حضرت ملک مولا بخش صاحبؓ
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 27؍اکتوبر 2008ء میں حضرت ملک مولا بخش صاحبؓ کے بارہ میں مختصر مضمون شامل اشاعت ہے۔
حضرت ملک مولا بخش صاحبؓ اندازاً 1879ء میں پیدا ہوئے۔ آپ نے حضور علیہ السلام کی پہلی زیارت مباحثہ آتھم کے دوران 1893ء میں امرتسر میں کی۔ 1899ء میں آپ بیمار ہوگئے اور بغرض علاج حضرت مولانا نورالدینؓ کی خدمت میں قادیان پہنچے اور عرض کیا کہ لوگ کہتے ہیں کہ یہ سل کا مرض ہے جو لاعلاج ہے۔ اس پر حضرت مولانا صاحبؓ نے بڑے جوش سے کہا کہ حکیموں کے بادشاہ نے فرمایا ہے لِکُلِّ دَاء دَوَاء ہر بیماری کی دوا ہے۔ حضرت مولوی صاحبؓ کی تجویز فرمودہ دوا کے استعمال سے آپ دو ہفتہ میں شفایاب ہوگئے۔ امرتسر میں حضرت ڈاکٹر عباداللہ صاحبؓ آپ کے محلہ میں رہتے تھے۔ آپ نے اُن سے حضرت مسیح موعودؑ کی کتب لے کر مطالعہ شروع کیا۔ جب ’’شہادۃ القرآن‘‘ پڑھی تو دل سے احمدی ہوگئے اور دسمبر 1900ء کے سالانہ جلسہ پر حضورؑ کے دست مبارک پر بیعت کرلی۔ پھر کئی بار آپؓ کو قادیان جاکر حضورؑ سے روحانی فیوض اٹھانے کا موقع ملا۔ آپؓ بیان فرماتے ہیں کہ 1903ء میں صاحبزادہ عبداللطیف صاحب شہید کے کابل میں سنگسار ہونے کے فوراً بعد ہم قادیان گئے تو مغرب کی مجلس کے بعد اس کا تذکرہ تھا۔
غالباً احمد نور صاحب کابلی آئے تھے اور انہوں نے حالات سنائے تھے۔ حضور کو سخت صدمہ تھا۔ حضور نے ارادہ ظاہر فرمایا کہ ہم اس کے متعلق ایک کتاب لکھیں گے۔ مجھے چونکہ حضور کے فارسی اشعار سے بہت محبت ہے میں نے عرض کیا حضور کچھ فارسی اشعار بھی ہوں۔ حضور نے جھٹ فرمایا: نہیں ہمارا مضمون سادہ ہوگا لیکن جب کتاب “تذکرۃ الشہادتین” شائع ہوئی تو اس میں ایک لمبی پُردرد فارسی نظم تھی۔ مجھے اس وقت خیال آیا کہ کیسے پاک لوگ ہیں اپنے ارادہ سے نہیں بلکہ صحیح ربانی تحریک کے ماتحت کام کرتے ہیں ورنہ ان کو شعرگوئی سے کوئی نسبت نہیں۔
حضرت مسیح موعودؑ نے اپنے آخری سفر دہلی سے واپسی پر 9 نومبر 1905ء کی صبح کو امرتسر میں ایک لیکچر دیا جس میں مخالفین نے ہنگامہ آرائی کی۔ حضرت ملک صاحبؓ بھی وہاں موجود تھے۔
1934ء میں آپؓ سرکاری ملازمت سے ریٹائر ہوئے تو حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کے حکم پر نائب ناظر مال مقرر کئے گئے۔ ازاں بعد حضورؓ نے آپ کو اراضیات سندھ کی نگرانی کے لئے بھجوایا جہاں کچھ عرصہ کام کرنے کے بعد آپ بیمار ہوگئے۔ طبیعت سنبھل جانے پر قادیان آگئے تو حضرت مصلح موعودؓ نے آپ کو ناظم جائیداد کی خدمت سپرد فرمائی جس پر آپؓ آخر عمر تک فائز رہے۔
آپؓ بہت زندہ دل خوش مزاج بزرگ تھے۔ قرآن عظیم کے مطالعہ اور اس پر غوروتدبر کرنے کا بہت شوق تھا۔ جب کسی آیت کی لطیف تفسیر ذہن میں آتی اسے نوٹ کرلیتے۔ ’’الفضل‘‘ اور ’’ریویوآف ریلیجنز‘‘ انگریزی میں آپ کے کئی مضامین چھپے ہوئے ہیں۔ ہومیوپیتھی دوائیں گھر میں رکھتے اور مفت دیا کرتے۔ آپ کے اخلاق میں تحمل، ملنساری، جرأت، اصابت رائے اور موقع شناسی کے اوصاف بہت نمایاں تھے۔ ماتحت عملہ سے عمدہ سلوک تھا۔ بہت اچھے دوست اور دوستوں کے لئے قربانی کا مادہ رکھتے تھے۔ عرصہ تک عدالتوں میں کام کرنے کے باعث مروّجہ قانون سے خوب واقف تھے، ڈرافٹ تیار کرنے اور خلاصہ نکالنے میں ماہر تھے اور اسی لئے حضرت مصلح موعودؓ نے انہیں اپنے سامنے اپیلیں پیش کرنے کا فریضہ بھی سونپ رکھا تھا۔ غیراحمدی اور ہندو وکیل بھی آپ کے مداح تھے۔
آپؓ نے 27؍اکتوبر 1949ء کو سیالکوٹ میں وفات پائی اور قبرستان سائیں مونگاولی میں امانتاً دفن کئے گئے۔