حضرت منشی امام الدین صاحب پٹواریؓ
حضرت منشی امام الدین صاحب پٹواریؓ 1863ء میں بٹالہ سے چار میل کے فاصلہ پر واقع قلعہ درشن سنگھ میں میاں حکم دین صاحب کے ہاں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم دیالگڑھ ضلع گورداسپور سے حاصل کی اور پرائمری پاس کرکے گورداسپور چلے گئے۔ کچھ مزید تعلیم حاصل کرکے محکمانہ امتحان دیا اور بطور پٹواری ملازم ہوگئے اور 35؍سال ملازمت کرنے کے بعد ریٹائرڈ ہوئے۔ 28؍اکتوبر 1949ء کو وفات پائی۔ آپؓ کا مختصر ذکر خیر مکرم سہیل احمد ثاقب صاحب کے قلم سے روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 12؍مئی 2000ء کی زینت ہے۔
آپؓ نے 1894ء میں بیعت کی سعادت حاصل کی۔ جب آپؓ بیعت کے لئے پہنچے تو حضرت مسیح موعودؑ آپؓ کو اپنے ہمراہ بیت الفکر میں لے گئے اور خود چارپائی کی پائنتی کی طرف بیٹھ گئے اور آپؓ کو سرہانے کی طرف بیٹھنے کا ارشاد فرمایا۔ جب آپؓ جھجکے تو دوبارہ ارشاد فرمایا۔ چنانچہ آپؓ بیٹھ گئے اور اس واقعہ کا آپؓ کی طبیعت پر بے حد اثر ہوا۔
آپؓ کو سلسلہ اور بزرگان سلسلہ کی بہت غیرت تھی۔ ایک بار آپؓ کے ایک افسر نے کچھ نازیبا بات کی تو آپؓ نے نہایت سختی سے اُس کو جواب دیا۔ اس پر اُس نے علی الاعلان ندامت کا اظہار کیا اور آئندہ کبھی نازیبا کلمہ منہ سے نہ نکالا۔
آپؓ کو حقّہ نوشی کی بہت عادت تھی۔ حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ کی خلافت کے ابتدائی دَور میں ایک بار آپؓ قادیان تشریف لائے تو حضورؓ نے حقّہ کی مذمت کی۔ اس پر آپؓ نے عزم کرلیا کہ اب حقّہ نہ پئیں گا۔ شروع میں بیمار ہوئے تو لوگوں نے مشورہ دیا کہ آہستہ آہستہ چھوڑیں لیکن آپؓ نے دوبارہ حقّہ استعمال نہ کیا۔ آپؓ جمعہ کی نماز بلاناغہ قادیان جاکر ادا کرتے۔ جمعہ کی صبح اپنے گاؤں سے پیدل چل کر قادیان جاتے اور واپس بھی پیدل ہی آتے۔ جب قادیان میں مقیم ہوگئے تو ہمیشہ پہلی صف میں نماز ادا کرتے۔ قرآن کریم کی کثرت سے تلاوت کیا کرتے اور چھ سات روز میں دَور مکمل کرلیتے تھے۔
حضرت خلیفۃالمسیح الاولؓ کی وفات کے وقت غیرمبائعین سے دوستانہ تعلقات ہونے کے باوجود آپؓ نے ان کو چھوڑ کر اہل و عیال سمیت حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ کی بیعت کرلی اور خلافت کے ساتھ آپؓ کی وابستگی پھر ہمیشہ بڑھتی ہی رہی۔ اپنی اولاد کو بھی یہی تلقین فرمایا کرتے تھے۔
مولوی محمد حسین بٹالوی والے مقدمہ میں دھاریوال میں ایک موقع پر آپؓ نے حضرت مسیح موعودؑ سے عرض کیا کہ محمد بخش تھانیدار کہتا ہے کہ آگے تو مرزا مقدمات سے بچ کر نکل جاتا رہا ہے، اب میرا ہاتھ دیکھے گا۔ حضرت اقدسؑ نے فرمایا: ’’میاں امام الدین! اُس کا ہاتھ کاٹا جائے گا‘‘۔ اس کے بعد اس تھانیدار کے ہاتھ کی ہتھیلی میں سخت درد شروع ہوا جس سے وہ تڑپتا تھا اور آخر اسی بیماری میں وہ دنیا سے گزر گیا۔ اُس کے ایک پوتے لیفٹیننٹ ڈاکٹر غلام احمد صاحب نے حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ سے ایک بار بیان کیا کہ اُن کے دادا کی وفات ہاتھ کے کاربنکل سے ہوئی تھی۔