حضرت منشی محمد اروڑے خانصاحبؓ
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 13 و 14؍نومبر 2003ء میں مکرم حبیب الرحمٰن زیروی صاحب کے قلم سے حضرت منشی محمد اروڑے خان صاحبؓ آف کپور تھلہ کے بعض واقعات شامل اشاعت ہیں۔
حضرت منشی صاحب ایک معمولی نوکری سے تحصیلداری تک پہنچے اور ریاست کی طرف سے خانصاحب کا خطاب حاصل کیا۔ پھر جبراً پنشن لے لی ورنہ اَور بھی ترقی کرتے۔ آپؓ اپنی ضروریات کے موافق تنخواہ میں سے رکھ کر باقی سب کچھ خدا کی راہ میں پیش کردیتے تھے۔
آپؓ بیان فرماتے ہیں کہ حضرت مسیح موعودؑ نے ہماری درخواست پر کپورتھلہ آنے کا وعدہ فرمالیا اور تاریخ بتادی لیکن ریلوے کی کسی خرابی کی وجہ سے اُس وقت نہ تشریف لاسکے۔ ہم مایوس ہوکر واپس چلے آئے۔ دوسرے وقت کسی نے بتایا کہ حضورؑ کپورتھلہ کی ایک مسجد میں پہنچ چکے ہیں۔ ہم وہاں گئے تو حضورؑ بڑی محبت و شفقت سے ملے اور سفر کے بارہ میں ہمارے عرض کرنے پر فرمایا کہ کوئی تکلیف نہیں ہوئی۔
ایک بار حضورؑ نے آپؓ کو فرمایا: منشی جی! لوگ دعا کے لئے لکھتے ہیں، آپ کیوں نہیں لکھتے؟۔ آپؓ نے عرض کیا کہ حضور کا وقت بہت قیمتی ہے، جتنا وقت میرا خط پڑھنے میں لگائیں گے ، اتنے میں دین کا کوئی کام کرلیں گے، باقی اگر حضورؑ کے دل میں ہم نے جگہ پیدا کرلی ہے تو ہمارے عرض کرنے کے بغیر بھی حضورؑ ہم کو نہ بھولیں گے۔
ایک بار حضورؑ نے گورداسپور جانا تھا۔ دیگر صحابہؓ کو حضورؑ نے پہلے روانہ کردیا اور حضرت منشی صاحبؓ کو اپنے ساتھ رکھا کہ یکہ میں چلیں گے۔ آپؓ نے کچھ دیر بعد عرض کی کہ مَیں نے بٹالہ میں اپنی لڑکی کو بھی ملنا ہے اور وقت تنگ ہورہا ہے۔ حضورؑ نے فرمایا کہ آپ یکہ میں چلے جائیں اور لڑکی کو مل کر پھر راستہ میں مجھ سے مل لیں۔ آپؓ نے عذر کیا کہ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ حضور پیدل آئیں اور مَیں سوار ہوکر جاؤں۔ جب آپؓ کا اصرار بہت بڑھا تو حضورؑ نے فرمایا: اَلْاَمْرُ فَوْقَ الْاَدَب۔ چنانچہ آپؓ روانہ ہوگئے اور بٹالہ میں لڑکی سے مل کر پھر واپس قادیان سے آنے والے راستہ پر آئے تو دُور سے حضورؑ تن تنہا پیدل آتے نظر آئے۔ پھر حضورؑ کے ساتھ ہی یکہ پر بیٹھ کر بٹالہ پہنچے۔ آپؓ بیان فرماتے تھے کہ ایک خادم کے ساتھ حسن سلوک کا یہ واقعہ حضورؑ کا عظیم الشان اخلاقی معجزہ ہے۔
حضرت منشی صاحبؓ اپنی ذات پر بہت تنگی سے خرچ کرتے تھے اور ساری بچت حضورؑ کی خدمت میں پیش کردیتے۔ دوپہر کو گھر سے دو روٹیاں آجاتیں جو نمکین لسّی کے ساتھ کھالیتے۔ ایک بار نیلامی میں سے پرانا کوٹ خرید لیا۔ حضرت منشی محمد خان صاحبؓ ناراض ہوئے تو فرمایا کہ مجھے زندگی گزارنی ہے، اس کوٹ سے جاڑا گزر گیا تو کسی غریب کو دیدوں گا، مجھے تکلفات کے کوٹ بنانے کی کیا ضرورت ہے۔
ایک بار آپؓ کو ایک سو روپیہ انعام میں ملا تو اپنے ایک بھائی کو بلایا جو درزی تھا اور فرمایا کہ ایک روپے میں دو کُرتے بنادو۔ اُس نے کہا یہ بڑا مشکل ہے۔ آپؓ نے فرمایا کہ اس سے زیادہ مَیں خرچ نہیں کرسکتا۔ باقی ننانوے روپے آپؓ نے حضورؑ کی خدمت میں قادیان بھیج دیئے۔
حضورؑ کی محبت میں سب کچھ قربان کر رکھا تھا۔ ایک بار بیوی اتنی بیمار تھی کہ گویا قریب المرگ تھی۔ ایسے میں حضورؑ کا حکم ملا کہ قادیان آجائیں۔ آپؓ کچہری سے ہی قادیان روانہ ہوگئے۔ آپؓ کے بھائی نے بیوی کی حالت کا عرض کیا تو فرمایا کہ مَیں تو رُک نہیں سکتا۔ اگر خدانخواستہ انتقال ہوگیا تو دفن کردینا۔ چنانچہ قادیان چلے آئے۔ چند روز کے بعد واپس گئے تو بیوی تندرست ہوچکی تھی اور گھر کا کام کررہی تھی۔
حضورؑ کو بھی آپؓ سے غیرمعمولی محبت تھی۔ ایک بار آپؓ قادیان آئے تو دوسرے احباب کے ساتھ مسجد اقصیٰ میں بیٹھ گئے۔کچھ دیر بعد حضورؑ تشریف لائے، آپؓ پر نظر پڑی تو فرمایا: ’’منشی صاحب! آپ آگئے، آؤ مصافحہ تو کرلیں‘‘۔ چنانچہ حضورؑ نے صرف آپؓ ہی سے مصافحہ فرمایا۔
ایک بار آپؓ اور دو دیگر دوست قادیان حاضر ہوئے۔ واپسی کے وقت حضورؑ نے فرمایا کہ کھانا کھاکر جانا۔ کچھ دیر بعد لنگر سے کھانا آیا تو یہ تینوں کھانا کھاکر روانہ ہوگئے۔ جب بٹالہ پہنچ کر ریل میں بیٹھ گئے تو دیکھا کہ یکہ والا ایک آدمی بھاگ کر آپ کو تلاش کر رہا تھا۔ اُس نے کہا کہ تم کو حضورؑ نے کہا تھا کہ کھانا کھاکر جانا، اب یہ کھانا حضورؑ نے بھجوایا ہے۔ چنانچہ کھانا اُس نے انہیں دیا جس میں پلاؤ وغیرہ بھی شامل تھا۔
آپؓ بیان فرماتے ہیں کہ جب بھی مَیں کوئی سوال حضورؑ سے پوچھنا چاہتا تو حضورؑ سوال سے پہلے ہی اس کا جواب دیدیتے۔ ایک بار مَیں نے دلیری سے عرض کیا کہ یہ کیا بات ہے۔ حضورؑ نے فرمایا کہ یہ کوئی بات نہیں، اللہ تعالیٰ آپ کے دل میں ڈالتا ہے کہ یہ سوال کرو اور میرے دل میں ڈالتا ہے کہ یہ جواب دیدو، یہ کوئی ایسی بات نہیں۔
ایک بار آپؓ نے پوچھا کہ معجزہ کسے کہتے ہیں؟ حضورؑ نے فرمایا کہ مثلاً شدید گرمی میں مرید اپنے پیر سے خواہش کریں کہ دعا کرو کہ ٹھنڈی ہوا چل جائے۔ جب ہوا چل جائے تو اس سے مریدوں کا ایمان تو بڑھے گا لیکن مخالف کہیں گے کہ ہوا کا تو کام ہی چلنا ہے۔ معجزہ کی مثال ایسی ہی ہے۔
آپؓ کو حضرت مسیح موعودؑ سے اتنی محبت تھی کہ حضورؑ کی وفات کے بعد قادیان آکر ایک کوٹھڑی میں رہائش اختیار کرلی، سارا دن قرآن پڑھنے میں گزر جاتا۔ اپنے ہاتھ سے کھانا پکاتے۔ جب بیمار ہوتے تو دوا سے پرہیز کرتے اور کہتے کہ مجھے وہاں جانے دو جہاں میرا محبوب ہے۔ عشق کی عجیب کیفیت تھی۔
آپؓ کی سادگی اور احمدیت سے محبت کا ذکر کرتے ہوئے حضرت محمد علی صاحب اشرفؓ فرماتے ہیں کہ ایک بار مجھے معلوم ہوا کہ تحصیل بھونگہ کے تحصیلدار احمدی ہیں تو مَیں اپنے احمدی بھائی کی زیارت کو وہاں پہنچا تو ایک پستہ قد، نیلا تہبند باندھے سر پیر سے ننگے شخص کو بکریاں چرانے میں مصروف پایا۔ مَیں نے اُن سے پوچھا: تحصیلدار صاحب یہاں ہیں؟ پوچھا: کیا کام ہے؟ مَیں نے کہا محض ملنا ہے۔ انہوں نے مجھے کرسی پر بٹھایا اور خود ایک بنچ پر بیٹھ گئے اور مکرر پوچھا کہ کیا کام ہے۔ مَیں پوچھا: کیا آپ یہاں کے چپڑاسی ہیں؟ وہ سنجیدگی سے فرمانے لگے: آپ کو اس سے کیا، آپ کام بتائیں۔ مَیں نے (احمدیت کی مخالفت کی وجہ سے) ڈرتے ڈرتے کہا کہ کام کچھ نہیں، میرا اُن کا روحانی تعلق ہے۔ یہ سنتے ہی آپؓ باغ باغ ہوگئے۔ مجھے اپنے مکان میں لے جاکر عزت سے کرسی پر بٹھایا، حقہ تازہ کرکے دیا، ایک بکری دوہ کر چائے تیار کی اور ایک مٹکے سے مٹھائی نکال کر طشتری بھر دی۔ مَیں نے خیال کیا کہ یہ تحصیلدار صاحب کے خانساماں معلوم ہوتے ہیں اور بوجہ احمدی افسر کے ملازم ہونے کے کیسے مؤدب اور تربیت یافتہ ہیں۔
اسی دوران کچہری کا وقت ہوگیا تو آپؓ نے وہیں صحن میں عدالت قائم کرکے ناظر کو بلاکر مقدمات سننے شروع کردیئے۔ مَیں نے ایک سائل سے پوچھا کہ تحصیلدار صاحب کب آئیں گے؟ تو وہ کہنے لگا: یہی تو ہیں۔ پھر بارہ بجے کے قریب کچہری برخواست ہوئی اور پھر مہمان نوازی میں منہمک ہوگئے۔ چاہتے تو کئی ملازم رکھ سکتے تھے لیکن تصنع سے کوسوں دُور تھے۔ مَیں شرم سے پانی پانی ہوا جاتا تھا۔ آپؓ نے اپنے عہدہ یا بڑائی کی کوئی بات نہ کی۔ صرف حضرت مسیح موعودؑ کی بات کرتے تو فرماتے کہ میرا معشوق ایسا ہے، میرا محبوب ایسا ہے۔ ایسی ہی باتوں میں شام ہوگئی تو جبراً مجھے اپنے پاس ٹھہرالیا۔ جب مَیں بستر پر لیٹا تو آپؓ میری پائنتی بیٹھ کر پاؤں دابنے لگے۔ مَیں بار بار اصرار کرتا کہ یہ تو مجھے کرنا چاہئے لیکن میری ایک نہ سنی۔ پھر صبح اٹھ کر وہی خاطر مدارت شروع ہوگئی۔ بمشکل تمام مَیں نے رخصت لی تو میرے ہمرکاب دُور تک آئے اور دوبارہ ملنے کا وعدہ لے کر الوداعی مصافحہ کرکے مجھے رخصت کیا۔ مگر پھر بھی مُڑ مُڑ کر محبت بھری نگاہوں سے دیکھتے اور ایسا معلوم ہوتا کہ بھائی کی جدائی کا صدمہ برداشت نہیں کرسکتے۔