حضرت منشی ظفر احمد صاحبؓ کپورتھلوی
حضرت منشی ظفر احمد صاحبؓ 1280ھ میں باغپت ضلع میرٹھ میں پیدا ہوئے۔ آپ کا تاریخی نام انتظار حسین تھا اور آپ کے والد محترم مشتاق احمد عرف محمد ابراہیم بہت عبادت گزار بزرگ تھے جنہوں نے اپنے بیٹے کے قبول احمدیت کے بعد خود بھی حضور علیہ السلام کی بیعت کا شرف حاصل کرلیا (تاہم یہ علم نہیں ہے کہ انہیں حضورؑ کی زیارت کی سعادت بھی نصیب ہوئی یا نہیں)۔
حضرت منشی صاحبؓ نے مکتبی سکولوں میں 17؍ سال کی عمر میں فارسی اور درسی کتب کی تکمیل کرلی اور پھر اپنے چچا حافظ حامداللہ صاحب کے پاس قصبہ سلطان پور ریاست کپورتھلہ چلے آئے جو تحصیلدار تھے۔ آپؓ وہاں اپیل نویس مقرر ہوئے۔ حضرت اقدسؑ سے آپؓ کی پہلی ملاقات 1883ء میں ہوئی اور پھر عقیدت اتنی بڑھی کہ اپنے دو ساتھیوں حضرت منشی اروڑے خانصاحب اور حضرت محمد خانصاحب کے ہمراہ حضورؑ کی خدمت میں بیعت لینے کی درخواست کردی۔ چونکہ ابھی حضورؑ کو بیعت لینے کا اذن نہیں تھا اس لئے حضورؑ نے انکار کردیا اور جب خدا تعالیٰ کی طرف سے اذن ہوا تو حضورؑ نے ان سب کو بذریعہ خط اس کی اطلاع دی اور ان تینوں دوستوں نے 23؍مارچ 1889ء کو لدھیانہ میں حاضر ہوکر بیعت کرلی۔
حضرت منشی ظفر احمد صاحبؓ کے بارہ میں حضور علیہ السلام نے اپنی کتاب ’’ازالہ اوہام‘‘ میں تحریر فرمایا: ’’حبی فی اللہ منشی ظفر احمد صاحب یہ جوان صالح ، کم گو اور خلوص سے بھرا دقیق فہم آدمی ہے۔ استقامت کے آثار و انوار اس میں ظاہر ہیں۔ وفاداری کی علامات اور امارات اس میں پیدا ہیں۔ ثابت شدہ صداقتوں کو خوب سمجھتا ہے اور ان سے لذت اٹھاتا ہے۔ اللہ اور اس کے رسول سے سچی محبت رکھتا ہے اور ادب جس پر تمام مدار حصول فیض کا ہے اور حسن ظن جو اس راہ کا مرکب ہے دونوں سیرتیں ان میں پائی جاتی ہیں۔ جزاہم اللہ خیرالجزاء‘‘ – حضورؑ نے آپؓ کا نام 313؍ اصحاب میں نویں نمبر پر تحریر فرمایا ہے۔ روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 28؍مئی 1999ء میں آپؓ کا ذکر خیر مکرم غلام مصطفی تبسم صاحب کے قلم سے شامل اشاعت ہے۔
ایک دفعہ حضرت منشی صاحبؓ لدھیانہ میں حضور علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئے تو حضورؑ نے فرمایا کہ کیا آپؓ کی جماعت ساٹھ روپے ایک اشتہار کی اشاعت کیلئے برداشت کرلے گی۔ آپؓ نے اثبات میں جواب دیا اور پھر گھر آکر اپنی بیوی کا کچھ زیور فروخت کرکے رقم حضورؑ کی خدمت میں پیش کردی لیکن اس بات کا جماعت میں کوئی ذکر نہ کیا۔ کچھ عرصہ بعد جب دیگر احمدیوں کو اس بات کا علم ہوا تو وہ بہت عرصہ آپؓ سے ناراض رہے کہ آپؓ نے کیوں انہیں اس خدمت کی سعادت میں شامل ہونے سے محروم رکھا۔
جب آپؓ حضور علیہ السلام کی ڈاک کا خلاصہ تیار کرتے اور جوابات لکھا کرتے تھے تو ایک دفعہ ایک ایسا خط موصول ہوا جس پر لکھا تھا کہ اُس خط کو حضورؑ کے سوا کوئی نہ کھولے۔ آپؓ نے وہ خط اسی طرح حضورؑ کی خدمت میں پیش کیا تو حضورؑ نے وہ آپؓ کو واپس دیتے ہوئے فرمایا: ’’منشی صاحب! آپ ہی اس کو پڑھیں، ہم اور آپ کوئی دو ہیں؟!‘‘۔ حضرت اقدسؑ نے آپؓ کو اپنے دست مبارک سے بھی بعض دفعہ خطوط تحریر فرمائے۔
20؍اگست 1941ء کو 79 سال کی عمر میں آپؓ کی وفات ہوئی۔ حضرت مصلح موعود ڈلہوزی میں ہونے کی وجہ سے نماز جنازہ میں شرکت نہ فرماسکے۔ چنانچہ نماز جنازہ حضرت مولوی شیر علی صاحبؓ نے پڑھائی اور قطعہ خاص میں تدفین عمل میں آئی۔
22؍اگست کے خطبہ جمعہ میں حضرت مصلح موعودؓ نے تفصیل سے حضرت منشی صاحبؓ کی سیرۃ بیان کرکے فرمایا کہ ’’ایسے لوگوں کے لئے دعا کرنا اُن پر احسان نہیں بلکہ اپنے اوپراحسان ہوتا ہے کیونکہ خدا تعالیٰ اس کا بدلہ دینے کیلئے اپنے فرشتوں کو حکم دیتا ہے کہ وہ دعا کرنے والے کیلئے دعا کریں‘‘۔ بعد میں حضورؓ نے حضرت منشی صاحبؓ کی نماز جنازہ غائب بھی پڑھائی۔
حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے آپؓ کی وفات پر اپنے نوٹ میں تحریر فرمایا: ’’… شمع مسیح کے زندہ جاوید پروانے منشی صاحب مرحوم ان چند خاص بزرگوں میں سے تھے جن کے ساتھ حضرت مسیح موعودؑ کا خاص بے تکلفانہ تعلق تھا۔ کپورتھلہ کی جماعت میں، ہاں وہی جماعت جس نے حضرت مسیح موعودؑ کے ہاتھوں پر سے مبارک و وحید سند حاصل کی ہے کہ خدا کے فضل سے وہ جنت میں بھی میرے ساتھ ہوں گے۔ جس طرح وہ دنیا میں ساتھ رہے ہیں۔ تین بزرگ خاص طور پر قابل ذکر ہیں یعنی میاں محمد خان صاحب مرحوم، حضرت منشی اروڑا صاحب مرحوم اور حضرت منشی ظفر احمد صاحب مرحوم۔ یہ تینوں بزرگ حقیقتاً شمع مسیحی کے جان نثار پروانے تھے جن کی زندگی کا مقصد اس شمع کے گرد گھوم کر جان دینا تھا۔ انتہا درجہ محبت کرنے والے۔ انتہا درجہ مخلص، انتہا درجہ وفادار، انتہا درجہ جانثار، اپنے محبوب کی محبت میں جینے والے، جن کا مذہب عشق تھا اور پھر عشق اور پھر عشق اور عشق میں انہوں نے اپنی ساری زندگیاں گزار دیں۔ کیا یہ لوگ بھی کبھی مر سکتے ہیں؟‘‘۔