حضرت منشی عبد اللہ صاحبؓ سنوری

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 8؍جولائی 2004ء میں مکرم چوہدری محمد ابراہیم صاحب نے حضرت منشی عبداللہ سنوری صاحبؓ کا تفصیلی ذکر خیر کیا ہے۔

 

حضرت منشی صاحبؓ نے حضرت مسیح موعودؑ کو ان کے دعویٰ سے بہت پہلے شناخت کر لیا تھا۔ آپؓ کی پیدائش 1861ء میں سنور ریاست پٹیالہ میں ہوئی۔ خاندان گوزمیندار تھا مگر خصوصیت کے ساتھ علم دوست اور ملازمت پیشہ واقع ہوا تھا۔ اس لئے خاندانی روایات کے مطابق آپ کی تعلیم وتربیت ہوئی جس کے بعد آپ بھی ملازم ہوگئے اور 1885ء میں موضع غوث گڑھ کے بعض نیک فطرت بزرگوں کی موجودگی کی وجہ سے وہاں رہائش اختیار کرلی۔
حضرت منشی صاحبؓ کی طبیعت شروع ہی سے دیندار اور خدا پرست واقع ہوئی تھی اور صحبت صالحین کا شوق بے حد تھا۔ آپ کے ماموں مولوی محمد یوسف صاحب کو آپ کے ساتھ اس دیندارانہ زندگی کی وجہ سے خاص محبت تھی چنانچہ اُن کے مشورہ پر آپ نے حضرت مولوی عبداللہ صاحب غزنوی کی بیعت کرلی۔ حضرت مولوی صاحب نے آپ کو دو وظائف بتائے ۔ اوّل یہ کہ

یاحی یا قیوم برحمتک استغیث یا ارحم الرحمین

پڑھتے رہیں اور دوم یہ کہ فجر کی نماز میں سنتوں اور فرائض کے درمیان 41؍بار سورۃالفاتحہ پڑھا کریں۔ اگرچہ حضرت منشی صاحب نے بیعت کرلی تھی لیکن آپ کی طبیعت میں ابھی بےقراری تھی۔ چنانچہ آپ کے ماموں نے آپ کو آرہ (بہار) جو اس وقت اہل حدیث مسلک کا ایک مرکز تھا بھیجنا چاہا اور آپ وہاں جانے کو تیار بھی ہوگئے لیکن اُنہی دنوں حضرت مسیح موعود ؑ کی تصنیف ’’براہین احمدیہ‘‘ پٹیالہ کے وزیر اعظم خلیفہ سید محمد حسین خان صاحب بہادر کے پاس پہنچی اور اُن کی وساطت سے پٹیالہ میں اس کتاب کا عام چرچا ہوا تو یہ خوشخبری آپ کے ماموں تک بھی پہنچ گئی اور پھر انہوں نے اس کتاب کا حوالہ دیکر اور حضرت مسیح موعود ؑ کے دعویٰ ماموریت کا ذکر کرتے ہوئے آپ سے فرمایا کہ یہ شخص بڑا کامل ہے اگر تجھے زیارت کیلئے جانا ہے تو اِس کے پاس جا۔
حضرت منشی صاحب 1882ء میں پہلی بار قادیان تشریف لے گئے۔ آپ بیان کرتے ہیں کہ چہرہ مبارک دیکھتے ہی بیتاب ہوگیا اور دل میں عشق کی آگ بھڑک اٹھی۔ تین دن رہ کر اجازت لے کر واپس آیا۔ لیکن جب پٹیالہ پہنچا تو دل ایسا بے قرار ہوا کہ پھر قادیان چلا گیا۔ حضرت اقدس ؑ نے پوچھا کہ کیوں واپس آگئے۔ عرض کیا کہ حضور سے جدا ہونے کو دل نہیں چاہتا۔ مسکرا کر فرمایا اچھا اَور رہو۔ اس کے بعد ایک ہفتہ رہا۔ اُن ایام میں حضورؑ کے پاس مہمانوں کی آمدورفت کا سلسلہ گویا تھا ہی نہیں۔ حافظ حامد علی صاحب اور بوٹا بیگ مرحوم خدمتگار ہوتے تھے۔ جب میرے پاس کرایہ وغیرہ جمع ہوجاتا فوراً قادیان چلا جاتا اور کئی کئی دن تک خدمت میں حاضر رہتا۔ اکثر رات کو بجز اس عاجز کے اَور کوئی حضورؑ کے پاس نہ ہوتا تھا، مَیں نے آپؑ کو تہجد پڑھتے دیکھا ہے۔ آپؑ خود پانچ وقت مسجد میں آکر اذان دیا کرتے تھے مگر ہلکی سی آواز سے، خود جماعت کرایا کرتے تھے اور جمعہ بھی اسی مسجد میں دو چار آدمیوں کے ساتھ خود پڑھایا کرتے تھے اور نماز باجماعت میں بہت چھوٹی قراء ت پڑھتے تھے اور رکوع وسجود میں کسی قدر کم دیر لگایا کرتے تھے۔
حضرت منشی صاحبؓ کی خواہش تھی کہ آپ دنیا کے کاروبار سے منقطع ہوکر یہاں کے ہورہیں مگر حضورؑ نے مختلف صورتوں میں کاروبار اور ملازمت کو قائم رکھنے کی ہدایت فرمائی۔ تاہم قلیل تنخواہ کے ملازم ہونے کے باوجود آپؓ دو دو تین تین ماہ قادیان آکر ٹھہرتے۔ حضورؑ کے ارشاد پر امرتسر یا لاہور وغیرہ بھی جایا کرتے۔ ایک دفعہ آپؓ نے عرض کیا کہ حضرت مجھے بیعت کر لیں۔ فرمایا: نہیں، اور فرمایا کہ پیر بننا نہایت مشکل کام ہے اور میں اس سے گھبراتا ہوں اور سخت کراہت بھی آتی ہے۔ پیر کو اپنے مریدوں کے اندرونی گند ہاتھ سے دھونے پڑتے ہیں گویا بھنگی کاکام کرنا پڑتا ہے مجھے اس سے سخت کراہت آتی ہے۔ مگر کیا خبر تھی کہ حضورؑ کے یہی کام سپرد ہوگا۔
1884ء میں حضور سنور تشریف لے گئے۔ سٹیشن سے اتر کر وزیر صاحب کے ساتھ سوار ہوئے۔ سڑک کے دورویہ زیارت کرنے والے مردوں اور عورتوں کا ہجوم تھا۔ حضورؑ مدرسہ سنور میں فروکش ہوئے اور ؑ حضرت منشی صاحبؓ کے گھر بھی تشریف لے گئے ۔ دوسری دفعہ حضورؑ 13؍جون 1888ء کو سنور تشریف لے گئے۔
حضرت منشی صاحبؓ سرخی کے چھینٹوں والے واقعہ کے عینی شاہد تھے۔ آپ بیان فرماتے ہیں کہ27؍رمضان المبارک 1302ھ بمطابق 10؍جولائی 1885ء بروز جمعہ قادیان میں حضورؑ حجرہ میں لیٹ گئے تو یہ عاجز پاؤں دبانے لگ گیا۔ اس وقت حضرت اقدس ؑ کے بدن مبارک کو ایک خفیف سا لرزہ ہوا اور حضورؑ نے چہرہ سے بازو اٹھاکر میری طرف دیکھا اور معاً بعد اسی طرح لیٹے رہے۔ اس وقت یہ عاجز ٹخنے کے پاس دبارہا تھا۔ ٹخنہ پر جو میری نگاہ پڑی تو دیکھتا ہوں کہ اس پر ایک سرخی کا قطرہ تازہ بتازہ موجود ہے۔ مَیں نے انگلی اس پر لگائی وہ قطرہ ٹخنہ پر پھیل گیا اور میری انگلی کو بھی سرخی لگ گئی۔ پھر حضورؑ کے کرتہ پر بھی ایک بڑا اور دوتین چھوٹے چھوٹے سرخی کے داغ دکھلائی دئیے۔ بڑے قطرے کو ٹٹولا جو گیلا تھا۔ مجھے نہایت تعجب ہوا اور میں نے خوب تلاش کیا کہ کمرہ میں کسی جگہ کوئی سرخی کا پتہ چلے مگر کچھ پتہ نہ لگا۔ یہ عاجز بیٹھ کر پھر پاؤں دبانے لگ گیا۔ تھوڑی دیر کے بعد حضرت اقدس ؑ اٹھے اور مسجد مبارک میں آکر بیٹھ گئے یہ عاجز بیٹھ کر دبانے لگ گیا اور عرض کیا: حضور میں ایک بات پوچھنا چاہتا ہوں۔ فرمایا: پوچھو۔ عرض کیا کہ حضورؑ پر کس سے سرخی گری ہے؟ حضور اقدس ؑ نے آپ کو کشف کی پوری تفصیل سنائی اور دست مبارک سے قلم کے جھاڑنے اور دستخط کرنے کا نقشہ بھی کھینچا۔ حضرت منشی صاحب نے وہ اعجازی کرتہ تبرکاً عنایت کرنے کی درخواست کی۔ حضرت اقدس ؑ نے اس وصیت کے ساتھ وہ کرتہ دیدیا کہ وفات کے وقت آپؓ کے ساتھ دفن کر دیا جائے۔ چنانچہ وہ کرتہ آپؓ کے ساتھ دفن کر دیا گیا۔
ایک دفعہ آپؓ نے عرض کیا کہ حضور بیعت تو کرتے نہیں اور میں چاہتا ہوں کہ حضور سے میرا تعلق خاص ہوجاوے تو حضور مجھ کو اپنا شاگرد ہی بنالیں اور قرآن شریف پڑھایا کریں۔ چنانچہ آپؓ کو حضورؑ کا شاگرد بننے کی سعادت حاصل ہوئی۔ حضورؑ نے یہ بھی فرمایا کہ ایک آنے کے بتاشے لے آؤ تاکہ باقاعدہ شاگرد بنایا جاوے۔ بتاشے تقسیم کرکے قرآن شریف شروع کرایا صرف ایک دوآیت پڑھاکر لفظی ترجمہ پڑھا دیا کرتے تھے۔ بعض آیات کے کچھ معارف بھی سمجھا دیا کرتے تھے۔ اس طرح پارہ اوّل کا بہت ساحصہ حضور سے شاگرد بن کر آپؓ نے پڑھا۔ اس زمانہ میں مہانوں کی آمد ورفت خاصی شروع ہو گئی تھی اور خطوط بھی بہت آنے لگے تھے حضور نے آپؓ کو خطوط کے جواب لکھنے کی خدمت سپرد کی ہوئی تھی۔
حضرت منشی صاحبؓ کو حضرت اقدس ؑ کے تقریباً تمام سفروں میں رفاقت کا شرف حاصل رہا۔ جب حضورؑ کسی سفر پر جانے کا ارادہ فرماتے تو آپؓ کو خط لکھ کر بلوا لیتے۔ آپؓ کو پٹیالہ، انبالہ، امرتسر، لدھیانہ، ہوشیارپور، علی گڑھ وغیرہ سفروں میں حضورؑ کی رفاقت نصیب ہوئی۔
23؍مارچ 1889ء کو لدھیانہ میں پہلی بیعت ہوئی تو آپ کا نمبر تیسرا تھا۔ آپؓ کے بارہ میں حضور اقدس ؑ نے ’’ازالہ اوہام‘‘ میں تحریر فرمایا: ’’حبی فی اللہ میاں عبداللہ سنوری: یہ جواں صالح اپنی فطرتی مناسبت کی وجہ سے میری طرف کھینچا گیا۔ میں یقین رکھتا ہوں کہ وہ ان وفادار دوستوں میں سے ہے جن پرکوئی ابتلاء جنبش نہیں لاسکتا۔ … یہ نوجوان درحقیقت اللہ اور رسول کی محبت میں ایک خاص جوش رکھتا ہے اور میرے ساتھ اس کے اس قدر تعلق محبت کے بجز اس بات کے اور کوئی وجہ نہیں جو اس کے دل میں یقین ہو گیا ہے کہ یہ شخص محبان خدا اور رسول میں سے ہے … حسب مقدرت اپنی مالی خدمت میں بھی حاضر ہے اور اب بھی بارہ روپیہ سالانہ چندہ کے طور پر مقرر کر دیا ہے۔ بہت بڑا موجب میاں عبد اللہ کے زیادت خلوص ومحبت واعتقاد کا یہ ہے وہ اپنا خرچ بھی کرکے ایک عرصہ تک میری صحبت میں آکر رہتا رہا اور کچھ آیات ربانی دیکھتا رہا سو اس تقریب سے روحانی امور میں ترقی پاگیا۔ کیا اچھا ہوکہ میرے دوسرے مخلص بھی اس عادت کی پیروی کریں۔‘‘
حضرت منشی صاحبؓ اپنی ملازمت کے دوران 1885ء تا 1925ء موضع غوث گڑھ ریاست پٹیالہ میں مقیم رہے اور ایک مخلص جماعت وہاں قائم فرمائی۔ آپؓ کی نیک نامی اور تقویٰ کی وجہ سے آپؓ کا سارے علاقہ پر رعب تھا۔ مضمون نگار کے والد محترم چوہدری عطا محمد صاحب نے بیان کیا کہ ایک بار کسی گاؤں کے دو تین آدمی اپنی زمین کی پیمائش کے لئے آپؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپؓ نے تین چار روز کے بعد آنے کاوعدہ فرمایا۔ پھر ان آدمیوں نے کچھ رقم دیتے ہوئے عرض کہ کہ یہ قبول فرمائیں۔ اس پر آپؓ کا چہرہ سرخ ہوگیا اور آپؓ نے بانسی (جس پر رکھ کر رقم پیش کی گئی تھی) کو زمین پر دے مارا۔ چاندی کے روپے اِدھر اُدھر پھیل گئے۔ پھر فرمایا کہ ان تمام روپوں کو اکٹھا کرواور کوئی ایک روپیہ میرے صحن میں نہیں رہنا چاہئے۔ وہ لوگ شرمندہ ہوکر چلے گئے اور پھر وعدہ کے مطابق تیسرے دن آپؓ اُن کے ہاں تشریف لے گئے اور ان کی زمین کی صحیح پیمائش کر آئے اور اپنا کھانا بھی گھر سے ساتھ لے کر گئے۔
اسی طرح غوث گڑھ کے قریب ہر سال میلہ لگتا تھا جس میں فسق وفجور کی محفلیں ہوتی تھیں۔ حضرت منشی صاحبؓ نہیں چاہتے تھے کہ احمدی نوجوان میلہ میں جائیں۔ آپؓ کا قدرتی رعب اتنا تھا کہ اگر براہ راست بھی منع کر دیتے تو کوئی جانے کی جرأت نہ کرتا مگر آپؓ نے کمال فراست سے نوجوانوں کو عین میلہ کے روز اپنے کماد کی گوڈی کے لئے بلالیا۔ پھر صبح ان کو خود ناشتہ کرواتے ہوئے ناصحانہ انداز میں سمجھایا کہ میلہ پر جانے کے گناہ سے محفوظ رکھنے کے لئے آپؓ نے وہ دن گوڈی کے لئے منتخب کیا تھا۔
حضرت منشی صاحبؓ کا گاؤں کے لوگوں پر بہت نیک اثر تھا۔ لوگ ہر معاملہ میں آپؓ سے رجوع کرتے اور اطاعت کرتے اور آپؓ کی زندگی میں پولیس کو کبھی آپؓ کے گاؤں میں مداخلت نہیں کرنا پڑی۔
آپ کی دوبیویاں تھیں۔ ایک بیوی سے دو بچے مکرم صوفی عبدالقدیر نیاز صاحب اور بی بی مریم (بیگم مولانا عبدالرحیم دردؓ) تھے۔ مکرم صوفی صاحب نے جماعت کی علمی اور تنظیمی لحاظ سے قابل قدر خدمات سر انجام دیں اور حضرت مصلح موعودؓ کا معتمد ہونے کا شرف پایا۔ دوسری بیوی سے تین بیٹے اور ایک بیٹی ہوئی۔
7؍اکتوبر 1927ء بروز جمعہ حضرت منشی صاحبؓ کی وفات ہوئی۔ حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحب ؓ فرماتے ہیں کہ منشی صاحب موصوف بہت کم گو، خلوت پسند اور ہمیشہ خوش رہنے والے بزرگ تھے۔ ہمیشہ متبسم چہرہ کے ساتھ ملا کرتے۔ آپ کسی کی غیبت نہ سنتے اور نہ کرتے۔ معاملات میں حددرجہ کی صفائی اور دیانت وامانت کا بہترین نمونہ تھے۔ صوم وصلوٰۃ کے پابند اور تہجد کے عادی تھے۔ دوسروں کی ہمدردی کیلئے خاص جوش تھا۔ خصوصیت سے وہ قرابت داروں کے حقوق کی نگہداشت کو ہمیشہ پیش نظر رکھتے تھے۔ ان کی ہمدردی اور غمگساری کے بہت سے واقعات ملتے ہیں یہاں تک کہ جانوروں پر بھی شفقت کرتے تھے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں