حضرت منشی گوہر علی صاحبؓ
ماہنامہ ’’خالد‘‘ جنوری2005ء میں مکرم غلام مصباح بلوچ صاحب کے قلم سے حضرت منشی گوہر علی صاحبؓ کا ذکر خیر شامل اشاعت ہے۔
حضرت منشی گوہر علی صاحبؓ کے والد محترم جہانگیر خانصاحب قوم افغان جالندھر شہر کے رہنے والے تھے لیکن آپؓ بطور سب پوسٹ ماسٹر کپورتھلہ میں ملازم تھے جہاں حضرت چودھری رستم علی خان صاحبؓ (وفات 11؍ جنوری 1909ء)کے ذریعہ آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا تعارف بعثت سے بھی قبل ہوا۔ 18؍ جنوری 1890ء کو آپؓ نے بیعت کی توفیق پائی۔ رجسٹر بیعت اولیٰ میں 161ویں نمبر پر آپؓ کی بیعت کا اندراج ہے۔ بیعت کے بعد آپ نے صدق اور اخلاص میں بہت ترقی کی۔ بیعت کے بعد حضور علیہ السلام دوسری مرتبہ کپورتھلہ تشریف لے گئے تو حضرت منشی صاحبؓ کے ہاں تین دن قیام فرمایا۔
حضرت مسیح موعودؑ نے کتاب ’’ازالۂ اوہام‘‘ میں اپنے مخلص مبایعین کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھا کہ: ’’یہ سب صاحب علیٰ حسب مراتب اس عاجز کے مخلص دوست ہیں بعض ان میں سے اعلیٰ درجہ کا اخلاص رکھتے ہیں اسی اخلاص کے موافق جو اس عاجز کے مخلص دوستوں میں پایا جاتا ہے۔ اگر مجھے طول کا اندیشہ نہ ہوتا تو میں جداگانہ ان کے مخلصانہ حالات لکھتا…‘‘۔ حضورؑ نے ان مخلص دوستوں کے اسماء میں آپؓ کا نام بھی شمار کیا ہے : حبی فی اللہ میاں علی گوہر صاحب ۔
اسی طرح جلسہ سالانہ 1892ء میں شاملین جلسہ کے اسماء میں ’’آئینہ کمالات اسلام‘‘ میں آپؓ کا نام 315ویں نمبر پر درج ہے۔ پھر کتب ’’آریہ دھرم‘‘ اور ’’کتاب البریہ‘‘ میں حضورؑ نے اپنی پُر امن جماعت کے اسماء بطور نمونہ دیتے ہوئے آپؓ کا نام ہر دو فہرستوں میں شامل فرمایا ہے۔ نیز ’’انجام آتھم ‘‘ میں 313کبار صحابہ کے نام درج فرماتے ہوئے 15ویں نمبر پر آپؓ کا نام تحریر فرمایا ہے۔
حضرت منشی صاحبؓ مالی قربانیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے۔ جلسہ سالانہ 1892ء کے موقع پر ایک فہرست ان صحابہ کے چندہ کی تیار کی گئی جو مطبع کے لئے چندہ بھیجتے رہیں گے آپؓ نے دو آنے ماہوار اور ایک روپیہ آٹھ آنے سالانہ چندہ دینے کا وعدہ لکھوایا اور سالانہ چندہ موقع پر ہی ادا کر دیا۔ ’’آئینہ کمالات اسلام‘‘ میں اسماء چندہ دہندہ گان کی فہرست میں 51ویں نمبر پر آپؓ کا نام موجود ہے۔ ’’سراج منیر‘‘ میں ’’فہرست آمدنی چندہ برائے طیاری مہمان خانہ وچاہ وغیرہ‘‘ میں آپؓ کے 5روپے چندہ دینے کا ذکر محفوظ ہے۔ اسی طرح کتاب ’’تحفۂ قیصریہ‘‘ کے آخر میں جلسہ ڈائمنڈ جوبلی 1897ء کے شرکاء اور ان احباب کے نام درج ہیں جنہوں نے چندہ دیا۔ آپ اس جلسے میں شامل نہ ہو سکے لیکن روپیہ چندہ بھجوایا۔
حضرت منشی ظفر احمد صاحب کپورتھلویؓ فرماتے ہیں کہ منشی گوہر علی صاحب کپورتھلہ میں ڈاکخانہ میں ملازم تھے۔ ساڑھے تین روپے ان کی پنشن ہوئی۔ گزارہ ان کا بہت تنگ تھا وہ جالندھر اپنے مسکن پر چلے گئے۔ انہوں نے مجھے خط لکھا کہ جب تم قادیان جاؤ تو مجھے ساتھ لیتے جانا۔ وہ بڑے مخلص تھے چنانچہ میں جب قادیان جانے لگا تو ان کو ساتھ لینے کے لئے جالندھر چلا گیا وہ بہت متواضع آدمی تھے میرے لیے انہوں نے پر تکلف کھانا پکوایا اور مجھے یہ پتہ لگا کہ انہوں نے کوئی برتن بیچ کر دعوت کا سامان کیا ہے۔ … میں نے منشی علی گوہر کا ٹکٹ خود ہی خرید لیا تھا وہ اپنا کرایہ دینے پر اصرار کرنے لگے۔ میں نے کہا یہ آپ حضرت صاحب کی خدمت میں پیش کر دیں۔ چنانچہ دو روپے انہوں نے حضرت صاحب کی خدمت میں پیش کر دیے۔ آٹھ دس دن رہ کر جب ہم واپسی کے لئے اجازت لینے لگے تو حضور علیہ السلام نے اجازت فرمائی اور منشی صاحب کو کہا آپ ذرا ٹھہرئیے۔ پھر آپؑ نے دس یا پندرہ روپے منشی صاحبؓ کو لا کر دیے۔ منشی صاحب رونے لگے اور عرض کی حضور مجھے خدمت کرنی چاہیے یا میں حضور سے لوں۔ حضرت صاحب نے مجھے ارشاد فرمایا کہ یہ آپ کے دوست ہیں آپ انہیں سمجھائیں، پھر میرے سمجھانے پر کہ ان میں برکت ہے انہوں نے لے لئے اور ہم چلے آئے۔ حالانکہ حضرت صاحب کو منشی صاحب کی حالت کا بالکل علم نہ تھا۔
حضرت منشی صاحبؓ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں ہی نومبر 1902ء جالندھر میں وفات پاگئے اور جالندھر میں ہی دفن ہوئے۔