حضرت ’’ممانی جان‘‘ ام داؤد

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 28؍مئی 2007ء میں حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحبؒ کے قلم سے حضرت امّ داؤد صاحبہ کے بارہ میں ایک مضمون شائع ہوا ہے جو ماہنامہ ’’خالد‘‘ ربوہ اکتوبر 1953ء سے منقول ہے۔
حضرت ممانی جان کی وفات سے سلسلہ کو اور خصوصاً لجنہ اماء اللہ کو جو عظیم نقصان پہنچا ہے وہ یقینا ناقابل تلافی ہے۔ آپ کو کئی لحاظ سے انفرادیت حاصل تھی۔ آپ سلیقہ شعاری، وقار اور تحمل میں عدیم المثال تھیں۔ لجنہ کی روح رواں تھیں۔ آپ کا کام ظاہر و باہر اور عیاں اور روشن تھا اگرچہ نام نظر نہ آتا تھا۔ جلسہ سالانہ کے دنوں میں دو بار مجھے آپ کے ساتھ کام کرنے کا حسین اتفاق ہوا ہے اور اس لئے میں شاہد ہوں اور سچ سچ کہتا ہوں کہ انتظامی قابلیت کے لحاظ سے آپ کے پائے کا انسان ملنا مشکل ہے۔ اپنے ماتحت ہمراہیوں سے آپ کی درشتی شاذونادر مگر عین باموقع، البتہ محبت کا سلوک اکثر رہتا تھا۔ آپ دن رات اَن تھک کام کرنے والی تھیں۔ جب رات کو آپ کے ساتھی ایک ایک کرکے رخصت ہوجاتے تو بھی آپ چند خاص کارکنات کے ساتھ رات کی آخری گاڑی اور پھر اس کے آخری مہمان کی راہ دیکھتی ہوئیں راتوں کا اکثر حصہ دفتر میں ہی گزارتی تھیں۔ آپ کی صحت کمزور تھی اور جسم ناتواں مگر ہمت بہت بلند تھی۔
اب ماموں جان (حضرت میر محمد اسحق صاحبؓ) کی یاد کے ساتھ آپ کی یاد بھی بے شمار غمگین دلوں میں آیا کرے گی۔ اب کچھ اَور آنکھیں ایک اَور وجود کو بھی ترسا کریں گی۔ اے ازلی اور ابدی مہمان نواز! اس فردوسی جوڑے کو ہمیشہ ہمیش کے لئے اپنی خاص الخاص مہمانیوں سے نوازتا رہ کہ یہ دونوں ہی تیرے مہمانوں کی میزبانی کیا کرتے تھے۔ یہ دونوں ہی لاوارث یتیموں کے ماں اور باپ بن جاتے تھے۔ ان دونوں نے تیرے فاقہ کش بندوں کو کھانا کھلایا۔
جب میں آپ کی زندگی اور طبیعت کے مختلف پہلوئوں پر طائرانہ نگاہ ڈالتا ہوں تو بے اختیار یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہوں کہ اگر اس اعلیٰ نمونہ کو مشعل راہ بناتے ہوئے ہماری پچاس فیصد عورتوں کی اصلاح ہو جائے تو یقینا خدا کے اس وعدے کے ایفاء کا وقت آجائے جس سے احمدیت کی ترقی کی تقدیر وابستہ ہے۔ کاش ایسا جلد ہو کہ مشعلیں دنیا میں بار بار نہیں آتیں۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں