حضرت منشی گلاب دین صاحب رہتاسیؓ
حضرت منشی گلاب دین صاحب کا تعلق رہتاس ضلع جہلم سے تھا۔ حضرت مسیح موعودؑ نے اپنی کتاب ’’انجام آتھم‘‘ میں آپؓ کا نام 313 اصحاب میں 34ویں نمبر پر تحریر فرمایا ہے۔ حضرت منشی صاحبؓ کے بارہ میں ایک مضمون ماہنامہ ’’انصاراللہ‘‘ جنوری 2002ء میں مکرم ملک مقصود احمد صاحب رہتاسی کے قلم سے شامل اشاعت ہے۔
حضرت منشی صاحبؓ کا سلسلہ نسب حضرت علیؓ کے بیٹے محمد بن علی سے ملتا ہے جو امام محمد بن حنفیہ کے نام سے مشہور ہیں۔ مغل بادشاہ ہمایوں جب دوبارہ ہندوستان میں برسراقتدار آیا تو آپؓ کا خاندان وادی سون سکیسر سے اُس کی سپاہ کے ساتھ رہتاس آیا۔ یہاں اس خاندان کو قلعہ میں رہائش کیلئے جگہ دی گئی اور زمینیں بھی عنایت کی گئیں۔ کچھ زمین سکھوں کے دَور میں چھین لی گئی باقی آباؤ اجداد کے دوسرے افراد کے قبضہ میں آگئیں اور آپؓ کو قبول احمدیت کے جرم میں زمینوں سے محروم کردیا گیا۔
آپؓ 1848ء میں شیعہ گھرانہ میں چودھری شرف دین صاحب کے ہاں پیدا ہوئے۔ اپنے قبیلہ میں مڈل اور نارمل کے امتحانات پاس کرنے والے پہلے فرد تھے۔ پھر محکمہ تعلیم میں ملازمت اختیار کی، دینی تعلیم بھی حاصل کی، شاعری کا شوق بھی تھا۔ ایک شعری مجموعہ ’’کلیات گلاب‘‘ کے نام سے ترتیب دیا۔ مطالعہ بہت وسیع تھا۔ مجالس محرم میں سوزخوانی اور مرثیہ گوئی کرتے تھے۔ ہر مذہب کے جلسوں میں شریک ہوتے اور احباب علم و فضل کی صحبت پسند کرتے۔ اسی لئے حضرت حکیم مولانا نورالدین صاحبؓ کے پاس جموں میں حاضر ہوئے۔
جب حضرت منشی صاحبؓ 44 سال کے ہوئے تو آپؓ کی ہمشیرہ نے ایک خواب دیکھی اور صبح آپؓ کو سناکر کہا کہ مہدی آگیا ہے، اس کو ڈھونڈو۔ کچھ دن کے بعد آپ کے ایک نہایت متقی شاگرد سید غلام حسین شاہ صاحب نے ، جو جہلم کچہری محکمہ مال میں ملازم تھے، آپ کو حضرت مسیح موعودؑ کا ایک اشتہار اور دو کتب بھیجیں جن میں سے ایک براہین احمدیہ تھی۔ مطالعہ کے بعد آپ نے اپنی ہمشیرہ کو مبارکباد دی کہ اُس کی خواب پوری ہوگئی ہے۔ جب حضرت مولوی برہان الدین جہلمیؓ قادیان اور ہوشیارپور جاکر حضور علیہ السلام کی زیارت کرکے واپس جہلم لَوٹے تو منشی صاحب آپؓ کے پاس گئے اور اپنی ہمشیرہ کی خواب اور کتب کے مطالعہ کا ذکر کیا۔ آپؓ نے فرمایا کہ جس کی ہمیں انتظار تھی وہ قادیان میں پیدا ہوگیا ہے۔ جب منشی صاحب نے کچھ اعتراض کیا تو آپؓ نے غصہ سے فرمایا کہ پہلے اُسے جاکر دیکھ آؤ پھر میرے ساتھ بات کرنا۔ اس پر منشی صاحب اپنے ایک عزیز کے ہمراہ قادیان روانہ ہوئے۔ بٹالہ میں مولوی محمد حسین بٹالوی نے بہکانے کی بہت کوشش کی، قریب تھا کہ یہ دونوں واپس آجاتے لیکن پھر یہ سوچ کر کہ واپس جاکر کیا بتائیں گے، دونوں قادیان چلے گئے۔ صبح کے وقت قادیان پہنچے۔ حضرت مسیح موعودؑ سیر سے واپس آرہے تھے، حضورؑ سے ملاقات کرکے یہ دونوں واپس آگئے۔ جب حضورؑ نے دعویٰ فرمایا تو ان دونوں نے بھی بیعت کا خط لکھ دیا۔ حضرت منشی صاحبؓ کی بیعت حضورؑ نے 8؍ستمبر 1892ء کو منظور فرمالی، آپؓ کا بیعت نمبر 352 ہے۔ بیعت کرتے وقت آپؓ نے چار آنے ارسال کئے اور بعد میں دو آنے ماہوار چندہ ادا کرتے رہے۔ پھر نظام وصیت میں بھی شامل ہوگئے اور اپنی زندگی میں ہی اپنے بچوں کو بھی نظام وصیت سے وابستہ کردیا۔ آپؓ کے بیٹے حضرت حسن رہتاسی صاحبؓ ، حضرت استانی کرم بی بی صاحبہؓ اور حضرت استانی رحیم بی بی صاحبہؓ کو بھی حضور علیہ السلام کے اصحاب میں شمولیت کا شرف حاصل ہے۔
حضرت منشی صاحبؓ نے بیعت کے بعد کثرت سے تبلیغ شروع کی۔ شیعہ حضرات کے اصرار پر ایک آدھ دفعہ اُن کی مجلس میں مرثیے پڑھے لیکن پھر محرم آنے پر قادیان کا سفر اختیار فرما لیتے۔ آپؓ تعلیم نسواں کے دلدادہ تھے۔ اپنی بیٹیوں کو دوسروں کی مخالفت کے باوجود تعلیم دلائی۔ جب ضلع جہلم کا پہلا زنانہ مدرسہ قائم ہوا تو آپؓ کی خدمات اُس میں منتقل کردی گئیں۔ بعد میں پھر مردانہ مدارس میں متعین ہوئے اور انسپکٹر آف سکولز کے عہدہ پر فائز ہوئے۔ آپؓ کا زمانہ ملازمت قریباً پچاس برس ہے۔آپؓ رہتاس میں بانی تعلیم نسواں مانے جاتے تھے اور آپؓ کی خدمات پر حکومت نے 1919ء میں چھ سو روپے انعام بھی دیا۔
حضرت منشی صاحبؓ نے ’’نزول مسیح‘‘ پر ایک نظم کہی جو حضرت مسیح موعودؑ نے اپنی کتاب ’’سراج منیر‘‘ میں شائع فرمائی۔ آپؓ کا کلام اور مضامین جماعتی رسائل میں بکثرت شائع ہوئے۔ آپؓ کا نمونہ کلام ملاحظہ فرمائیں:
بشر دنیا میں آتے ہیں، عجب منظر دکھاتا ہے
جب آتا ہے ہنساتا ہے تو جاتا ہے رلاتا ہے
تعجب ہے نہ آنے پر مگر جانے پر کیوں اتنا
وداع کا نام سنتے ہی کلیجہ منہ کو آتا ہے
سرائے منزل فانی کا منظر دیکھتے جاؤ
کوئی بستر بچھاتا ہے کوئی بستر اٹھاتا ہے
…………
تم بھی خدا سے اُس کے مقابل کرو دعا
اُس کا خدا ہے کیا تمہارا خدا نہیں
صادق جو ہوگا ہوگی اُس کی دعا قبول
کاذب کی حق قبول تو کرتا دعا نہیں
جو صدق و کذب کا ہے دعا پر مدار سب
صادق ہو تم تو کس لئے کرتے دعا نہیں
حضرت منشی صاحبؓ لمبا عرصہ بعارضہ چنبل بیمار رہے۔ 23؍نومبر 1920ء کو جہلم کے ہسپتال میں انتقال فرماگئے۔