار کے حکم سے جلاوطن کئے گئے۔ جلاوطنی کے ایام میں وہ اپنے اہل و عیال سمیت قریہ قریہ بے سہارا وبے آسرا پھرے۔ لیکن کہیں مونس و مدد گار نہ پایا۔ دور دراز کی دشت نوردی اور آبلہ پائی کے بعد وہ تھکے ماندے مسیح کے دروازہ تک پہنچے اور طالب دعا ہوئے۔ درد آشنا مسیح نے سردار صاحب اور ان کے اہل وعیال کو اپنے ہی گھر میں اتارا۔
بے سہاروں کو سہارا ملا۔ دنیاوی بادشاہت کے ٹھکرائے ہوئے شاہ دین کی امان میں آگئے۔ مسیح کے خلق عظیم نے سردار صاحب کو اپنا گرویدہ بنالیا اور وہ ہمیشہ کے لئے دامن مسیح سے وابستہ ہوگئے اور پھر مسیح کی دعاؤں کی برکتوں سے مالا مال ہوگئے۔ مسیح نے جو مژدۂ فتح جلاوطنی کے ایام میں سردار صاحب کو سنایا تھا وہ پورا ہوا اور وہ قیصرانی قبیلہ کے تمندار بنے اور بلوچوں کے سردار کہلائے ۔ مسیح کی غلامی نے انہیں تخت سرداری بخشا۔ ان سوچوں میں محو سردار صاحب دفعتاً کھڑے ہوگئے۔ اپنی چادر کندھے پر رکھی اور گورنر صاحب سے کچھ یوں مخاطب ہوئے کہ میں آپ کی برہمی کو سمجھ گیا ہوں۔ پہلے بھی انگریز سرکار مجھ سے برہم ہوئی تو مجھے جلاوطن کیا۔ جلاوطنی کے دوران حضرت مرزا غلام احمد قادیانی کا گھر ہی میرے اہل وعیال کے لئے جائے پناہ بنا۔ میں ان کے زیر بار احسان ہوں۔ میں آج دربار میں اُن کے فرزند جانشین صاحبزداہ موصوف کی طرف پیٹھ کئے ہوئے نہیں بیٹھ سکتا۔ بلوچوں کی احسان شناسی ضرب المثل ہے۔ میں کیونکر احسان فراموش بن کر دربار میں بیٹھ سکتا ہوں؟ اگر ممکن ہو تو میری کرسی صاحبزادہ موصوف کے پیچھے ڈال دی جائے وگرنہ مجھے اجازت دیں، میں خود ہی دربار سے باہر چلا جاؤں، دنیاوی عزت کے بغیر میں پھر بھی جی لوں گا۔
سردار صاحب کا اٹھنا تھا کہ ڈیرہ جات کے سب بلوچ سردار کھڑے ہوگئے۔ یہ صورت حال دیکھ کر وائسرائے ہند بھاگے ہوئے آئے اور تمام سرداروں کو دربار میں بیٹھنے کے لئے کہا ۔ لیکن سرنواب میر بہرام خان تمنداری مزاری (جناب میر بلخ شیر صاحب سردار مزاری کے دادا محترم) سینہ سپر ہوگئے۔ بالآخر بلوچ سرداروں نے اس شرط پر بیٹھنا منظور کیا کہ حضرت صاحبزادہ صاحب کی کرسی بلوچ سرداروں سے آگے رکھ دی جائے۔ شاہی دربار میں فوری ردوبدل بظاہر ناممکن اور انگریز قوم کی روایات کے خلاف تھا لیکن وقت کی نزاکت کا احساس کرتے ہوئے وائسرائے ہند کے لئے کوئی چارہ نہ رہا۔ چنانچہ وائسرائے ہند نے خود آگے بڑھ کر حضرت صاحبزادہ صاحب سے درخواست کی کہ وہ آگے تشریف فرماہوں، ان کی کرسی بلوچ سرداروں سے آگے رکھی جائے گی۔ وہ کھڑے ہوئے تو ہر ایک نے مسیح کے حسین وجمیل شہزادہ کودیکھا جو ہوبہو مسیح کا روپ لئے ہوئے تھا۔ ایک بلوچ سردار کے احسان شناس دل کی تڑپ باعث تماشہ تو بنی لیکن ساتھ ہی مسیح موعود ؑ کے احسانوں کی توثیق کر گئی۔