حضرت منشی عبدالکریم بٹالوی صاحبؓ

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 11؍نومبر 2006ء میں حضرت منشی عبدالکریم صاحب بٹالویؓ کے بارہ میں مکرم غلام مصباح بلوچ صاحب کا مضمون شائع ہوا ہے۔
حضرت میاں عبدالکریم صاحبؓ ولد حضرت یوسف علی صاحبؓ موضع عثمان پور ریاست جیند کے رہنے والے تھے لیکن حصول تعلیم کے لئے بٹالہ آگئے اور بعدہ‘ ملازمت کے سلسلہ میں بھی آپ بٹالہ میں رہے، اسی لئے نام کے ساتھ بٹالوی مشہور ہوا۔ اگرچہ آپ کو اُس وقت حضرت مسیح موعودؑ کا علم ہوچکا تھا جب آپ بٹالہ میں مولوی محمد حسین بٹالوی کے ایک شاگرد سے قرآن کریم کا ترجمہ پڑھاکرتے تھے۔ لیکن مولوی صاحب کے زیراثر ہی واپس اپنے وطن چلے گئے۔ پھر ریاست نابھ میں حضرت مولوی عبدالرحیم صاحب کی صحبت میں رہ کر 1897ء میں بذریعہ خط بیعت کی توفیق پائی اور جنوری 1902ء میں مسجد اقصیٰ میں نماز جمعہ کے بعد جب حضورؑ نے آپ سے مخاطب ہو کر فرمایا کہ آپ نے بیعت کرنی ہے تو آپ نے اثبات میں جواب دیا اور دستی بیعت کرلی۔
اس کے بعد ایک دفعہ جب قادیان آئے تو حضورؑ کی خدمت میں دو امور کے لئے خاص دعا کروائی۔ ایک اپنی ملازمت میں ترقی کی اور دوسری بٹالہ میں تبادلہ ہوجانے کی تاکہ آپ قادیان آنے والے مہمانوں کی خدمت کرسکیں۔ پہلی دعا اُسی وقت پوری ہوگئی جب آپؓ واپس اپنی ملازمت پر پہنچے۔ تاہم تبادلہ 1915ء میں ہوا اور پھر سات سال آپ کو قادیان آنے والوں کی خدمت کا موقع ملا۔
کچھ عرصہ بعد آپ اپنے والد کو لے کر حضورؑ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اُن کی دستی بیعت کروائی۔ پھر 1905ء میں جب حضورؑ دہلی سے تشریف لا رہے تھے اور راستہ میں لدھیانہ میں قیام فرمایا تھا تو آپؓ بھی اپنی جائے ملازمت سمرالہ سے لدھیانہ میں حاضر ہوئے اور دعا کے لئے عرض کیا کیونکہ آپؓ کی بیوی کو چار سال سے حمل کے نشانات تھے لیکن پیدا کچھ نہیں ہوتا تھا۔ حضورؑ نے دعا کا وعدہ فرمایا۔ اس دعا کے نتیجہ میں جب لڑکا پیدا ہوا تو آپؓ کی درخواست پر حضورؑ نے اُس کا نام (عبدالعزیز) رکھا۔
سمرالہ میں آپؓ ایک جج نعمت اللہ خانصاحب کو تبلیغ کیا کرتے تھے۔ ایک بار جب آپؓ قادیان جانے لگے تو جج صاحب نے کہا کہ میرے گھر میں لڑکا پیدا ہوا ہے اس کے لئے دعا کرانا کہ اللہ تعالیٰ اس کو نیک اور صالح بنائے اور پانچ روپے (دیئے کہ) نذرانہ بھی حضورؑ کی خدمت میں پیش کرنا۔ جب مَیں نے حضورؑ کی خدمت میں نذرانہ پیش کرکے دعا کی درخواست کی تو حضورؑ نے فرمایا کہ ان کو کہہ دو کہ وہ خود نیک بنیں۔ چنانچہ خدا کے فضل سے وہ احمدی ہوگئے اور اخلاص میں بہت ترقی کی۔
1915ء میں آپ بٹالہ میں رہائش پذیر ہوئے اور قادیان آنے اور یہاں سے جانے والے مہمانوں کی نہایت اخلاص سے بلامعاوضہ خدمت کرتے رہے۔ اپنے مکان کا ایک حصہ مہمان خانہ بناکر وہاں چارپائی، بستر اور پانی وغیرہ کا انتظام کیا اور مہمانوں کے لئے سواری کے انتظام میں بھی مدد کیا کرتے۔ یہ خدمت 1922ء تک جاری رہی۔ پھر آپؓ بیمار ہوئے اور ہجرت کرکے قادیان میں رہائش اختیار کرلی۔ آپؓ کی بڑی اہلیہ 10ستمبر 1924ء کو وفات پاگئیں اور بوجہ موصی ہونے کے بہشتی مقبرہ قادیان میں دفن ہوئیں۔
حضرت منشی صاحبؓ تقسیم ہند کے بعد پاکستان آگئے اور یہاں 30,29دسمبر 1967ء کو وفات پاکر بہشتی مقبرہ ربوہ میں قطعہ خاص صحابہ میں سپردخاک ہوئے۔ نماز جنازہ حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ نے پڑھائی۔ آپؓ کا وصیت نمبر738ہے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں