حضرت منشی زین العابدین صاحب رضی اللہ عنہ
حضرت منشی زین العابدین صاحبؓ اندازاً1872ء میں پیدا ہوئے۔ آپؓ حضرت مسیح موعودؑ کے خادم خاص حضرت حافظ حامد علی صاحبؓ کے برادراصغر تھے اور حضورؑکے دعویٰ سے قبل ہی حضور علیہ السلام کی ملاقات کا شرف پاتے آرہے تھے۔ حضورؑآپ کے گاؤں میں آپ کے گھر بھی تشریف لے جاچکے تھے۔ جب آپؓ کی عمربارہ تیرہ سال ہوئی تو آپؓ نے حضورؑسے بیعت لینے کی درخواست کی۔ حضورؑنے فرمایا:تم ابھی بچے ہواور تمہارے والدین احمدی ہیں۔ تم احمدی ہی ہو، بڑے ہوگے تو بیعت بھی کرلینا۔ چنانچہ آپؓ نے 1894ء میں بیعت کی۔ آپ کا ذکر روزنامہ’’الفضل‘‘ ربوہ کے شماروں 13و19؍نومبر 1996ء میں’’اصحاب احمدؑ‘‘سے منقول ہے۔
حضرت منشی صاحبؓ کی منگنی ہو چکی تھی جو آپؓ کے احمدیت کی طرف میلان کی وجہ سے ٹوٹ گئی۔ کچھ عرصہ بعد پھوپھی نے اپنی بیٹی کا رشتہ پیش کیا تو آپؓ نے حضرت اقدسؑ کی خدمت میں عرض کیا اور باتوں باتوں میں یہ بھی بتایا کہ لڑکی بچپن میں مٹی کھاتی تھی۔ حضورؑ نے فرمایا جو عورتیں بچپن میں مٹی کھاتی ہیں وہ فطرتاً کمزور ہوتی ہیں اور ان کی اولاد بھی کمزور ہوتی ہے۔ لیکن ایک دوسال خاموش رہنے کے بعد جب باربار آپؓ نے وہیں شادی کی اجازت مانگی تو حضورؑ نے فرمایا: کرلو، لیکن اولاد کمزور ہوگی۔ آپؓ بیان کرتے ہیں کہ میری بیوی کو اٹھرا کی بیماری تھی۔ چار لڑکے فوت ہوچکے تھے علاج سے افاقہ نہیں ہوتا تھا۔ ایک دن ظہر کی نماز کی ادائیگی کے بعد مسجد سے گھر جاتے ہوئے مَیں نے حضورؑ کی خدمت میں سارا حال عرض کرکے کہا کہ غریب آدمی ہوں علاج نہیں کرواسکتا۔ آپ نے فرمایا پھر کیا چاہتے ہو؟عرض کی ’’آپ دعافرمائیں‘‘۔ اس پر حضورؑ اپنے دروازہ پر ہی کھڑے ہوگئے اور ظہرسے عصر کی اذان تک رو رو کردعاکی۔ آنسو داڑھی مبارک سے ٹپکتے رہے۔ مَیں تھک کر دیوار کے ساتھ ٹیک لگا کر کھڑارہااور سوچنے لگا کہ میں نے آپؑ کو اس قدر تکلیف دی۔ اگر اولاد نہ ہوتی تب بھی کوئی حرج نہیں تھا مگر آپؑ کو اتنی تکلیف ہر گز نہیں دینی چاہئے تھی۔ جب آپؑ نے دعا ختم کی تو فرمایا: ’’اٹھرا کی بیماری دور ہوگئی ہے اس حمل میں لڑکا ہوگا،آپ کی بیوی اور بچے کی شکل مجھے دکھائی گئی ہے‘‘۔ چنانچہ دعا کے بعد سے اب تک کوئی بچہ فوت نہیں ہوا، چار لڑکے اور تین لڑکیاں ہیں۔
حضرت منشی صاحبؓ مزید بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ شدید کھانسی کی حالت میں قادیان آیا اور حضورؑ کی خدمت میں عرض کیا کہ چھ ماہ سے کئی علاج کروائے ہیں لیکن فائدہ نہیں ہوا۔ آپ کمرہ میں ٹہل رہے تھے، پوچھا’’امیرانہ علاج کرانا ہے یا غریبانہ‘‘۔ عرض کیا جیسے آپ مناسب سمجھیں۔ فرمایا:’’زمیندار بالعموم غریب ہی ہوتے ہیں، اچھا آپ علاج کے لئے کتنے پیسے لائے ہیں؟‘‘۔ عرض کی: ’’پانچ روپے‘‘۔ فرمایا: ’’لاؤ‘‘۔ مَیں نے دیدئیے۔ فرمایا: ’’جاؤ، اب آپ کو کبھی کھانسی نہ ہوگی‘‘۔ مَیں نے بے تکلّفی سے عرض کیا کہ آپ کے پاس کوئی جادو ہے؟ فرمایا: ’’میں جو کہتا ہوں اب بیماری نہیں ہوگی‘‘۔ پھرحضرت حافظ حامدعلی صاحبؓ سے فرمایا: ’’گاؤں کے لوگوں کو تسلّی نہیں ہوتی جب تک ان کو دوا نہ دی جائے‘‘۔ پھردھیلے کی ملٹھی، دھیلے کی الائچی اور دھیلے کا منقّہ منگوایا اور خود گولیاں بناکر دیں اور پانچ روپے بھی مجھے دیتے ہوئے فرمایا: ’’آپ کی کھانسی تو دُور ہوچکی ہے، ان پانچ روپے کا گھی استعمال کرو، موٹے بھی ہوجاؤگے‘‘۔
حضرت منشی صاحب عبادات کے اتنے پابند تھے کہ جس رمضان میں وفات پائی اس کے شروع میں بھی چند روزے رکھے۔ اکرام ضیف کا بے حد خیال تھا، خصوصاً مرکز سے آنے والے مربیان کیلئے اپنے ہاتھ سے آٹا پیس کرروٹی پکوایا کرتے تھے۔