حضرت مولانا شیر علی صاحبؓ
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 24؍اکتوبر 2003ء میں حضرت مولانا شیر علی صاحبؓ کی سیرۃ پر ایک مضمون شامل اشاعت ہے جس میں مختلف احباب کی روایات درج کی گئی ہیں۔
حضرت چودھری فتح محمد صاحب سیالؓ لکھتے ہیں کہ جب دسمبر 1910ء میں مَیں قادیان آیا تو بیمار تھا کیونکہ مخالفین نے میرے والد صاحب پر قتل کا ایک جھوٹا مقدمہ دائر کر رکھا تھا جس کے لئے مَیں بھاگ دوڑ کرتا رہا تھا اور صحت خراب ہوگئی تھی۔ قادیان آکر مَیں مدرسہ احمدیہ کے بورڈنگ میں لیٹا رہتا۔ حضرت مولوی صاحبؓ روزانہ وہیں تشریف لاکر مجھے سبق پڑھا دیتے تاکہ مَیں کلاس میں پیچھے نہ رہ جاؤں۔ آپؓ میرے شدید اصرار کے باوجود میری چارپائی کی ادوائن کی طرف ہی تشریف رکھتے۔
حضرت سیال صاحبؓ مزید لکھتے ہیں کہ جب مَیں حضرت خلیفۃالمسیح الاوّلؓ کے عہد میں آپؓ کے حکم سے اعلائے کلمۃاللہ کے لئے ولایت جانے لگا تو حضورؓ بیمار تھے اور آپؓ نے لیٹے لیٹے ہی مجھ سے معانقہ فرمایا اور دعاؤں کے ساتھ رخصت کیا۔ چونکہ جماعت کا بااثر طبقہ میرے ولایت جانے کے خلاف تھا اس لئے اُن میں سے ایک فرد بھی مجھے الوداع کہنے نہیں آیا۔ صرف ایک پاک وجود حضرت مولوی شیر علی صاحبؓ ہی تھے جو مجھے رخصت کرنے کیلئے اکیلے قادیان سے باہر بٹالہ کی سڑک تک تشریف لائے اور دعا کے بعد تانگہ پر سوار کرکے واپس چلے گئے۔
حضرت سیال صاحبؓ لکھتے ہیں کہ حضرت مولوی صاحبؓ کو حضرت مسیح موعودؑ سے عاشقانہ محبت تھی۔ جب حضورؑ مسجد مبارک میں تشریف لاتے تو مولوی صاحبؓ بڑھ کر حضورؑ کا جوتا اٹھالیتے اور جب حضورؑ رخصت ہونے لگتے تو حضورؑ کو جوتا پہنانے میں ایک سرور کی کیفیت محسوس کرتے۔
حضرت مولوی ظہورالدین اکمل صاحبؓ لکھتے ہیں کہ حضرت خلیفۃالمسیح الاوّلؓ جب گھوڑی سے گر کر بستر علالت پر کئی ماہ دراز رہے تو ایک روز فرمایا: یہ شیرعلی کہاں ہے؟ اسے ہماری فکر نہ ہو، ہمیں تو اس کی خیروعافیت کا ہمیشہ خیال رہتا ہے۔ حضرت مولوی شیرعلی صاحبؓ اُس وقت حضورؓ کے سرہانے بیٹھے تھے۔ دراصل آپؓ ہر روز حاضر ہوتے اور دیر تک سرہانے کی طرف فرش پر بیٹھے دعا میں مصروف رہتے اور حضورؓ کی تکلیف کے خیال سے آہستہ سے السلام علیکم کہہ کر چلے جاتے کیونکہ نمائش مقصود نہ تھی۔
مکرم مولا بخش صاحب پشاوری کہتے ہیں کہ حضرت مولوی صاحبؓ کے لئے ایک شخص دودھ لایا کرتا تھا۔ ایک بار وہ اپنے حساب کے مطابق رقم بتاتا تھا لیکن آپؓ فرماتے تھے کہ تمہارا حساب میرے پاس درج ہے، تمہاری رقم زیادہ بنتی ہے۔ آخر اصرار کرکے اُسے زیادہ رقم ادا فرمائی۔
مکرم عبدالمجید منیب صاحب کہتے ہیں کہ حضرت حافظ عبدالعزیز صاحب نونؓ کے ہاں ایک دو بچے پیدا ہوکر فوت ہوگئے۔ دو بیٹیاں تھیں۔ جب بیوی سے اولاد کے متعلق اُن کو مایوسی ہوئی تو انہوں نے رشتہ کی تلاش کے لئے حضرت مولوی صاحبؓ سے بھی دعا کی درخواست کی۔ آپؓ نے فرمایا: پہلی بیوی موجود ہے، اللہ تعالیٰ تو مُردوں سے زندہ پیدا کردیتا ہے۔ چنانچہ کچھ عرصہ بعد اللہ تعالیٰ نے حضرت حافظ صاحبؓ کو ایک ذہین اور خوبصورت بچہ عطا فرمایا جس کا نام حضرت مصلح موعودؓ نے عبدالسمیع رکھا۔ (یہ مکرم عبدالسمیع نون صاحب بی۔اے، ایل۔ایل۔بی ہیں)۔