حضرت مولانا ذوالفقار علی خانصاحبؓ گوہر
حضرت مولانا ذوالفقار علی خانصاحبؓ گوہر کی زندگی اور شاعری کے بارے میں ایک مضمون مکرم راشد متین احمد صاحب کے قلم سے ماہنامہ ’’خالد‘‘ ربوہ اگست 1998ء میں شامل اشاعت ہے-
1900ء میں آپؓ نے حضرت مسیح موعودؑ کی خدمت میں بیعت کا خط لکھ دیا اور پھر مئی 1904ء میں قادیان تشریف لے گئے لیکن بٹالہ پہنچ کر معلوم ہوا کہ حضورؑ ایک مقدمہ کے سلسلہ میں گورداسپور تشریف لے جاچکے ہیں- چنانچہ آپؓ گورداسپور کچہری پہنچے تو اگرچہ حضورؑ نے پہلے آپؓ کو نہ دیکھا تھا لیکن دیکھتے ہی پہچان لیا اور تحصیلدار صاحب کہہ کر مخاطب ہوئے- آپؓ اُس وقت تک نائب تحصیلدار تھے لیکن حضورؑ نے بعد میں بھی آپؓ کو ہمیشہ تحصیلدار صاحب کہہ کر ہی مخاطب کیا- بعد میں آپؓ تحصیلدار ہوگئے اور پھر اسسٹنٹ کمشنر کی منظوری بھی آئی لیکن اُس وقت آپؓ نے نواب صاحب رامپور کے کہنے پر اُن کی ملازمت اختیار کرلی اور اس طرح تحصیلداری سے آگے نہ بڑھ سکے-
رامپور میں ملازمت کے دوران قبول احمدیت اور نواب صاحب کی قربت کی وجہ سے ریاست کے اکثر عمائدین آپؓ سے حسد کرتے تھے اور درپردہ مخالفت پر آمادہ رہتے تھے- ایک مرتبہ کسی نے احمدی ہونے کی خواہش ظاہر کی تو آپؓ نے اُسے قادیان جانے کا مشورہ دیا- اُس نے اپنی مالی تنگدستی کا ذکر کیا تو آپؓ نے کچھ رقم بطور امداد کے دی اور ایک کتاب بھی پڑھنے کے لئے دی- اُس نے وہ رقم اور کتاب نواب صاحب کو یہ کہہ کر بھجوادی کہ یہ مجھے روپیہ دے کر قادیانی بنانا چاہتے ہیں- اگرچہ اس شکایت سے آپؓ بری ہوگئے لیکن آپؓ نے استعفیٰ دے کر سرکاری ملازمت دوبارہ اختیار کرلی-
حضرت مولانا صاحبؓ کے استاد نواب فصیح الملک داغ دہلوی تھے- ابتداء میں غزلوں کا رنگ دنیاوی تھا لیکن قبول احمدیت کے ساتھ ہی مذہب سے والہانہ عقیدت اور مقصدیت کا رنگ غالب آگیا- آپؓ نے فارسی میں بھی طبع آزمائی کی اور کچھ انگریزی شاعری کا بھی اردو منظوم ترجمہ کیا- آپؓ کا اکثر کلام تقسیم ملک کے وقت ہنگامے کی نذر ہوگیا- اگرچہ سلسلہ کے اخبارات و رسائل میں آپؓ کا کلام باقاعدہ شائع ہوتا رہا لیکن کتابی شکل میں انتخابی کلام آپؓ کی وفات کے بہت بعد 1991ء میں ’’کلام گوہر‘‘ کے نام سے آپؓ کے فرزند مکرم پروفیسر حبیب اللہ خان صاحب نے شائع کروایا-
رئیس احمد جعفری آپؓ کے بارے میں لکھتے ہیں ’’بہترین شاعر ہیں، تغزل میں اپنا رنگ سب سے الگ رکھتے ہیں، بوڑھے ہوچکے ہیں لیکن نہایت زندہ دل، ملنسار، شفیق، خلیق اور شوخ طبع بزرگ ہیں- صحت بھی ماشاء اللہ اچھی ہے، صحت کو اچھا رکھنے کے گُر جانتے ہیں، جوانوں سے زیادہ محنت کرتے ہیں‘‘-
اسی طرح قیس مینائی نے آپؓ کے کلام کے بارے میں لکھا:
پڑھ کے خود دیکھو کلامِ گوہر
کس قدر اونچا ہے بامِ گوہر
بادہ عشق بجامِ گوہر
قصر جنّت میں قیامِ گوہر
حضرت مولانا صاحبؓ کا نمونہ کلام ذیل میں ہدیہ قارئین کیا جاتا ہے:
اے احمدی دکھا تو تقدیمِ احمدیت
دنیا پہ کردے ظاہر تفخیمِ احمدیت
پیش نظر ہے جب تک تعلیمِ احمدیت
زیر عمل ہے جب تک تنظیمِ احمدیت
تو سر بکف نکل جا ظلمت کی وادیوں میں
شعلوں کے سایہ میں کر تفہیمِ احمدیت
کر شکر اس خدا کا احمد کو جس نے بھیجا
خوش قسمتی ہے تیری تنعیمِ احمدیت
حضرت مولانا صاحبؓ کی ایک نظم بعنوان ’’احمدیوں سے خطاب‘‘ سے انتخاب ملاحظہ فرمائیں:
وہ دکھ مجھے راحت ہے جو تجھ کو پسند آئے
وہ عشق نکمّا ہے جو تجھ کو نہ پرچائے
یہ جان بھی تیری ہے یہ مال بھی تیرا ہے
اچھا ہو یہ سب بچھڑے اور تو مجھے مل جائے
اسلام کے فرزندو گوہر کی سنو یارو!
کرنا وہی اے شیرو وہ یار جو فرمائے
ہیں صبر کی تاکیدیں تم صبر کئے جاؤ
طوفاں بھی کوئی سر سے گزرے تو گزر جائے
اس راہِ محبت میں کیا کام شکایت کا
راضی بقضا رہ کر دیکھو جو وہ دکھلائے
یہ کوچۂ الفت ہے رُسوائی سے مت ڈرنا
پیارا ہے وہی اس کا دیوانہ جو کہلائے
فرزندئی احمد کو بدنام نہ کر دینا
دل دے کے میرے پیارو مشکل نہیں سر دینا