حضرت منشی سلطان عالم صاحبؓ
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 14؍فروری 2008ء میں حضرت منشی سلطان عالم صاحبؓ کا ذکرخیر مکرم غلام مصباح بلوچ صاحب کے قلم سے شامل اشاعت ہے۔
حضرت منشی سلطان عالم صاحب ولد صاحب داد قوم جٹ تہال تحصیل کھاریاں ضلع گجرات گاؤں گوٹریالہ کے رہنے والے تھے۔ 1833ء میں پیدا ہوئے۔ آپ اپنے گاؤں میں برانچ پوسٹ ماسٹر تھے اور مدرس کے فرائض بھی سرانجام دیتے۔ 1905ء میں احمدیت سے آگاہی ہوئی اور اگلے سال تحقیق کے بعد قبول احمدیت کی سعادت پائی۔
اپنی قبول احمدیت کے بارہ میں آپ فرماتے ہیں کہ جون 1905ء میں ایک شخص مسمّی نیک عالم نے ہمارے ہاں پرائمری سکول کا آغاز کیا۔ میں پوسٹ ماسٹر تھا۔ اُن سے ملا تو اُن کا گرویدہ بن گیا۔ ایک دن اُن کے ایک کلاس فیلو سلطان احمد نے اُنہیں الحکم کے متعدد پرچے بھجوائے۔ انہوں نے یہ پرچے اُلٹ پلٹ کر رکھ دیئے اور مَیں نے اُن کا مطالعہ شروع کردیا۔ یہ مجھے اتنے پسند آئے کہ اجازت لے کر گھر لے آیا اور پھر کئی بار کے بغور مطالعہ سے میں اس نتیجہ پر پہنچا کہ اگر یہ (مسیح موعود) وہی شخص ہے جس کی ایک دنیا کو انتظار تھی تو پھر اس کا انکار سیدھا جہنم میں لے جائے گا۔ اس میں ملفوظات نے مجھے بہت واقفیت کرادی اور جب مباہلہ کے سلسلہ میں مرزا صاحب کی یہ تحریر پڑھی کہ ’’مَیں یہ بھی شرط رکھتا ہوں کہ میری دعا کا اثر اس صورت میں سمجھا جاوے کہ جب وہ تمام لوگ جو مباہلہ کے میدان میں بالمقابل آویں ایک سال تک ان بلاؤں میں سے کسی میں گرفتار ہوجائیں، اگر ایک بھی باقی رہا تو میں اپنے تئیں کاذب سمجھوں گا اگرچہ وہ ہزارہوں یا دو ہزار، اور پھر ان کے ہاتھ پر توبہ کروں گا اور اگر میں مرگیا تو ایک خبیث کے مرنے سے دنیا میں ٹھنڈ اور آرام ہوجائے گا۔‘‘ تو میں دل سے احمدی ہوگیا۔
اگرچہ رسمی طور پر نماز روزہ کا میں شروع ہی سے پابند تھا اور لکھنا پڑھنا بھی کچھ جانتا تھا مگر دینیات کی تعلیم سے بالکل کورا تھا۔ اس لئے بہت سوچ بچار کے بعد مَیں نے حضرت مرزا صاحب کی خدمت میں ایک عریضہ لکھا کہ اخبار الحکم کے مطالعہ سے میری توجہ آپ کے متعلق تحقیقات کرنے کی طرف مبذول ہوئی ہے مگر لاعلمی سدراہ ہے آپ کو چونکہ ایک بڑا دعویٰ ہے۔ اگر فی الواقعہ آپ اپنے دعوے میں سچے ہیں تو میں یقین کرتا ہوں کہ آپ کی دعا خطا نہ جائے گی لہٰذا نہایت ادب سے گذارش ہے کہ میرے حق میں دعا فرماویں کہ اللہ تعالیٰ آپ کا صدق مجھ پر ظاہر فرماوے۔ اس کا جواب حضرت اقدس کی طرف سے حضرت پیر افتخار احمد صاحب لدھیانوی کی قلم سے لکھا ہوا پہنچا کہ آپؑ نے دعا فرمائی تم بھی دعا کرتے رہو۔
ہفتہ عشرہ دعا کرتے ہوا کہ ایک رات رؤیا میں دیکھا کہ ڈاک سے میرے نام ایک کارڈ نکلا ہے جس پر جامن رنگ کی سیاہی سے ایڈریس کی جانب خوشخط حروف میں ذیل فقرہ لکھا ہوا پایا ’’مرزا صاحب آپ کو یاد کرتے ہیں، راز مخفی رکھئے۔‘‘ دوسری طرف بھی پنجابی اشعار میں کچھ لکھا ہوا تھا مگر ابھی پڑھنے نہیں پایا تھا کہ فراط انبساط سے آنکھیں کھل گئیں۔ اس خواب کی تعبیر جو میری سمجھ میں آئی یہ تھی کہ یاد کرنے کا مطلب طلب ملاقات ہے مگر ایسے عظیم الشان شخص کی طلب ملاقات بحیثیت ایک امام کے اُن کا بیعت کے واسطے بلانا ہے۔ راز مخفی رکھیے کا ارشاد الٰہی بھی ساتھ ہی تھا مگر جوش انبساط میں اس کا خیال نہ کیا۔ لیکن جن احباب کو مشورہ میں شریک کیا، انہوں نے مہدی کے متعلق غلط روایات بیان کر کے مجھے تذبذب میں ڈال دیا۔ یہ حالت کئی ماہ تک رہی۔ اس دوران کئی خواب آئے جو اظہار صداقت مرزا جی کے لئے کافی تھے۔ مگر میں اُن سے پورے طور پر مطمئن نہ ہو سکا اور دعاؤں میں لگا رہا۔ اور ایک خط حضرت جی کی خدمت میں لکھا کہ میں نے ایک خواب تو دیکھا تھا مگر تسلی خاطر نہ ہوئی لہٰذا پھر دعا فرماویں کہ اللہ تعالیٰ آپ کا صدق اس طرح مجھ پر ظاہر کرے کہ تمام شک و شبے مٹ جاویں۔اس خط کا جواب بھی بطریق سابق دیا گیا کہ حضرت جی نے دعا فرمائی تم بھی راتوں کو اٹھ کر دعائیں کرو۔
میں حضرت کے ارشاد کے موافق درود استغفار کے ساتھ دعاؤں میں لگ گیا۔ تین ہفتہ بعد عالم خواب میں آسمان سے پے در پے آواز سنی ’’مرزا صاحب سچے ہیں‘‘۔ پھر آسمان اور زمین اور ہر ذرّے سے دلکش انداز سے بار بار یہی ندا آئی۔ آواز کی کثرت اور اس کی بتدریج بلندی سے میں جاگ اٹھا تو تمام شکوک وشبے کافور ہوچکے تھے۔ چنانچہ اسی دن بیعت کے لئے خط لکھ دیا اور مئی 1906ء میں قادیان جاکر دستی بیعت اور زیارت سے مشرف ہوا۔ قادیان میں حضورؑ کو ایک دن سیر سے واپسی پر مجمع کے ہمراہ دیکھا تو اپنی ایک خواب کا نظارہ یاد آگیا کہ ایک جُبّہ پوش بزرگ جن کا چہرہ مبارک چودھویں رات کے چاند کی طرح دمک رہا ہے سر پر عمامہ پہنے اور ہاتھ میں عصا لئے بہت بڑے مجمع سمیت خراماں خراماں ایک طرف سے آرہے ہیں ریش مبارک مہندی سے رنگی ہوئی تھی … اس پر دل حمد سے بھر گیا اور تجدید بیعت کی۔
آپؓ متعدد بار اور جلسہ سالانہ کے مواقع پر قادیان آکر حضور علیہ السلام کے کلمات سے فیض پاتے رہے۔ لیکن بیعت کرنے کے کچھ عرصہ کے بعد مخالفین کے ذلت آمیز سلوک سے گھبرا کر ایک دفعہ حضورؑ کی خدمت میں عرض کیا کہ میں یہاں اکیلا احمدی ہوں لوگ تنگ کرتے ہیں دعا فرماویں۔ حضورؑ نے جواب میں لکھوایا کہ مومن اکیلا نہیں رہتا، گھبرائیں نہیں۔ چنانچہ عرصہ کے بعد میرے ذریعے کئی آدمی داخل سلسلہ ہوئے۔
حضرت منشی صاحبؓ نہایت مخلص، دعا گو اور مستجاب الدعوات بزرگ تھے۔ علم پسند اور نڈر داعی الی اللہ تھے۔ حضرت مولوی غلام رسول صاحب راجیکیؓ بھی کچھ روز آپ کے ہاں قیام کرکے رات کو چھت پر چڑھ کر تبلیغی تقاریر کرتے رہے۔
1918ء میں آپؓ نے وصیت کی۔ 24دسمبر 1959ء کو گوٹریالہ میں بعمر 76 سال وفات پائی اور وہیں امانتاً دفن کئے گئے۔ بعد ازاں 26دسمبر 1962ء کو آپ کی تدفین بہشتی مقبرہ ربوہ میں ہوئی۔ آپ کی وفات پر مکرم مرزا محمود احمد بلانوی صاحب نے لکھا کہ بسلسلہ ملازمت مرحوم کو مختلف مدارس میں کام کرنا پڑا اورتین سال ہمارے گاؤں موضع بلانی میں بطور ہیڈماسٹر مقیم رہے۔ ان کی دیانت، راست گوئی، شرافت اور حلم کے معترف غیرازجماعت لوگ بھی تھے چنانچہ ہمارے گاؤں کا ایک متعصب غیر احمدی کہا کرتا تھا کہ منشی سلطان عالم میں ہر خوبی موجود تھی مگر کاش یہ احمدی نہ ہوتا اور جواب میں مَیں کہا کرتا تھا یہ سب خوبیاں احمدیت نے ہی تو پیدا کی ہیں۔ مرحوم تہجد گزار تھے اور توکل، دیانت، صبر ورضا، راست گوئی کے لحاظ سے ایک معیاری انسان تھے، طبیعت بے حد متین اور سلجھی ہوئی تھی، احمدیت کی تبلیغ کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیتے تھے، گوٹریالہ کی مختصر سی جماعت انہی کی تبلیغ کا نتیجہ تھی۔‘‘
آپؓ کی اہلیہ محترمہ فتح بی بی صاحبہ نے 1907ء میں حضورؑ کی بیعت کی۔ انہوں نے 1949ء میں وفات پائی اور گوٹریالہ ہی میں دفن ہوئیں۔ حضرت منشی صاحب کی اولاد میں پانچ بچے بچپن میں فوت ہوگئے باقی دو بیٹیوں اور ایک بیٹے نے لمبی عمر پائی۔ مکرم رافع احمد تبسم صاحب مربی سلسلہ آپؓ کی نسل سے ہیں۔